مرتضیٰ
بیٹا بخار سے جل رہا تھا ۔ اور باپ بے بس ہوکر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سوچتا ہے کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ۔گاوں میں اب کوئی شفاء خانہ بھی نہیں جہاں جاکر بچے کے لئے دوائی لے آؤں ۔ بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی ۔ بیٹے کو درد میں چیختے دیکھ کر باپ کے منہ سے بے ساختہ یہ آوازیں نکلنے لگئیں ۔میرے لال! میرے لال! تم ٹھیک ہو جاؤ گے گھبراو مت ۔تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
بے چینی اور اضطرابی کیفیت میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ ہونٹوں پر تھر تھراہٹ سی پھیلنے لگی ۔ بیٹا بخار میں جل رہا تھا اور منہ سے بے ساختہ کبھی ابو تو کبھی خدا پکار رہا تھا۔ اتنے میں ایک قریب کا ہمسایہ مکان کے باہر مرکزی دروازے پر آوازیں دینے لگا عبدالعزیز گھر میں ہی ہو ؟۔ ارے! کوئی گھر میں ہے کیا؟
عبدالعزیز جرأت کر کے کانپتی ٹانگوں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف دیوار کے سہارے بڑھنے لگا یہ دیکھنے کے لیے کہ باہر دروازے پر کون ہے ۔ دروازہ کھولا تو پڑوسی ذاکر حسین تھا جو کسی حاجت سے آیا تھا۔ دروازہ کھلنے پر سلام دعا کے بعد عبدالعزیز کے چہرے پر افسردگی اور لہجے میں عاجزی سے اخذ کیا کہ گھر کے حالات شاید کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔وہ پوچھنے ہی والا تھا کہ اندر سے بیٹے نے ابو کو آواز دی کہ شدت کی پیاس لگ رہی ہے مجھے پانی چاہئے ۔ یہ سن کر ذاکر حسین بھی اندر آیا اور دیکھا کہ بچے کی حالت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ ابو جان پانی کا گلاس لئےکمرے میں داخل ہوا۔ بیٹا اس قدر بیمار تھا کہ پانی کا گلاس ہاتھ میں لینے کی طاقت نہیں تھی ۔ذاکر حسین نے مدد کر کے پانی کا گلاس اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کچھ گھونٹ پانی کے پلائے۔ وہ کس کام کے لئے آیا تھا یہ بھول کر وہ ان کے اس غم میں برابر کا شریک رہا ہائے کیا دن تھے وہ بھی جب انسان دوسروں کے کام آنے کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا تھا ۔ خیر اب ہمارے مکانات گاؤں میں بھی کسی جیل خانے سے کم نہیں ہیں ۔ بالکل جیل خانے کی طرح ہی صحن کے اردگرد دس بارہ فٹ اونچی دیواریں، لوہے کے مظبوط مرکزی دروازے جو دن میں بھی اندر سے ہمیشہ بند ہی رہتے ہیں ۔ اور گھر کے افراد خانہ نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ تحفے ہمیں جھوٹی شان کی وجہ سے مل رہے ہیں۔ چلئے اب کیا پشتائے جب چڑیا چک گئ کھیت۔ خیر زاکر حسین عبدالعزیز سے مشورہ کرنے لگا کہ بیٹے کو اس بیماری سے کیسے آزاد کیا جائے ۔ان دنوں گاؤں میں عام فہم لوگ سائنس پہ کم اور پیر فقیری پر زیادہ یقین کرتے تھے۔ تو آخر پر مشہورہ ہوا کہ کسی نامی پیر صاحب کو بلا کر کچھ دم تعویز کے ذریعے ہی اس بیماری کا علاج کرایا جائے ۔ اسی وقت پڑوسی ذاکر حسین ایک نامی پیر بابا کو دور کے گاؤں سے لینے کیلئے گھوڑے پر سوار ہوکر نکل پڑے اور یہاں عبدالعزیز بیٹے کو آرام میں دیکھ کر پڑوسی کے لڑکے ارشمان کو بلا کر لاتا ہے تاکہ وہ دیسی مرغے کو پکڑنے میں مدد کرے جسکو پیر با با کے لئے تیار بھی کرنا تھا ۔ تیاریاں شروع ہوئی۔ گھر کی عورتیں بھی اب کھیتوں سے لوٹ رہی تھی اور ان کے بعد گھر کے مرد بھی ۔ سب کو اب اس بات کا علم ہوا کہ شام کو پیر بابا ہمارے گھر کھانے پر آرہے ہیں۔ اس لئے سبھی اس نیک کام میں اپنی تھکان بھول کر جھٹ گئے۔ شام ہونے کو تھا کہ ذاکر حسین گھوڑے کی رسی پکڑے پیر بابا کو اس پر سوار کرکے صحن میں نمودار ہوا۔ گھر کے سبھی افراد خانہ چھوٹے بڑے خوش ہوکر باہر صحن میں نکل کر اس نامی پیر بابا کو گھر میں خوش آمدید کرنے لگے سلام دعا کے بعد پیر بابا ہاتھ میں تسبیح لئے اللہ ہو۔ اللہ ہو۔۔۔ کے کلمات دہراتے ہوے مکان کے اندر داخل ہوا۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کے لئے مسلح بچھایا۔ نماز کے بعد کافی دیر مسلح پر ہی اونچی أواز میں پاک ذات کے پاک کلمات دہرانے لگا۔۔ظاہری عبادات میں بہت دیر خوب مشقت کی اور پھر عبدالعزیز کو بلا کر لایا جو مسجد میں نماز کی ادایئگی کے لئے گیا ہوا تھا۔ اب کچھ افراد خانہ کمرے میں داخل ہوئے اور پیر بابا کے ارد گرد دیوار سے تھوڑا دور ہٹ کر بیٹھے۔ پیر با با چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ان سے مخاطب ہوے کہ ۔۔۔۔
بیٹا کسی مرض میں مبتلا نہیں بلکہ جنات کے قابو میں ہے جو اس سے بڑی مشقت کے کام کرارہے ہیں ۔ بستر میں لیٹے بشیر احمد بخار سے ابھی بھی ابھل رہے تھے اور بے انتہا پسینے میں تیر رہے تھے۔۔یہ دیکھ کر پیر بابا اپنے دعوے کی بنیاد کو اور مظبوط کررہے تھے ۔کہ میں نے نہ بتایا کہ اس پہ جنات کا پہرہ ہے اور یہ لڑکا انکی مظبوط گرفت میں ہیں جو اس بے چارے سے لکڑیوں کے بھاری لٹھے پہاڑ پر چڑھا رہے ہیں۔ یہ سن کر بشیر احمد بیمار لڑکا رضائی کو ایک طرف کرکے بے ساختہ بول پڑا کہ پیر بابا کیا فرما رہے ہیں ۔میں کوئی مشقت والا کام نہیں کررہا ہوں اور نہ ہی میں کسی جن کی گرفت میں ہوں۔اس پر پیر بابا بولے بیٹا یہی تو لاعلمی ہے تم کیسے یہ سب جانو گے ۔یہ سب جاننے کیلئے بڑی محنت اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے۔لیکن پیر بابا اندر ہی اندر جان گیا کہ یہاں میری دال گھلنے والی نہیں۔یہ لڑکا مجھے بہت ہی ہوشیار دکھائی دیتا ہے ۔اور پیر بابا کچھ تعویز لکھنے میں محو ہوا اور لڑکے کو قریب سے کچھ پھونک بھی مار رہا تھا۔ یہ سب ہونے کے بعد گھر کے افراد خانہ کو آواز دی کہ اگر کچھ کھانے کے لئے تیار کیا ہے تو لےآو۔ مجھے واپس گھر بھی جانا ہے۔یہ سن کر سبھی افراد خانہ پیر صاحب کی خدمت میں لگ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد اب پیر بابا کو واپس گھر چھوڑنے کے لئے پھر گھوڑا منگوایا گیا اور پیر صاحب کو ہدیہ بھی دیا گیا ۔ پیر صاحب نے ہدیہ قبول کرتے ہوئے کیا کہ ۔گبھرانے کی کوئی ضرورت نہیں صبح تک لڑکا بالکل ٹھیک ہوگا اور ان ہی الفاظ سے گھوڑے پر سوار ہوکر نکل پڑا۔
گھر میں سب مطمین تھے کہ صبح تک بیٹا ٹھیک ہوجاے گا۔ لیکن بیمار بیٹے کی حالت بد سے بدتر ہونے لگی۔ؤاے! ہاے! عبدالعزیز کے منہ سے یہ کلمات نکلے کہ نفس کتنا ہم أدم ذات پر حاوی ہورہا ہے نفس کے خاطر ہم انسانی جانوں تک کھیل کھیلتے ہیں ۔دکھ یہ نہیں کہ پیر بابا دیسی مرغے سے کھانا کھا کر چلے گئے بلکہ اس بات کا ہے کہ اگر اسکے ہاتھ سے میرا لارڑلا بیٹا ٹھیک نہ ہوتا تو سچ بولنے سے کیوں قاصر رہا۔ اب سبھی افراد خانہ پریشان ہونے لگے اتنے میں کسی نے یہ مشورہ دیا کہ نزدیک میں ہی ایک اور نامی پیر بابا ہے جو نہایت ہی پاکباز اور صادق ہے اور پیشے سے ہیڈ ماسٹر بھی ہیں شاید اسکے ہاتھ سے بیمار کو شفاء نصیب ہوجائے۔ سب نے حامی بھرلی اور پیر صاحب کو لانے ایک أدمی چلا گیا۔ پیر صاحب آے ۔ گھر والوں نے کچھ کھانے کا انتظام کرنا چاہا تو پیر صاحب نے کہا اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کہاں ہے بیمار لڑکا۔ پیر صابر کو اس کمرے میں لیا گیا تو بیمار کو دیکھنے کے بعد پیر صاحب نے بیمار کی حالت دیکھ کر عبدالعزیز سے کہا یہ لڑکا پھونک تعویز سے ٹھیک ہونے والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مرض ہے جو ہسپتال میں ڈاکٹروں کے ذرئعے ہی ٹھیک ہوسکتا ہے اسلئے آپ وقت ضائع کئے بغیر ہی صبح شہر کے بڑے ہسپتال میں کسی اچھے ڈاکٹر سے اسکا علاج کرائیں ۔ یہ سن کر سب گھر کے افراد حیرت میں پڑگئے کہ ایسے سچے اور نیک بخت انسان ابھی بھی موجود ہیں جو عام فہم لوگوں کی نادانیوں کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں بلکہ سچ بولتے یہ۔پھر سب لوگوں نے پیر صاحب کی بات سے اتفاق کیا اور اگلی صبح بیٹے کو شہر کے بڑے ہسپتال میں لینے کے لئے بس میں روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر ڈاکٹر بان نے لڑکے کو وارڑ نمبر انیس میں درج کیا علاج و معالجہ شروع ہوا اور یہ علاج وارڑ نمبر انیس میں برابر انیس دن چلا اور انیس دن کے بعد ڈاکٹر بان مطمین ہوکر بیمار بچے کو ان اچھے اور میٹھے کلمات سے رخصت کیا ۔ کہ بیٹا اب تم گھر جاسکتے ہو کیونکہ اب تم کو گھر کی ‘ گھر والوں کی ‘ یاروں دوستوں کی یاد بڑی ستا رہی ہوگی۔ وہ بچہ بڑے شکرانہ لہجے میں کہنے لگا ڈاکٹر صاحب میں آپ کو بتاوں کہ میں آپ کی دوائی سے کم بلکہ آپ کے برتاؤ ، لہجے اور آپ کے اس ہمدردانہ کردار سے زیادہ ٹھیک ہوا ہوں۔رب آپ کو لمبی عمر سے نوازے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے لڑکے کو گلے لگا کر کہا بیٹا یہی تو ہمارا پیشہ ہے۔ہم تو اسی کام کی سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں ۔عام فہم الفاظ میں کہا جائے تو ہم ڈاکٹر لوگ بیماروں کے نوکر ہوتے ہیں اور ہماری کوشش سے اگر کسی کی جان بچ جائے تو ہم دنیا کے خوش قسمت لوگ ہیں۔ شکریہ بیٹا اب أپ گھر خوشی خوشی جاسکتے ہو۔اور ہاں بیٹا أج تم انیس دن بعد وارڑ نمبر انیس سے نکل رہے ہو۔ مالک ہم سب کا بھلا کرے الوداع۔