ہارون ابن رشید ش
یخپورہ ہرل ہندوارہ
فکر ادراک
اساتذہ ہمارے لیے خدا کی ایک خاص نعمت ہیں۔ وہی ہیں جو ایک اچھی قوم بناتے ہیں اور دنیا کو بہتر جگہ بناتے ہیں۔ایک استاد ہمیں تلوار کے مقابلے قلم کی اہمیت سکھاتا ہے۔معاشرے میں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جن کے بارے میں قرآن بیان کرتا ہے، وہ استاد ہونا ہے۔اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا (96:5)۔وہی ہے جس نے انسانوں کو فطرت کی تعلیم دی اور اس کے بعد مزید تعلیم دینے کے لیے رسول بھیجے۔پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آپ کو جو یقیناً ایک استاد سمجھا۔ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو طلباء کو ہمیشہ کوشش کرنے اور اپنی پوری کوشش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تاہم نیک استاد وہ ہوتا ہے جو ایک طالب علم کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیتا ہے اور اس کے کردار کو ایک کامیاب اور قابل احترام انسان بناتا ہے۔ استاد کو قوم کا معمار کہا اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتاہے۔ استاد کا پیشہ ایسا ہے جس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک ایسی صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کا دارومدار ہے۔ معلمین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔
5 اکتوبر دنیا بھر میں اساتذہ کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا گیا ۔ اساتذہ کا دن تمام تعلیمی اداروں کے لیے اہم ہے۔ اس دن کو اساتذہ کی تمام زندگی میں ان کے تعاون اور کوششوں کی تعریف کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اساتذہ شہد کی مکھی کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کو مٹھاس دینے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ یہ استاد ہمیں کتابوں سے نہ صرف علم دیتے ہیں بلکہ زندگی کا سبق بھی سکھاتے ہیں۔ ایک استاد کا طلباء کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ہوتا ہے اور ہمارے اپنے کیریئر میں کامیاب ہونے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ہر قوم کا مستقبل قابل احترام اساتذہ کے ہاتھ میں ہے۔چنانچہ برسوں کی محنت کے بدلے میں طلباء اپنے اساتذہ کو حیران کرنے اور اس دن کو غیر معمولی بنانے کے منصوبے بناتے ہیں۔ اس دن، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اپنے اساتذہ کو اس دن کے دوران خوشی اور خاص محسوس کرنے کے لیے تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اس میدان میں اپنی محنت کو سراہنے کے لیے کارکردگی( پرفارمنس) دیتے ہیں۔ وہ شکریہ کی تقاریر تیار کرتے ہیں اور گریٹنگ کارڈ تقسیم کرتے ہیں جن پر بہت ساری تعریفیں لکھی ہوتی ہیں تاکہ انہیں خاص محسوس ہو۔ ان میں سے کچھ ہاتھ سے بنے کارڈز بھی بناتے ہیں جبکہ دیگر خوبصورت تحائف دیتے ہیں۔
طلباء چھوٹے چھوٹے ڈرامے بھی ترتیب دیتے ہیں جہاں وہ اپنے اساتذہ کی نقل کرتے ہوئے انہیں ہنساتے ہیں۔ دن بہت جوش و خروش سے بھرا ہوا ہے۔ طلباء اپنے جوش و خروش کو بڑھانے کے لیے خوبصورت گیت بھی گاتے ہیں۔
یہ اشارہ انہیں اپنے پیشے سے مطمئن کرتا ہے
وہ سال بھر اس دن کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ طلبہ کا اپنے تئیں محبت اور احترام نظر آئے۔ وہ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ طور پر بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور طلباء کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔اساتذہ بعد میں طلباء کی دیکھ بھال اور پیار کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہیں عمر بھر یاد رکھنا چاہیے اور جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ وہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنے کے لیے سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیں کامیاب دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے طلباء کو پھولوں کی طرح کھلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اپنے اساتذہ کا احترام اور پیار کریں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
دنیا میں بہت سارے انسانی رشتے ہوتے ہے جن میں کچھ رشتے خون کے ہوتے ہیں اور کچھ روحانی رشتے ہوتے ہیں، ان ہی رشتوں میں سے ایک اُستاد کا رشتہ ہے، اسلام میں استاد کا رشتہ ماں باپ کے برابر ہے کیو نکہ یہ استاد ہی ہے جو والدین کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہے، ہمیں زندگی جینا سکھاتے ہیں حق اور ناحق میں فرق کرنا سکھاتے ہیں. . اُستاد کی اہمیت میں پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بیجھا گیا تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے استاد کا مرتبہ کتنا بلند ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی تعریف خود کو مُعلم بتا کر کر رہے ہیں نبی کریم ﷺ ہم سب کو علم سکھانے کے لئے اس دنیا میں آئے لہزا آپﷺ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُستاد کے نظریہ سے ان کی شان و عزت اور بھی بڈھ جاتی ہے ایسا رتبہ ایسا مقام ہے اُستاد کا. والدین بھی بچے کے اُستاد ہی ہوتے ہے بچہ بلوغت کی عمر تک اپنے والدین سے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ ان کے کردار میں بھی خاصا نمایا نظر آتا ہے.
یہ استاد ہی ہے جس نے طالب علم کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد سکھایا ، سوچ اور فکر کی راہ متعین کی ، اعتماد دیا ، زندگی کی گٹھیاں سلجھانے کے گر بتائے ، محبتوں کے ساتھ اس وقت پہلا سبق پڑھایا جب ہم کچھ نہیں جانتے تھے ، ان پڑھ اور جاہل تھے ، ہمارے اساتذہ نے اپنی صلاحیتیں ہم پر صرف کیں اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم مضبوط کردار اور مثبت روایات کے امین اور معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں۔قومیں جب بھی عروج حاصل کرتی ہیں تو اپنے اساتذہ کی تکریم کی بدولت ہی حاصل کرتی ہیں۔کسی قوم پر زوال آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اساتذہ کی تکریم چھوڑ دینا ہے۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے ،
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے ۔
آخر پر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ سبحان و تعالیٰ قوم کے معماروں کو سلامت رکھے ، عُمْر دَراز اور ان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا ربّ العالمین
����