تمہیں بھلانے میں شاید ہمیں رمانہ لگے
سہیل سالمؔ
رعناواری سرینگر۔9103654553
سرسید رقم طراز ہے کہ ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے‘‘۔اس دور کا شاید یہ المیہ ہے کہ بدلتے حالات اور نئے رجحانات نے زندگی کے گونا گوںمسائل اور مصروفیات میں مبتلا انساں کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ وہ یادوں کے چراغ جلا کر اپنے حال کوروشن کرے اور اپنے ان مخلص بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرے جنھوں نے علم وادب کی شادابی کو برقرار رکھا ، تہذیب وثقافت اورزبان و ادب کے لیے اپنی زندگیاںوقف کردی۔ایسی ہی ایک فرشتہ شخصیت علی محمد حافظؔ کی ہے۔انھوں نے پوری زندگی علم و ادب کے فروغ میں لگا دی۔ایسی شخصیت پر بطور خراج عیقدت کچھ لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
علی محمد 15 اگست 1937 کو وانی یارسرینگر میں تولد ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام نور محمدحافظ تھا۔ان کا پورا نام علی محمد حافظؔ تھالیکن علمی دنیا میں حافظ صاحب کے نام سے مقبول و معروف ہوئے۔ ابھی یہ کمسنی میں ہی تھے کہ ان کے والد اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔پھر حافظ صاحب کی پرورش ان کے چچا کے حصے میں آئی۔انھوں نے پھر ادیب فاضل اور منشی فاضل کا امتحان لاہور یونیورسٹی سے پاس کیا۔1957 میں فوج میں تعینات ہوئے اور ملازمت کے دوران ہندی میںراشٹر بھاشا سمان کا امتحان اعلیٰ نمبرات سے پاس کیا۔ لیکن اس پیشے میںسکون میسر نہ ہونے کی وجہ سے استعفا دینے پر مجبور ہوئے۔حافظ صاحب نے اس کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رکھ کرمختلف اخبارت کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جن میں آفتاب ،الصفا،چٹان اور وادی کی آواز قابل ذکر ہے ۔اس کے بعد 1968 میں شہر خاص کے اردو اِیونگ کالج میں بحثیت مدرس اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔حافظ صاجب نے نثر و نظم میں بھی طبع آزمائی کی ہے جبکہ ان کی پہلی کتاب ’’اقوال حافظ ‘‘ 1995 میں منظر عام پر آگئی۔انپے آس پاس کے ماحول کی خستہ حالت دیکھ کر انھیں یہ احساس ہوا کہ مجھے اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنا ہوگا جس کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ حافظ صاحب نے باقاعدہ شہر خاص میں1971 پہلا علمی چراغ ’’شاہین پبلک سکول ‘‘ کے نا م روشن کیا چناچہ حافظ صاحب اقبال کے ’’شاہین ‘‘ سے کاقی متاثر ہوچکے تھے کیونکہ اقبال ؔ اپنے کلام میں نوجوان کو شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیںاور یہی حافظ صاحب کا خواب بھی تھا کہ وہ شہر خاص کے نوجوانوں کو شاہین کے روپ میں دیکھ لیں۔
شاہین کون ہے؟ ہم عام فہم لوگوں کی نظر میں صرف ایک پرندہ!لیکن اقبال ؔکے شاہیں کا تو جہاں ہی کچھ اور ہے اور زاغ کا کچھ اور۔وہ تو پرندوں کی دنیا کا درویش مستانہ ہے۔ اقبالؔ کا شاہین عام پرندوں کی طرع بایبانوں، کہساروں اور آبشاروں کے کناروں پر رقص نہیں کرتابلکہ وہ تو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے۔اقبالؔ کا شاہین تو بلند پرواز کا مستحق ہے،وہ بلند پرواز جس سے چمک دھمک سے زمانہ کی آنکھ میں جلن پیدا ہوتی ہے ہے ،وہ بلند پرواز جس سے وہ کبھی نہیں اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔وہ تو اونچی اُڑان لیے ہویٔے آسمان کے تاروںسے روشنی حاصل کر کے بیابانوں اور کہساروں کا اندھیرا ختم کر دیتا ہے۔اقبالؔ کے شاہین کو کبھی بھی آشیانے کی فکر نہیں ہوتی کیونکہ یہ فطری طور پر تنہائی پسند ہے۔ جلوت اس کے لئے موت کا سامان ثابت ہو سکتا ہے ۔اقبالؔ کا شاہین کبھی بھی حرام خرد ونوش چیزوں پر دھیان نہیں دیتا،اُس کا ضمیر یہ گوارہ نہیں کرتا کہ وہ کسی اور کے ہاتھ کا کھایا،وہ خود شکار کر کے اپنی بھوک مٹا دیتا ہے۔۔وہ تو خودی اور غیرت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔اقبال ؔکے شاہین میں ایسے اوصاف یائے جاتے ہیں جو اسے ایک اعلی ٰمنصب عطا کرتے ہیں۔اقبال ؔکا رول ماڈل پرندہ شاہین ہے جس کی بلند نگاہی،تیز رفتاری ،تنہائی اور بے باکی سے سارا جہاں اس کی قدر کرتا ہے اور اقبال کے شاہین کی یہی خصوصیات مرحوم حافظ سے اپنے گردونواح کے جوانوں میں دیکھنے کے متمنی تھے ۔ ؔ اقبال ؔکہتے ہیں ؎
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہے
اور کبھی اقبال ؔ شاہین اور گرغس کے درمیان کی فرق کو ہمیں اس طرح سمجھاتے ہیں ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرغس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور ہے
آہستہ آہستہ مرحوم حافظ صاحب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور شہر خاص کے بہت سارے نوجوانوں نے ان کی صحبت میں راہ کر اپنے علمی پیاس بجھا کر اپنی زندگیوں کو سنوارا جو کہ آج کل سماج کے مختلف شعبوں میں اپنے خدمات اجام دے رہے ہیں۔بقول مرحوم حافظ صاحب:’’جب ایک بچہ پڑھائی سے فارغ ہو کر زندگی کی بلندیوں کو چھوتا ہے اس کی کامیابی دیکھ کر سب سے زیادہ خوشی اس کے استادکو ہوتی ہے‘‘۔ حافظ صاحب عزیز سب کے تھے ،حریف کسی کے نہیں ، اپنے حریفوں کے بھی نہیں ۔ان کے شاگروںکا حلقہ بہت وسیع تھا۔آپ خاصے پڑھے لکھے آدمی تھے۔انہوں نے دنیا کے مختلف زبانوں کے ادب کے علاوہ معاشیت، تاریخ، سیاست ، صحافت ،عمرانیات اور مذہبیات کا تو انہوں نے مطالعہ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے نکتہ نگاہ اور مشاہدے میں خاضی وسعت پیدا ہوگئی تھی۔ان کا دل تعصب وحسد سے بالکل پاک تھا۔وہ مذہب ، فرقوں یا ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے بالکل حامی نہیں تھے۔ان کے اقوال سے ان کی اندرونی و بیرونی کیفیت کے اسرار و رموز عیاں ہوتے ہیں۔بلاشبہ وہ ایک بڑے ادیب،استاد اور بڑے انسان تھے۔بڑا ادیب یا بڑا ستاد اپنی زبان یا تحریر سے اپنی بڑائی کا ثبوت ہر وقت نہیں دیتا۔ان کے الفاظ اور جملے ہی پکار پکار کے گواہی دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی ہر ایک کو حوصلہ افزائی سے نوازتے رہتے تھے۔شہر خاص میںتعلیمی نظام کو جلا بخشنے اور اسے فروغ دینے میں جو کارنامہ مرحوم علی محمد حافظؔ نے انجام دیا وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔الغرص علم و ادب کا یہ روشن چراغ 10 ستمبر1997کو اپنی ساری روشنی علم و ادب کی نذر کر کے اصلی گھر کی اور روانہ ہوگیا۔بقول قیصرالجعفری
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جائو مجھے
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے
����
سہیل سالمؔ
رعناواری سرینگر۔9103654553