بند کتاب 0

بند کتاب

ملک منظور قصبہ کھُل کولگام

غربت ایک عنا ہے اور جب اس صعوبت کے ساتھ ساتھ مفلس آدمی کو دو یا تین بیٹیوں کے باپ ہونے کی بالیدگی بھی حاصل ہوتی ہے تو مفلسی نہییں بلکہ بیٹیاں بوجھ بن جاتی ہیں اور گھر کا سماں اجڑا پجڑا ہوجاتا ہے ۔اس ثقالت سے جو ڈر پیدا ہوتا ہے اس کا شکار اکثر بیٹیاں ہوتی ہیں ۔والدین کندھوں پر سے بوجھ ہٹانے کے لئے اپنی بیٹیوں کی شادی جتنی جلدی ہوسکتی ہے کر دیتے ہیں پھر چاہیے بیٹیاں خوبصورتی، متانت، ادراک،صلاحیت اور زہانت سے مالا مال ہی کیوں نہ ہوں ۔یہ ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔لوگ بیٹوں کو بوڑھاپے کا سہارا مانتے ہیں اور کمائی کا زریعہ ۔اتنا ہی نہیں بلکہ جاہلانہ رسم یہ ہے کہ لوگ اولاد نرینہ کو ہی اپنا اصلی وارث مانتے ہیں اور نسل بڑھانے اور نام‌ کے وجود کا موجب بھی۔
مجید بھی اسی ماحول کا نمائندہ تھا
وہ محنت مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتا تھا ۔مزدوری کے روپیوں سے جتنا ہوسکتا تھا وہ بچوں کے لئے اتنا کرتا ۔ان کے نان نفقے اور تعلیم و تربیت کا اہتمام آسان نہیں تھا ۔لیکن مجید نے بھرپور کاوشوں سے بچوں کو کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی ۔بڑی بیٹی جمیلہ نے حال ہی میں گریجویشن پوری کی ۔دوسری بیٹی دسویں میں پڑھتی تھی اور تیسری بیٹی آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی جبکہ بیٹا ابھی پرائمری اسکول میں ہی زیر تعلیم تھا ۔جمیلہ کی گریجویشن کے ساتھ ہی مجید کو اس کی شادی کے بھئے نے ستانا‌ شروع کردیا کیونکہ وہ لگاتار مزدوری کرنے سے اب کمزوری محسوس کرنے لگا تھا اور اکثر سوچتا تھا ۔۔۔۔کاش بیٹی کی جگہ بڑا بیٹا ہوتا جو میرا ہاتھ بٹاتا۔ ۔جمیلہ انتہائی ذہین اور ہنر مند لڑکی تھی ۔وہ امتیازی مقام حاصل کر کے گریجویٹ بنی تھی۔اب وہ اپنے روشن مستقبل کیلئے کوشاں تھی اور گھر‌والوں کی فکر سے ناآشنا ۔اسی اثنا میں والدین نے اس کا رشتہ شبیر نامی ایک نوجوان سے طے کیا ۔شبیر نے صرف آٹھویں جماعت تک پڑھا تھا اور ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا ۔وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تھا ۔
مجید نے اپنی بیٹی جمیلہ سے جب رشتے کے بارے میں کہا تو جمیلہ مبہوت ہوگئی ۔وہ کچھ کہہ نہیں پائی ۔بس سرگرداں ہوگئی ۔اس کے سارے سپنے ٹوٹ گئے۔وہ والدین کا نام روشن کرنا چاہتی تھی ۔اسی لئے سخت محنت کرتی تھی ۔
جمیلہ ماں سے روتے ہوئے کہنے لگی ۔
ماں ۔۔اتنی جلدی کیوں ؟
میں اتنی محنت اس لئے کر رہی تھی تاکہ اباجان کا بوجھ بننے کے بجائے اس کا بوجھ ہلکا کر سکوں ۔
خود ذمہ داری اٹھاؤں تاکہ اباجان کو راحت ملے ۔
ماں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا
دیکھو بیٹی ۔۔آج نہیں تو کل آپ کی شادی ہونی ہی ہے
آج ایک اچھا لڑکا مل رہا ہے ۔اس زمانے میں ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو حرث اور خود غرضی سے پاک ہوں ۔پہلے لوگ لڑکی کا ہاتھ مانگتے تھے ۔اب رشتے کی پیش کش کرتے ہیں وہ بھی موٹی رقم کے ساتھ ۔رسموں رواجوں نے غریبوں کا حال بےحال کیا ہے ۔ایسے میں اچھے رشتے مقدر سے ملتے ہیں ۔وہ دہیج بھی نہیں مانگ رہے ہیں ۔اور تیرے علاوہ ہماری دو اور بیٹیاں ہیں ۔ہمیں ان کی بھی فکر ہے ۔
جمیلہ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔ماں میں ایک سال میں کوئی نہ کوئی امتحان پاس کر لوں گی اور پھر ابا جان کا ہاتھ بٹاوں گی ۔
ماں نے ٹوکتے ہوئیے کہا ۔۔اتنے بھی برے دن نہیں آئے ہمارے کہ بیٹی کی کمائی کھائیں گے ۔بیٹی پرایا مال ہوتی ہے اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو سسرال بھیجنا چاہیے ۔
جمیلہ سمجھ گئی کہ وہ والدین پر بوجھ بن چکی ہے ۔لہزا خوبصورت سپنوں کو دفنا کے اس کو کتابیں بند کرکے سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔ ۔شادی کی تیاریاں ہونے لگی ۔
ایک دن والدین نے جمیلہ سے کہا ۔۔۔دیکھو بیٹی ۔۔۔شبیر زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے ۔اس لئے تو بھی بھول جا کہ تونے گریجویشن کی ہے ۔کہیں تیری اونچی پڑھائی تیرے طلاق کا باعث نہ بنے ۔۔
بہرحال شادی ہوگئی ۔جمیلہ سسرال پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ شہر چلی گئی جہاں شبیر کام‌کرتا تھا ۔شبیر نے جمیلہ کو بہت پیار دیا ۔ساری کمائی جمیلہ کے حوالے کرتا تھا اور کہتا رہتا تھا ۔۔۔جمیلہ ۔۔۔جو چیز پسند آئے خرید لینا ۔۔۔۔اپنی من‌پسند کے کپڑے وغیرہ وغیرہ ۔
جمیلہ نے کچھ کتابیں خریدیں اور کبھی کبھی رسالے بھی لاکر پڑھنے لگی ۔وہ ہر دن صبح شوہر کے لئے ناشتہ اور ٹفن تیار کرتی اور شام کو واپس آتے ہی کھلی پیشانی کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ۔دونوں میاں بیوی خوشی خوشی جینے لگے ۔ ایک سال کے بعد جمیلہ نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ۔اس کی ذندگی کا نیا دور شروع ہوگیا ۔وہ بچوں کی پرورش میں مصروف ہوگئی اور ان‌ کی تعلیم و تربیت پر دھیان دینے لگی ۔شوہر شبیر بھی بخوبی ساتھ دے رہا تھا ۔بچوں کو اسکول چھوڑ دیتا اور پھر کام پر چلا جاتا ۔یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب‌ تک وہ مزدوروں کی یونین کا لیڈر بنا ۔ لیڈر بنتے ہی اس کے تیور بدل گئی۔ اس کے کپڑے پہننے کا ڈھنگ اور سٹائل بدل گیا ۔وہ فیکٹری کے دفتر میں آنے جانے لگا ۔دفتر میں اس کی ملاقات شمع نامی ایک لڑکی سے ہوئی جو وہاں کام کرتی تھی ۔وہ اس کی خوشامد میں وقت گزارنے لگا اور اپنی زمہ داریوں سے بھاگنے لگا ۔جمیلہ اس کی بیہودہ حرکات سے بےخبر گھریلو کام کاج میں مصروف تھی ۔اس کے چہرے کی خوبصورتی زائل ہوگئی تھی اور جسمانی کشش بھی معدوم ہوگئی تھی ۔وہ خود کے بجائے بچوں کو سنوارنے لگی اور شوہر کی سجاوٹ سے خوش ہوتی تھی ۔شبیر اب بچوں کو اسکول بھی نہیں چھوڑتا تھا ۔گھر سے جلدی جلدی نکل جاتا اور ایک ٹفن کے بجائے دو دو ٹفن اپنے ساتھ لینے لگا ۔شام‌کو دیر سے گھر لوٹنے لگا ۔جمیلہ یہی سمجھتی تھی کہ زیادہ کام کاج کی وجہ سے اس کا شوہر دیر سے آرہا ہے۔
ایک دن‌ ناقص صحت کی وجہ سے جمیلہ وقت پر کھانا تیار نہ کرسکی اور شبیر بغیر ٹفن کے نکل گیا ۔دوپہر کے وقت فیکٹری کا دوسرا مزدور ٹفن لینے کے لئے آگیا ۔
جمیلہ نے ٹفن تیار کیا اور ملازم سے پوچھا ۔
بھیا ۔یہ دوسرا ٹفن کون‌ کھاتا ہے ؟
ملازم ۔۔۔بہن‌ ۔۔۔آپ کو نہیں معلوم
یہ ہماری میڈم کھاتی ہے
جمیلہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا ۔۔میڈم!
ملازم ۔۔جی میڈم ۔۔شبیر صاحب تو ان کے ساتھ گل چھرے اڑا رہے ہیں ۔۔۔اور مستی کر رہے ہیں
جمیلہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔یہ لو ٹفن اور جاؤ ان کو بھوک لگی ہوگی ۔
جمیلہ سمجھدار عورت تھی ۔اس کے من میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوئے اور وہ غصہ بھی ہوئی ۔لیکن وہ جزبات میں آکر معاملے کو بگاڑنے کے بجائے سلجھانا چاہتی تھی ۔اس نے تحقیقات شروع کی اور حقائق سامنے لائے ۔وہ خاموش رہی اور کوئی موثر تدارک سوچنے لگی ۔اسی پریشانی میں مبتلا ہو کر وہ ایک دن دیوار سے ٹیک لگا کر کچھ گنگنا رہی تھی کہ اس کے بیٹے نے الماری کا دروازہ کھولا اور جمیلہ کی نظر الماری میں بند کتابوں پر پڑی ۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھل اٹھے۔ اور اس نے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا ۔۔۔بیٹا ، آج تونے الماری کا نہیں بلکہ میری خوشیوں کا دروازہ کھولا ۔
اس نے اٹھ کر ایک کتاب کو نکال کر سینے سے لگایا اور پھر سے پڑھنا شروع کیا ۔وہ صبح سویرے جاگ کر گھر کے سارے کام کاج جیسے بچوں اور شوہر کے لئے بریک فاسٹ اور ان کا ٹفن وغیرہ وغیرہ تیار کر کے رکھتی ۔پھر بچوں کو اچھے سے تیار کرکے اسکول بس میں سوار کر کے فرصت سے کتابوں کا مطالعہ کرتی ۔یوں یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہا نہ شوہر سے توتو میں میں اور نہ ماتھے پر شکن ۔بس اپنے ہی کام میں مگن رہ کر محنت کرتی رہی ۔جب امتحان کا وقت قریب آیا تو جمیلہ نے شوہر سے کہا ۔۔
شبیر ،میں کچھ دنوں کے لئے میکے جارہی ہوں۔بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔مہربانی کر کے منیج کر لینا اور اپنے دوست کا بھی خیال رکھنا ۔
شبیر اس موقعے کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا ۔لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا ۔اس نے حلیمانہ انداز اپناتے ہوئے کہا ۔۔ٹھیک ہے ۔۔جاو۔۔ ماں اور بابو جی کو میرا‌ سلام کہنا ۔۔۔
جمیلہ نے گھر کی ساری چابیاں شوہر کے حوالے کی اور میکے چلی گئی ۔۔اس دوران شبیر نے خوب مستی کی اور نئی محبوبہ کے ساتھ گھومتا رہا ۔
دس دن‌کے بعد جمیلہ گھر لوٹی اور پھر سے گھریلو کام کاج میں مصروف ہوگئی ۔ کئی مہینے گزر گئے ۔
ایک دن‌ شبیر اپنی محبوبہ شمع کے ساتھ ایک ریستوران میں کافی پینے کے لئے داخل ہوگیا اوردونوں‌ ایک میز کے پاس بیٹھ گئے ۔شمع نے میز پر رکھا ‌ہوا اخبار ہاتھ میں اٹھایا اور پڑھنے لگی ۔اس کے منہ سے یکلخت یہ الفاظ نکلے ۔۔۔ارے واہ ! یہ تو کمال ہوگیا ہے ۔
شبیر نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ایسا کیا ہوا ہے جو آپ اتنی زور سے ہنس رہی ہیں۔۔۔
شمع نے اخبار کی سرخی پڑھی ۔۔۔دو بچوں کی ماں نے ریاستی سطح کا امتحان پاس کر کے مثال قائم کی ۔۔
شبیر دیکھ۔و (اخبار دکھاتے ہوئے) اس عورت نے شادی کے پانچ سال بعد ریاستی سطح کا امتحان پاس کیا ہے وہ بھی دو بچوں کو جنم دینے کے بعد ۔
شبیر نے جب عورت کی تصویر دیکھی تو وہ ششدر رہ گیا ۔اس نے شمع کے ہاتھ سے اخبار چھینا اور غور سے دیکھنے لگا ۔۔اس کے چہرے کا رنگ اتر گیا ۔
شمع نے پوچھا کیا ہوا شبیر ۔۔۔تو تو ایسے پریشان ہوگیا جیسے تیری بیوی نے امتحان پاس کیا ہے اور تجھے پتہ ہی نہیں ہے ۔۔۔۔شبیر کافی پیے بغیر ریستوران سے ایسے بھاگ گیا جیسے کوئی چور‌ بھاگتا ہے ۔شمع حیران و پریشان واپس آفس آگئی ۔وہاں مزدور سرگوشیاں کر رہے تھے ۔ایک مزدور نے شمع سے کہا ۔۔۔میڈم ،میڈم ۔۔آپ کو معلوم ہے ۔۔ شبیر کی بیوی افسر بن گئی ہے ۔۔۔
شمع کو یہ سن کر دھچکا لگا ۔وہ من ہی من میں سبک سر ہوئی ۔اس کا ضمیر اس کو کوسنے لگا ۔
وہ خود سے باتیں کرنے لگی ۔۔میں ایک عورت ہو کے دوسری عورت کا گھر اجھاڑنے جارہی تھی ۔۔کتنی بڑی احمق ہوں میں ۔۔۔۔خدایا رحم
وہ سمجھ رہی تھی شبیر ابھی کنوارہ ہے ۔
ادھر جب شبیر گھر پہنچا تو وہاں سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا ۔اس کے لئے چائے تیار تھی ۔۔بیوی نے ہنستے ہنستے خیر مقدم کیا ۔۔لیکن شبیر کی زبان پر آج تالا لگا تھا ۔اس کے سامنے ایک بند کتاب کھل گئی تھی ۔
اس نے اخبار کھول کر جمیلہ سے کہا ۔۔۔۔کیا یہ تمہاری تصویر ہے ؟
جمیلہ نے دیکھے بغیر کہا ۔۔۔ہاں میں ہی ہوں
شبیر نے نرم لہجے میں پوچھا ۔۔۔کیا تم سچ مچ آفیسر بن گئی ہو ۔۔
جمیلہ نے ہاں میں جواب دیا ۔۔
شبیر نے پھر پوچھا ۔۔۔لیکن تونے کبھی مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم پڑھی لکھی ہو ؟
جمیلہ مسکرائی اور بات ختم کرنے کے لئے شبیر سے کہا ۔۔میں نے آپ سے شادی کرنے کے لئے کتابیں بند کر دیں اور آپ کی عزت نفس کے لئے خاموش ہوگئی ۔آج آپ کو واپس پانے کیلئے میں نے بند کتاب کھول دی۔۔۔
شبیر کا سر شرم سے جھک گیا وہ منفعل ہوکر گھبرانے لگا‌ ۔۔
اس نے ہکلاتے ہوئیے جمیلہ سے پوچھا ۔۔۔
ک ک ک کیا تم مجھ سے طلاق لو گی ؟
جمیلہ نے پاس آکر کہا ۔۔۔نہیں شبیر ۔۔تم‌ایسا کیوں سوچتے ہو ۔۔۔ایک عورت اپنے شوہر کے لئے سب کچھ تیاگ دیتی ہے ۔۔۔اس کے بھروسے پر سسرال آتی ہے اور پوری زندگی نچھاور کردیتی ہے ۔۔مرد دوسری بیوی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ۔۔لیکن ایک بیوی ،ایک ماں بس اپنے شوہر اور بچوں کے پیار میں کھو جاتی ہے ۔
آج سے تم میرے پاس ،میرے ساتھ ساتھ رہو گے ۔
جہاں میں جاؤں گی وہاں تم بھی آؤ گے ۔۔۔تم‌ زمہ دار ہو اور زمہ دار رہو گے ۔میرے بھی اور بچوں کے بھی ۔
شبیر ۔۔۔۔لیکن‌ کیسے ؟
جمیلہ ۔۔۔میرے پہلو میں کوئی غیر آدمی نہیں بلکہ تم بیٹھ کر گاڑی چلاؤ گے۔۔ اکاونٹس دیکھو گے اور پہلے کی طرح ساتھ نبھاؤ گے ۔۔ شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ محافظ بھی بنو گے۔۔
����
������
ملک منظور قصبہ کھُل کولگام
9906598163

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں