فلک ریاض حسینی
کالونی چھترگام
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
غموں کا وا ہُوا دفتر کہیں سے لوٹ کے آؤ
میرے پیارے میرے ابو شفقت خون روتی ہے
اداسی کونے کونے میں محبت خون روتی ہے
کہاں کھوئے سخی میرے سخاوت خون روتی ہے
گھروندا محو ے ماتم ہے مشقت خون روتی ہے
لگی پھر چوٹ ہے دل پر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
کتاب ِء دل کے پنوں پر بچھڑنے کی کہانی ہے
سبھی الفاظ خونی رنگ کہ اشکوں کی روانی ہے
درج تحریر کاغذ پر یہ دنیا ہائے فانی ہے
مسافر زندگی اپنی ازل سے آنی جانی ہے
جدائی کا چلے خنجر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
تیری مسکان میں ابو جہاں سارا سمایا تھا
کہ گویا تپتے صحرا میں شجر کا ایک سایہ تھا
گُزارے زندگی کیسے ہمیں ہر دم سِکھایا تھا
لڑیں طوفان سے کیسے ہمیں رستہ دکھایا تھا
رکھو پھر ہاتھ ہاں سر پر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
ابھی بے حد ضرورت تھی بچھڑنا کیا ضروری تھا
میرے خوابوں کی دنیا کا اُجڑنا کیا ضروری تھا
لیے اک داغ فُرقت کا تڑپنا کیا ضروری تھا
چمن کے اے گلُِ تازہ سِمٹنا کیا ضروری تھا
میرا آنگن ہُوا بنجر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
زمانے کے حوادث سے دعا بن کے بچا لینا
گِروں گر ٹھوکریں کھا کر میرے ابو اٹھا لینا
میرے خوابوں میں آجانا گلے مجھ کو لگا لینا
بہت نادان ہے بیٹی مجھے جینا سِکھا دینا
ابھی تنہا ہوں چشمِ تر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
تیرے کمرے کی کھڑِکی پہ کوئی بلبل پریشاں ہے
کدھر مالی چھپا اپنا بڑا غمگین و حیراں ہے
اندھیرا کیسا چھایا ہے کہاں ماہ ء درخشاں ہے
کرب کی ٹیس سینے میں میری پلکوں میں طوفاں ہے
خموشی میں ہے ڈوبا گھر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
جدائی کے سبھی لمحے ٹلیں گے پھر سے جنت میں
سنو یہ پھول خوشیوں کے کھلیں گے پھر سے جنت میں
بجھے یہ دیپ قربت کے جلیں گے پھر سے جنت میں
یقین مجھ کو خدا پر ہے ملیں گے پھر سے جنت میں
رکھوں سینے پہ پھر سے سر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
لٹا میرا جہاں سارا مگر ہے رہنما زینب۔۔ علیہ سلام
چھپا بادل میں اِک تارا مگر ہے آسرا زینب۔۔ علیہ سلام
لگا ہے روگ فرقت کا مگر اپنی شفا زینب۔۔علیہ سلام
صبر کا جام ہم کو بھی کریں گی اَب عطا زینب۔۔علیہ سلام
کرے سایہ ہمیں چادر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
فغا آنگن کے سن لینا سنو اس طین کے نالے
ابھی دوشِء ہوا پر ہے دل ے غمگین کے نالے
تیری مرقد سے ٹکرائے کسی نوشین کے نالے
صدائیں تم کو دیتی ہوں سنو شامین کے نالے
میرے ابو میرے یاور کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
غموں کا وا ہوا دفتر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
&&&&
کلام فلک ریاض حسینی کالونی چھترگام
فون۔۔۔6005513109