ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
نجمہ آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔دو منٹ بیٹھو ۔
جی ابو ! حکم کیجئے، نجمہ نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ بیٹی اگر آپ کی والدہ زندہ ہوتی تو یہ باتیں وہ آپ سے کرتی۔ لیکن اب مجھے ہی آپ سے یہ باتیں کرنی ہے کیونکہ میں آپ کی ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کی شادی کرنا چاہتا ہوں ۔اگر آپ کی نظر میں کوئی نیک اور شریف لڑکا ہو تو آپ بلا جھجھک کہہ سکتی ہیں ۔ نجمہ نے خاموشی سے ابو کی بات سنی اور نکل پڑی کالج کے لیے۔ ہفتے میں دو بار والد صاحب کا یہ سوال نجمہ کو سننا پڑتا تھا. اس دن بھی والد صاحب نے کچھ زیادہ ہی اصرار کیا ۔اور نجمہ کہنے لگی۔ جی ابو یونیورسٹی میں ایک لڑکا اکانومیکس میں پی۔ ایچ ڈی کر رہا ہے۔ بہت ہی بااخلاق ہے اور صوم و صلاۃ کا پابند بھی ہے ۔ہاں مگر غریب ہے ۔ہماری ملاقات اکثر لائبریری میں ہوتی ہے۔ وہ بھی لائبریری میں کورس کی کتابیں لینے آتا ہے ۔ ہم صرف پڑھائی کی باتیں کرتے ہیں ۔ ہماری ملاقات پر نہ ہی اساتذہ انگلی اٹھاتے ہیں اور نہ ہی طلاب ۔کسی کو بھی ہماری ملاقات پر اعتراض نہیں ہے. ہم صرف اور صرف پڑھائی کی باتیں کرتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ان سے ملواؤں گی ۔ ورنہ مجھے آپ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانا گوارا نہیں ہے۔
ابو نے یہ ساری باتیں سن لی اور کچھ بھی نہیں بولا۔ نجمہ بھی خاموش ہو گئی اور کالج کے لیے نکل پڑی ۔ ابو کی خاموشی سے نجمہ کا دل بھاری ہو گیا ۔ ۔عمران نے دیکھتے ہی بھانپ لیا اور نجمہ سے پوچھا نجمہ کیا بات ہے گم سم کیوں ہو ؟ نجمہ نے بات ٹالی۔ خیر اس معاملے میں ایک ہفتے تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ایک دن عمران نے اپنے افسانوی مجموعے “چھبن” کی رسم رونمائی یونیورسٹی کے رجسٹرار سے کروائی۔ اس نے ایک کتاب مجھے بھی دی ۔میں نے انکار کیا میں کیا کروں گی اس کتاب کا ۔ مجھے تو اردوو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ عمران نے کتاب لینے کے لیے سخت اصرار کیا ۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر ہم دونوں کی بات خوشگوار منزل پر ختم ہوئی تو بہتر ورنہ اس کتاب کو یادوں کی سوغات سمجھ کر رکھ لینا۔ نجمہ نے جب کتاب گھر لائی تو ابو نے کہا بیٹی یہ کتاب کیسی ہے ۔
ابو یہ اردو کی کتاب ہے کسی دوست نے مجھے تحفہ دی ہے حالانکہ میں نے کہا بھی تھا کہ اردو سے مجھے زیادہ رغبت نہیں ہے لیکن اس نے اصرار کیا۔۔
بیٹی ذرہ دکھاؤ کون سی کتاب ہے یہ. میں پڑھوں گا مجھے اردو سے بے حد لگاؤ ہے ۔واہ کیا بات ہے سرورق، کاغذ اور لکھائی تو بہت خوب ہے پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اندر کیا ہے باہر سے تو بہت ہی خوبصورت اور دلکش کتاب لگ رہی ہے ۔
ویسے یہ کون ہے کیا یہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے یا کوئی استاد ہے ۔ابو نے پوچھا
ابو کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا کہ بیٹی کتاب کا وجہ تسمیہ بھی خوب ہے امید ہے کتاب بھی اچھی ہوگئی ۔ شام کو ابو نے کہا ۔ بیٹی چند افسانے تو میں نے پڑھے ہیں بڑا مزہ آیا ۔ کہیں کہیں پر آنکھیں بھر آئی ہیں ۔ بڑا عمدہ تخیل ہے۔ ایک افسانے میں کسی بیٹے کے اپنی والدہ کو وردھ آشرم میں ڈالنے کا قصہ لکھا ہے بیٹی اور بہو ماں کو بوجھ سمجھتے تھے اور اسے وردھ آشرم میں بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔اسی طرح کا ایک اور افسانہ بھی ہے جس میں ماں باپ کو اولڑ ایج ہوم( old age home) میں ڈالا جاتا ہے جب یہ بات بیٹی کو پتہ چلتی ہے تو وہ خود جاکر اپنے باپ کو گھر لے آتی ہے۔ اس واقعہ نے تو مجھے رلا ہی ڈالا ۔ ایک اور افسانہ بھی لکھا ہے جس میں علاقے کو ناقص پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ یہ لڑکا خود پانی کے چند نمونے لے کر ان میں بکری کی مینگنیاں ڈالتا ہے اور ٹیسٹ کے لیے اسی نیت سے لیبارٹری میں بھیج دیتا ہے تاکہ وہاں سے رپورٹ آئے گی کہ پانی ناقص ہے اور متعلقہ محکمہ علاقے کو صاف پانی مہیا کرائی گا لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب ضلع کے ڈی سی صاحب اس لڑکے کو پانی کی رپورٹ سونپتا ہے جس پر لکھا تھا کہ All the water samples are fit for use. اس طرح کے بہت سارے قصے اس لڑکے نے اپنی اس کتاب میں لکھے ہیں جن سے اس لڑکے کے ذہین، ہمدرد، فرمابردار اور ملنسار ہونے کا گماں ہوتا ہے
ہاں ابو لکھا ہوگا لیکن آپ اس کتاب میں اتنے گم ہوئے ہیں کہ آپ کے سامنے رکھی ہوئی چائے بالکل ٹھنڈی ہو گئی۔
کہا کہوں بیٹی یہ کتاب ہی ایسی ہے ۔ کہیں کہیں پر تو ہنسی آجاتی ہے اور کہیں کہیں پر پڑھنے والا اشکبار ہوجاتا ہے ۔بیٹی میں اس لڑکے کو فون کروں گا۔ اچھی چیز کی تعریف کرنی چاہئے ۔ میں اس کے تخیل اور انداز تحریر کو سرہانہ چاہتا ہوں ۔ اور ہاں اگر آپ کو یونیورسٹی میں ملے تو آپ بھی میری طرف سے تعریف کے جو جملے کہہ دینا۔
نہیں ابو مجھے کہاں ملے گا۔ اکا نومکس اور انگلش ڈپارٹمنٹ میں تو کافی فاصلہ ہے۔ آپ فون کرو آپ کی مرضی ۔
ہیلو ۔۔۔۔السلام علیکم، میں وجاہت علی بول رہا ہوں۔میں نے آپ کی کتاب پڑھی بہت خوبصورت لگی۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید زور اور اثر عطا فرمائے آمین۔
کیا آپ میرے ساتھ ایک کپ چائے پیئیں گے اگر آپ کو زحمت نہ ہوگی۔
نہیں جناب یہ تو میری خوش نصیبی ہو گی. کچھ دیر تک وجاہت علی اور عمران نے باتیں کیں ۔ اگلے دن یہ ساری باتیں عمران نے نجمہ کو اور نجمہ نے عمران کو بتائیں ۔ پھر ایک دن عمران وجاہت سے ملنے آیا۔ بڑے تپاک سے ملے ۔ بیٹا کیا کرتے ہو۔ وجاہت علی نے پوچھا
جی میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں ۔ والدین وفات پاچکے ہیں ۔پڑھائی کا خرچہ حاصل کرنے کے لیے صبح شام ٹیوشن کراتا ہوں ۔ میری ڈاکٹریٹ کی ڈگری اگلے مہینے مکمل ہو رہی ہے۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد عمران نے رخصت لی۔
وجاہت نے پھر نجمہ کو بلایا اور پوچھا۔نجمہ بیٹی اس لڑکے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ میرا مطلب ہے شادی ۔۔۔۔۔۔
ابو میں نے ابھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں ہے۔ کتاب اچھی لکھنا الگ بات ہے اور اصل میں اچھا ہونا دوسری بات ہے۔ ذریعہ معاش بھی تو ضروری ہے۔ اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد بھی نوکری نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی زرق دینے والا اللہ ہے۔
خیر آپ بھی سوچو میں بھی سوچتا ہوں اگر ہم دونوں کا فیصلہ ایک ہی ہوا تو میں بات آگے بڑھاؤں گا۔ نجمہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وجاہت نے عمران کو بھی ٹیلی فون پر باتوں باتوں میں اس بات کا اشارہ دیا۔ اور عمران نے ہاں بھی کر دی ۔کیونکہ عمران اور نجمہ تو پہلے سے ہی۔۔۔۔۔۔۔
چند دن بعد وجاہت نے بیٹی کو بلایا اور سمجھانے لگا۔ بیٹی عمران آپ کے لیے بہتر لڑکا ہے اس کی سوچ بہت اچھی ہے. ڈاکٹریٹ کی ہے نوکری بھی مل ہی جائے گی۔
ابو مجھے کوئی جلدی نہیں ہے لیکن آپ اپنے کندھوں سے بوجھ اتارنا چاہتے ہیں تو میرا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بیٹی شادی تو کرنی ہی کرنی ہے لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آتا ہے کہ آپ چلی جاؤ گی تو میرا کیا ہوگا۔ میں تو اکیلا پڑ جاؤں گا۔ کیوں نہ ہم عمران کو گھر داماد ہی بنا لیں. اس کے والدین بھی فوت ہوچکے ہیں وہ بھی اکیلا ہے۔ اگر وہ ماں جائے ۔اس کے بعد وجاہت اپنی یہ رائے عمران کو بتاتا ہے اور عمران ہاں کر دیتا ہے ۔چند دن بعد دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور اس طرح سے اللہ تینوں کے مختلف مسائل کا حل نکال دیتا ہے
�����
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
8825051001