لیلیٰ اور مجنون۔۔۔۔۔۔۔عشق و ادب کے دو سچے کردار 0

لیلیٰ اور مجنون۔۔۔۔۔۔۔عشق و ادب کے دو سچے کردار

تحقیق و ترتیب:معراج زرگر

(قسط دویم)

(مضمون کے بیشتر اجزا انٹرنیٹ اور دیگر کتب سے ماخوذ ہیں)

(یعنی تجھے رب کا واسطہ۔۔۔۔۔ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلی کو آغوش میں لیا؟ یا اس کا منہ چوما؟ ۔۔۔ یا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہرائیں؟ ۔۔۔ جیسے کہ خوشبوئیں اور مشک اس کے منہ میں درآئی ہوں؟)
ورد نے کہا، جب تم نے مجھے قسم دی ہے تو جواب ہاں میں ہے۔ تو مجنوں نے اپنے ہاتھوں سے آگ کو پکڑ لیا اور اسے نہ چھوڑا یہاں تک کہ بے ہوش ہو گیا۔
لیلی مجنوں کی داستان عشق کو نہ صرف عربی ادب نے جگہ دی بلکہ فارسی ،ترکی اور اردو ادب میں بھی یہ داستان شامل رہی۔ اس واقعہ پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنے گیت بھی لکھے گئے اور اسی طرح اس عشق کے واقعہ کے دو کرداروں سے ہر مسلم تہذیب اور دوسری غیر عرب تہذیبوں کے لوگ صدیوں سے واقف ہیں اور ان دو کرداروں کو سچے عشق کے کردار سمجھتے ہیں اور ان کرداروں سے اپنی محبت اور عقیدت وابستہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں لیلی اور مجنون پر کامیاب فلمیں بنی ہیں۔ جو عوام میں بہت مقبول ہوئیں اور ان کے گانے آج بھی مقبول ہیں۔
لیلیٰ مجنوں بنیادی طور پر ایک عربی الاصل داستان ہے۔ اس میں بیان کردہ کردار تاريخی طور پر ثابت مانے جاتے ہیں۔ کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں اور یہ کہ یہ داستان عشق بھی حقیقی تھی۔ جس کو قلم بند کیا گيا اور بعد میں، صدیوں تک ان پربہت کچھ افسانہ طرازی کی گئی۔ عربی میں سب سے پہلے کس نے اسے لکھا؟ اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں البتہ عربی سے فارسی میں اس کو پہلے پہل رودکی نے منتقل کیا۔ اس کے بعد نظامی گنجوی نے اس کو فارسی میں لکھا، جس نے اس کی مقبولیت کو ساری دنیا تک پہنچائی۔ اب تک ہزار سے زیادہ مرتبہ اس داستان کو مختلف زبانوں میں، مختلف لوگ نثر و نظم میں لکھ چکے ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ مقبولیت و اہمیت نظامی گنجوی کی لیلیٰ مجنوں کو ہی حاصل رہی ہے۔
لیلیٰ مجنوں کے دو مرکزی کردار ہیں۔ مجنوں لغوی طور پر پاگل، دیوانے اور عاشق کو کہتے ہیں۔ لیلیٰ کا نام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیا جاتا ہے۔ عربی و عبرانی میں لیلیٰ یا لیلہ رات کے لیے بولا جاتا ہے۔ عربی میں لیلیٰ مجنوں کی بجائے مجنون لیلیٰ (لیلی کا پاگل) بولا جاتا ہے۔ جب کہ ترکی میں ایک اسم صفت لیلیٰ کی طرح سے مراد محبت کی وجہ سے پاگل، جنونی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کہانی کو قیس اور لیلیٰ، لیلیٰ مجنوں، مجنوں لیلیٰ اور انگریزی میں Laila and Majnu کہا جاتا ہے۔
بعض محققین نے لیلیٰ کے عربی لیلیٰ (رات) سے اس کے معنی سانولی رنگت بھی لیا ہے۔ اور کئی مصنفین نے اپنے قصے میں لیلیٰ کو سانولی صورت والی بنا کر پیش کیا ہے۔ اور عوام میں مشہور ہے کہ لیلیٰ کالی یعنی سیاہ رنگت والی تھی۔ لیکن اگر لیلیٰ کو عربی النسل بیان کیا جاتا ہے تو اس طرح لیلیٰ کا کالا ہونا ایک خلاف واقعہ بات ہوگی۔ مشہور صوفی پنجابی شاعر حضرت بابا فریدؒ نے فرمایا ہے:
لوکاں نوں آکھاں مجنوں کوں
تیری لیلا رنگ دی کالی وے
مجنوں نوں جواب دِتا اے
تیری انکھ نئیں ویکھن والی وے
جے تو ویکھے میریاں انکھاں نال
تے صورت نہ جائی سنبھالی وے
وید وی چٹا تے قرآن وی چٹا
وچوں سیاہی رکھ دتی کالی وے
غلام فریدا جتھے اکھیاں لگیاں
اوتے کیا گوری کیا کالی وے
نظامی گنجوی کے قصے لیلیٰ مجنوں کے مطابق لیلیٰ اور مجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسے میں پڑھنے جاتے تھے، تب ہی ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف رہتی، جس پر استاد سے سزا ملتی، مگر استاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پر پڑتی اور درد لیلیٰ کو ہوتا۔ استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتائی، جس پر لیلیٰ کے مدرسے جانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔
بعض قصه گو اس کہانی کو بچپن سے نہیں جوانی سے شروع کرتے ہیں کہ ایک دن اچانک مجنوں، لیلیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
بہر حال حقیقت جو بھی ہو، جب دونوں جوان ہوئے تو، ایک دن پھر مجنوں کی نظر لیلیٰ پر پڑ گئی اور بچن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگا، مگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کر دیا۔ یہاں پر لیلیٰ کا بھائی تبریز کہانی میں شامل ہو جاتا ہے، وہ مجنوں کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مجنوں اس کو قتل کر دیتا ہے۔ جس پر مجنوں کو کیوں کہ اس نے لیلیٰ سے سرِ عام محبت کا اظہار کیا تھا اور اس کے بھائی کو مار دیا تھا۔ اس لیے مجنوں کو سنگسار کرنے کی سزا سنائی گئی۔
بعض کہانیوں میں تبریز کے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ، رشتہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔ جس پر قیس، پاگل سا ہوجاتا ہے۔
ليلى العامرية نجد کے النجوع دیہہ میں 28 ہجری کو پیدا ہوئی۔ وہ بھی ایک عربی شاعرہ تھی۔ اس کا تعلق قبيلہ هوازن سے تھا۔ ليلى بنت مہدي بن سعد بن مزاحم بن عدس بن ربيعہ بن جعده بن كعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعه من هوزان بن منصور بن عكرمہ بن خفصه من قيس عيلان ۔ اس کی کنیت ام مالک تھی۔
لیلٰی بني عامر، مجنوں یعنی قيس سے چار سال چھوٹی تھی۔ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے دونوں ایک ساتھ اپنے مویشی چرایا کرتے تھے۔ جب لیلی بڑی ہوئ تو قیس سے پردہ کرنے لگی۔ لیکن اس سے قیس کے عشق کی آگ اور بھڑک اٹھی۔ ان کی محبت کی شہرت عرب میں پھیل گئی۔ وہ وارفتگی کے عالم میں شعر گنگناتا اور ویرانوں کی خاک چھانتا جگہ جگہ گھومنے لگا۔ کبھی اسے شام، کبھی نجد اور کبھی حجاز میں دیکھا گیا۔ با لآخر اسے پتھروں کے درمیان مردہ حالت میں پایا گیا اور اس کے گھر والے اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔
لیلی بھی قیس کی محبت کی گرفتار تھی اس کے اشعار اس بات کے گواہ ہیں:
كِلانا مُظهرٌ للناسِ بُغضاً
وكلٌّ عندَ صاحبهِ مكينُ
(ہم دونوں لوگوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور ہر ایک کو اپنے ساتھی پر اعتماد ہے۔)
تبلّغنا العيون بما أَردنا
وَفي القلبينِ ثمّ هَوىً دفينُ
(آنکھیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کیا چاہتے تھے اور دلوں میں پھر جذبہ دفن ہوتا ہے۔)
وَأَسرار اللّواحظِ ليسَ تَخفى
وَقد تغري بِذي الخَطأ الظنونُ
(اور دیکھنے والے کے راز پوشیدہ نہیں رہتے اور غلطی کرنے والا شک میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
وَكَيف يَفوتُ هَذا الناس شيء
وَما في الناسِ تظهرهُ العيونُ
جب لوگوں کی آنکھیں دکھاتی ہیں تو یہ لوگ کیسے کسی چیز سے محروم رہ سکتے ہیں۔)
لَم يكنِ المَجنونُ في حالةٍ
إلّا وَقَد كنتُ كَما كانا
(میرے مجنوں کی حالت نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں ویسی ہی ہوں جیسا کہ وہ تھے۔)
باحَ مجنونُ عامرٍ بهواهُ
وَكَتمت الهَوى فمتّ بِوَجدي
(جذبوں سے بھرے مجنون نے چیخ کر کہا اور میں نے اپنے شوق کو دبا لیا اور اسی وجد میں مرگئی)
فاذا كانَ في القيامةِ نودي
مَن قتيلُ الهَوى تَقدّمت وَحدي
(اگر قیامت کے دن کسی ایسے شخص کو پکارا جائے جو شوق سے مارا گیا ہو تو میں اکیلے ہی آگے بڑھوں گی۔)
نَفسي فِداؤك لَو نَفسي ملكت إِذاً
ما كانَ غيرك يجزيها ويرضيها
(میری جان تیرا فدیہ ہے، اگر میری جان میرے پاس ہوتی تو کوئی اور اس کا بدلہ اور تسلی نہ کرتا۔)
صَبراً عَلى ما قَضاه اللَّه فيك على ضائعُ
(کھوئے ہوئے شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے جو حکم دیا ہے اس پر صبر کرو)
أَلا ليتَ شِعري وَالخطوب كثيرةٌ
مَتى رحلُ قيسٍ مستقلّ فراجع
(میری شاعری کی خواہش ہے، اور مصروفیات بہت ہیں، جب آزاد قیس کو رخصتی ملے ، تو لوٹ آنا۔)
بنفسي مَن لا يستقلّ برحلهِ
وَمَن هوَ إِن لم يحفظ اللَه
(مجھے اپنی ذات کی قسم۔۔ جو اپنے شوق میں سفر کرے اور خدا اس کی حفاظت نہ کرے تو عجب ہے؟)
أُخبرتُ أنّكَ مِن أَجلي جُننتَ وَقد
فارَقتَ أَهلك لم تعقل ولم تُفقِ
(مجھے بتایا گیا کہ تم میری خاطر پاگل ہو گئے ہو اور تم نے بغیر کسی وجہ کے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا اور ہوش میں نہیں آئے۔)
لیلیٰ مجنوں کا عشق و محبت فرضی داستان نہیں ہے، یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو عرب کے نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔ کسی ایرانی نے فارسی میں کیا خوب لکھا
“خدا مشتی خاک را بر گرفت. می‌خواست لیلی را بسازد، از عشق خود در آن دمید و لیلی پیش از آن که با خبر شود عاشق شد. اکنون سالیانی است که لیلی عشق می‌ورزد، لیلی باید عاشق باشد. زیرا خداوند در آن دمیده است و هرکه خدا در آن بدمد، عاشق می‌شود.”
“لیلی نام تمام دختران ایران زمین است، و شاید نام دیگر انسان واقعی!!!!”
“لیلی زیر درخت انار نشست، درخت انار عاشق شد، گل داد، سرخ سرخ، گل‌ها انار شدند، داغ داغ، هر اناری هزار دانه داشت. دانه‌ها عاشق بودند، بی‌تاب بودند، در انار جا نمی‌شدند. انار کوچک بود، دانه‌ها بی‌تابی کردند، انار ناگهان ترک برداشت. خون انار روی دست لیلی چکید. لیلی انار ترک خورده را خورد، اینجا بود که مجنون به لیلی‌اش رسید.”
“در همین هنگام خدا گفت: راز رسیدن فقط همین است، فقط کافیست انار دلت ترک بخورد. خدا آنگاه ادامه داد: لیلی یک ماجراست، ماجرایی آکنده از من، ماجرایی که باید بسازیش.”
“خدا نے مٹھی بھر مٹی لے لی۔ وہ لیلی کو بنانا چاہتا تھا۔اس نے اس میں اپنی محبت کا دم بھرا اور لیلی کو اس کے علم ہونے سے پہلے ہی پیار ہو گیا۔ لیلی کو اب برسوں سے پیار ہے، لیلی کو پیار ہونا چاہیے۔ کیونکہ خدا نے اس میں پھونک ماری ہے اور جس چیز میں بھی خدا پھونکتا ہے وہ محبت میں پڑ جاتا ہے۔”
“لیلی ایران کی تمام لڑکیوں کا نام ہے، اور شاید ایک حقیقی شخص کا دوسرا نام!!!!”
“لیلی انار کے درخت کے نیچے بیٹھ گئی، انار کے درخت کو پیار ہو گیا، اس نے پھول دیے، سرخ سرخ، پھول انار ہو گئے، گرم گرم، ہر انار میں ہزار بیج تھے۔ بیج محبت میں گرفتار تھے، بے صبرے تھے، انار میں نہ سمائے۔ انار چھوٹا تھا، بیج بے صبرے تھے، انار اچانک پھٹ گیا۔ لیلی کے ہاتھ پر انار کا خون ٹپک رہا تھا۔ لیلی نے پھٹا ہوا انار کھایا، یہیں مجنون اپنی لیلی تک پہنچا۔”
“اسی وقت خدا نے فرمایا: پہنچنے کا راز بس یہی ہے، تمہارے دل میں انار پھوٹنے کے لیے یہی کافی ہے۔ خدا نے پھر جاری رکھا: لیلی ایک مہم جوئی ہے، ایک مہم جوئی سے بھرا ہوا راز ہے، ایک ایسی مہم جوئی ہے جسے آپ کو تخلیق کرنا ہے۔”
�����
(باقی تیسری قسط میں۔۔۔۔!!)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں