ر۔۔۔ن۔۔اننت ناگ
اوائل عمری کے دن بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔کسی بات کی فکر ہی نہیں ہوتی بڑی بے فکری کا عالم ہوتا ہے۔حنا میم بڑبڑاتے ہوئےکُتب خانے کے شیلف میں سے کتاب ڈھونڈ رہی تھی دراصل حنا میم ابھی ابھی پاتھ سے چل کر کُتب خانے کی طرف آرہی تھی کہ دوسری جانب سے ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور موصوفہ کے ساتھ زور سے ٹکرا کر sorry میم کہتے ہوئے دوسری اور بھاگتا چلا گیا۔دراصل آج جمعہ کا دن تھا سارے مرد حضرات نماز پڑھنے اسکول سے باہر گئے تھے اور اُستانیاں اسکول کے گراونڈ میں بیٹھی اپنی ہاوس ڈیوٹی کر رہی تھیں۔آج اقبال ہاوس تھا حنا میم اس ہاوس کی ممبر نہیں تھی۔موصوفہ نے موقع غنیمت جان کر کُتب خانے جاکر اُن کتابوں میں سے ایک کی ورق گردانی کرنے کی سوچی جو کچھ دن پہلے اُسکی کی تیار کردہ فہرست پر منگوائی گئی تھی۔چھوٹا سا کُتب خانہ ایک میز اور اُس کے آس پاس چند کُرسیاں۔ موصوفہ نے شیلف سے کتاب اُتار کر میز پر رکھ دی آنکھوں پر چشمہ چڑھا دیا اور کُرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنی شروع کردی ابھی پہلا پنا ہی پڑھا تھا کہ باہر سے بچیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آئی۔ موصوفہ کی نگاہیں دروازے سے باہر کی طرف مرکوز تھیں گرمی کا موسم تھا بچے اپنی اپنی بوتلوں میں پانی بھر بھر کر ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے۔ لڑکیاں چیختے چلاتے اپنے دوپٹے سیدھا کرتی عمارت کے پیچھے چھِپ جاتی اور سُکھانے کی کوشش میں لگ جاتی۔اُستانیاں آکر انکو سخت ڈانٹتی اور یہ بچیاں سہم کر ایک دوسرے کے پیچھے چھِپ جاتی ۔حنا میم نے دیکھتے دیکھتے اپنی کُہنیاں میز پر جما دی اور گہری سوچ میں ڈوب گئی۔
ہمارے دن کتنے اچھے تھے ہم تو ندیوں میں چھلانگیں مار مار کر نہاتی تھیں اور پھر گھنٹوں دوپ میں بیٹھ کر سُکھاتی پھر سے نہاتی اور پھر سُکھاتی نہ جانے کتنی بار دن میں یہ سلسلہ چلتا تھا۔یہ بچیاں چھاتی پر ایک قطرہ پانی پڑھنے پر کتنا محتاط ہوجاتی ہیں۔ہم نے کبھی بھی اپنے گرد و پیش کا جائزہ نہیں لیا ہوگا ہمیں کسی میں کوئی بُرائی نظر ہی نہیں آتی تھی ہم تو ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھائی کرتے لکھتے دوست بناتے راز ونیاز کرتے چلتے ہی جاتے تھے نہ ماضی کا ذکر نہ مستقبل کی فکر۔موجودہ دور کی ان بچیوں کو آئے دن کے غیر اخلاقی واقعات نے کتنا حساس بنا دیا ہے۔اور ہونا بھی چاہیے لازمی بن گیا ہے۔۔
حنا میم سوچ کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ باہر سے ایک لڑکا بنا اجازت لیے اندر آگیا میم میم مجھے آپ سے کچھ۔۔۔۔۔۔وہ کہنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے اور دو لڑکیاں آگئیں میم اسکی نہیں سُننا یہ ندامت جھوٹ بول رہاہے۔حنا میم نے کہا چلو باہر چل کر کہو موصوفہ نے کہتے ہوئے کتاب واپس شیلف پر رکھ دی اور باہر آگئی۔ ہاں کہو کیا کہنا چاہتے تھے۔ندامت کہنے ہی والا تھا کہ دوسری جانب سے عائشہ آٹپکی اور ندامت کے مُنہ پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔اتنے میں گھنٹی بجی اور زاہدہ میم نے ندامت کو آواز دی ندامت بچوں کو قطار میں اندر لے جاو ندامت قطار بنانے میں مصروف ہوگیا۔بچے کلاسوں میں گئے لنچ باکس وغیرہ بستےسمیٹ لئے اور گاڑیوں کی طرف روانہ ہو گئے۔
حنا میم گھر تو پہنچ گئی مگر تذبذب میں پڑھ گئی اُسکو کسی نازک معاملے کا انکشاف ہوگیا۔رات بھر کسی کروٹ نیند کو قرار نہ آیا۔
اگلی صبح حسب معمول حنا میم کی مُلاقات اسکول بس میں زاہدہ میم سے ہوئی۔ باتوں باتوں میں موصوفہ نے زاہدہ میم کے سامنے گُزشتہ دن کے بارے میں ذکر چھیڑا۔۔۔میم مردوں کے بارہے میں آپکا تصور کچھ تلخ معلوم ہوتا ہے۔ آپ بہت حساس ہیں اس لئے آپ انُہیں درندہ صفت خیال کرتی ہیں۔ زاہدہ میم نے جواباً کہا۔۔حنا میم سُن کر ہکا بکا رہ گئی۔میم مگر میں نے تو ایسا کوئی ذکر نہیں کیا۔زاہدہ نے بے سروپیر کی کوئی بات چھیڑ دی اور موضوع بدل دیا۔۔۔
سکول پہنچ کر حسب معمول مارنگ اسمبلی ہوگئی،سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے مگر حنا میم کو آج دن بھر احساس ہوگیا کہ بچیوں کے مابین کچھ سر گوشیاں ہورہی ہیں جو وہ سمجھنے سے قاصر ہے۔مگر کیا کرتی پوچھنا بے سوُد تھا بچے کہنے سے گُریز کر رہے تھے۔اور نجی سکولوں میں اساتذہ کتنا کمال کریں گے سات سات آٹھ گھنٹے پڑھانا۔۔ کاپی چیک کرنا،اعادہ۔سوال جواب کلاس ٹیسٹ ،میزان گھر کام ، آمدگی اور کیا کیا ایسے میں بچیوں کے ذاتی احساسات اور جذبات بانپ لے تو کہاں سے۔مگر میم جی کو معاملہ کافی حساس لگنے لگا تھا مگر پیشے کی عظمت اور اخلاقی نقط نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان معصوم بچیوں سے کوئی ایسا سوال کرنا بھی مُناسب نہ تھا ۔خیر اسکول کا نظام حسب معمول نظم ضبط کے ساتھ چلا دن گُزر گیا۔۔میم کو اگر انتظار تھا تو آنے والی پیر کا کیوں نکہ میم کا اپنا پسندیدہ ہاوس حبہ خاتون ہاوس شروع ہورہا تھا۔۔میم جی نے اتوار کی رات رتجگوں کے ساتھ گُزار لی اور ایک اخلاقی کہانی تحریر کی۔
اگلے دن میم نے مارنگ اسمبلی میں سٹیج پرکچھ اس انداز میں کہانی سُنا دی کہ تالیوں کے شور سے سارا ادارہ گونج اُٹھا۔اور یہ تقریر اتنی مفید ثابت ہوگئی کہ سب بچے ایک دم سے کُھل گئے اور موصوفہ کے قریب ہونے لگے۔۔
پہلے ہی گھنٹے میں ندامت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوگیا اور میم سے مُخاطب ہو کر کہنے لگا میم آپ میرے ساتھ لڑکوں کے واش روم میں چلیے آپکو سب سمجھ آجائے گا۔میم نےکوئی بھی سوال جواب کئے بِنا عائشہ کو جماعت کے آگے کھڑا رکھا اور خود ندامت کے ساتھ واش روم گئی۔واش روم کی دیواروں پر گندی گندی تحریر یں پڑھ کر میم شرمندہ ہوگئی۔ دیوار پر رقم جملوں سے سب صاف صاف سمجھ آرہا تھا میم اتنی شرمندہ ہوگئی کہ ندامت کے سامنے افسوس کے کلمات بھی منہ سے نہ نکل سکے۔ میم سیدھا پرنسپل آفس چلی گئی اور سار ماجرا اُسکے سامنے رکھ دیا۔پرنسپل نے معاملہ میم کو سونپ دیا۔۔اگلے دن یوم اساتذہ تھا۔آج بڑے بچے اساتذہ بن کر چھوٹے بچوں کو پڑھانے والے تھے۔۔حِنا میم نے عائشہ سے پوچھا آپ کس کی نقل کرو گی عائشہ۔میم آپکا۔۔میم نے مُسکراتے ہوئے کہا آپ بہت ذہین ہو بیٹا جی۔۔آپ کسی سر کا رول کرنا۔ کلاس میں بیٹھے بچے شاید سمجھ گئے تھے کہ میم کیا کرنا چاہتی ہیں۔عائشہ کی ہمت باندھنے کے لئے سب بچے کہنے لگے ۔عائشہ۔ عائشہ۔ عائشہ۔ عائشہ نے ہمت باندھ لی اور پانچویں جماعت میں پڑھانے کے لئے گئی۔۔حنا میم نے سارے اساتذہ کو اِکھٹے کیا اور جماعت کے ساتھ کھڑا رکھا ۔عائشہ نے مارکر ہاتھ میں لیا اور بورڈ پر لکھا ۔every school should have a program about good touch and bad touch۔عائشہ کی آنکھوں میں آنسو تھے جماعت میں بیٹھی بچیاں سہمی سہمی سی تھی عائشہ نے تھر تھراتے ہوئے لب ہلاتے ہوئے غزل نام کی بچی کی طرف اشارہ کیا سامنے آو اور یہ پڑھو میں نے کیا لکھا۔۔سب اساتذہ حیران تھے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔بچی بورڈ کے سامنے آگئی اور جملہ دوہرانے لگی ۔۔عائشہ پیچھے سے بچی کو مارکر سے چھیڑنے لگی ۔۔کہتے ہوئے آپ بہت پیاری ہو موٹی بھی خوبصورت بھی غزل ڈر کر پیچھے مُڑ گئی ،اور روتے روتے کہنے لگی عائشہ دیدی آپ بھی سر کی طرح بچیوں کو چھیڑو گی جب ٹیچر بنو گی۔۔۔یہ سُن کر کلاس کی تمام بچیاں زور زور سے رونے لگیں اُستا نیاں انکو سینے سے لگانے لگی۔۔مرد حضرات شرم سار ہوکر تتر بتر ہوگئے۔۔ اگلے دن سکول میں good touch bad touch موضوع کے تحت پروگرام کردیا گیا۔۔مگر چھے اساتذہ بشمول زاہدہ میم غیر حاضر تھے۔۔ جن کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا۔۔۔عائشہ کو انعام سے نوازا گیا، حنا میم کی حوصلہ افزائی کی گئی۔۔
اللہ رب العزت ہماری بچیوں کی حفاظت کرے۔۔آمین یارب العالمین
❤️❤️❤️🧑🦰