سبزار احمد بٹ۔۔اویل نورآباد
دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو کر اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے بسر اوقات کا سامان مہیا کرتا ہے اور ایسا کرنا بے حد ضروری ہے داناؤں کا قول ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔اور بےکار انسان کے دماغ کو تو شیطان کا گھر کہا گیا ہے۔اس لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے میں ہی عافیت اور بھلائی ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہی عزت و احترام کے قابل ہیں کچھ لوگ لوہے کا کام کرتے ہیں اور لوہے جیسی سخت شے کو اپنی محنت و مشقت سے اس کی شکل و صورت بدل دیتے ہیں ۔جبکہ سنگتراش محنت اور اپنی ہنر مندی سے بے ڈھنگ پھتر کو تراش کر اسے مورت بنا دیتا ہے۔ آج جس کاروباری اور ہنر مند طبقے کی بات میں کرنے جارہا ہوں وہ کمہار ہے یا جسے کوزہ گر کہتے ہیں کوزہ گر مٹی کو گوند گوند کر اسے اس قدر نرم و لائم بنا دیتا ہے کہ بعد میں جو چاہے بنا لیتا ہے۔ اس کے بعد ان برتنوں کو آوی یعنی بٹھی میں پکایا جاتا ہے ۔ اس سے یہ برتن پختہ اور قابلِ استعمال بنتے ہیں ایک زمانہ تھا جب گھروں میں مٹی کے برتنوں کے سوا کسی قسم کا برتن نظر نہیں آتا تھا۔ مٹی کے برتن دسترخوان کی زینت ہوا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کی صنعت دنیا کی سب سے پرانی صنعت ہے یا یوں کہیے کہ مٹی اور انگلیوں کا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ زمین سے جڑے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کوزہ گروں کے گھروں میں خوشیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے ۔اب تانبے، خراسان، اور پلاسٹک برتنوں کا استعمال عام ہوا ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رہنے سہنے کا ڈھنگ بھی بدل جاتا ہے اور ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مٹی کے برتن خراسان، پلاسٹک اور تانبے کے برتنوں سے قدرے مفید ہیں مٹی کے برتنوں میں چھوٹے چھوٹے سراغ ہوتے ہیں جو گرمی میں پانی کو سرد اور سردی میں گرم رکھنے میں مدد دیتے ہیں باقی برتنوں میں رکھی ہوئی چیزوں کو ٹھنڈا اور محفوظ رکھنے کے لیے فرج میں رکھنا ضروری ہے اور ان برتنوں کو زیادہ دیر تک استعمال کرنے اور ان میں کھانا پکانے یا گرم کھانا ڈالنے سے انسانی صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں جبکہ مٹی کے برتنوں میں رکھیں ہوئی چیزیں خود بہ خود ٹھنڈ بھی رہتی ہیں اور زیادہ دیر تک محفوظ بھی۔ ایک زمانہ تھا جب گاؤں میں کسی مخصوص جگہ پر یا کسی سایہ دار درخت کے نیچے مٹی کا گڑا رکھا جاتا تھا اور اس میں تازہ پانی بھر دیا جاتا تھا۔ اور مسافر چھاؤں میں بیٹھ کر اس گڑے سے پانی پیا کرتے تھے ۔ اس طرح سے انسانیت کا جزبہ زندہ ہوا کرتا تھا۔ ماہرین کے مطابق مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانے سے انسان امراض قلب سے محفوظ رہتا ہے۔ جبکہ مذہبی اعتبار سے بھی مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانا کارِ ثواب تسلیم کیا گیا ہے۔ مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانے سے انسان مٹی سے جڑا رہتا ہے اور ایک انسان کا تکبر کم ہوجاتا ہے اور انکساری آجاتی ہے۔ جو کہ ایک انسان کی روحانی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ آقائی نامدار حضرت محمد صلی علیہ وسلم کا مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانا ثابت ہے اور احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جن گھروں میں مٹی کے برتن ہوا کرتے ہیں فرشتے ان گھروں کی زیارت کرتے ہیں ۔ مٹی کے برتنوں کو باقی برتنوں کی بہ نسبت ٹوٹنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے لیکن مٹی کے برتن ایک تو سستے داموں میں ملتے ہیں اور دوسرا ان برتنوں میں کھانا انتہائی لزیز ہوتا ہے کیونکہ مٹی کے برتنوں میں جو کھانا رکھا جاتا ہے اس میں نمی رہتی ہے یقین نہ آئے تو ایک بار آزما کر دیکھ لیں۔ مٹی کے برتن بنانا نہ صرف ہماری روایت رہی ہے بلکہ ہماری تہذیب و ثقافت کا بھی حصہ رہا ہے اور یہ برتن بنانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ کارِ دارد والا معاملہ ہے ایک کمہار کو برتن بنانے مین کِن مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے یہ یا تو وہ برتن جانتے ہیں یا برتن بنانے والا کوزہ گر۔ سب سے پہلے ایک خاص قسم کی مٹی ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اس مٹی کو چھان کر اور گوند کر اسے اس قدر نرم کر دیا جاتا ہے اور اس کو چاک پر لگا دیا جاتا ہے بعد میں جس طرح کا برتن چاہے کمہار بنا دیتا ہے بقول شاعر
ابھی تو چاک پہ مٹی کا رقص جاری ہے
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
اس عمل کے بعد جب برتن تیار ہوتا ہے پھر ایک خاص قسم کے دھاگے سے یہ برتن بڑی ہنر مندی سے چاک سے الگ کر دیا جاتا ہے پھر برتنوں کو بٹھی میں جلا کر پختہ کیا جاتا ہے ۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ عام طور پر غذا میں تیزابیت ہوتی ہے لیکن مٹکے کا پانی پینے سے غذا میں تیزابیت کم ہوجاتی ہے ۔مٹکے کا پانی نظام ہاضمہ کو بہتر بناتا ہے اور مٹکے کا پانی مٹابالزم کو تیز کرتا ہے ۔ بلکہ مٹی کو برتنوں میں پانی اور باقی کھانے کے استعمال سے نمک اور معدنیات کی کمی کو بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اتنے سارے فوائد کے باوجود مٹی کے برتنوں کا استعمال کم بلکہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کوزہ گروں کے گھروں کے باہر لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی برتن خریدنے کے لیے۔ پھر جب مٹی کے برتنوں کا رواج کم ہو گیا تو کوزہ گروں مٹی کے برتن بوریوں میں بھر بھر کے گھر گھر یہ برتن بیچنے لگے ۔لیکن آج بات یہاں تک پہنچ گئی ہے اور ہمارا معاشرہ اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ آج ہم مٹی کے برتن گھروں میں رکھنا بھی اپنے لئے قابل تحقیر سمجھتے ہیں ان برتنوں میں کھانا کھانا تو دور کی بات ہے۔ دراصل کوزہ گری اس صنعت سے جڑے لوگوں کا واحد زریعہ معاش ہے۔ ان لوگوں کے پاس کوزہ گری کے علاوہ بسر اوقات مہیا کرنے کا کوئی اور زریعہ ہے ہی نہیں ۔ان کوزہ گروں کے چولہے لگ بھگ بجھ گئے ہیں ۔ ان کے چہروں پر اداسی چھائی ہوئی ہے اور انہیں دو وقت کی روٹی ملنا بھی محال ہو گیا ہے۔ ادویات کا خرچہ اور بچوں کو پڑھانا ان کے لیے قدرے مشکل بن گیا ہے. آجکل یہ اہم صنعت معدوم ہوتی جارہی ہے. ماہر کوزہ گر وفات پاچکے ہیں اور جو لوگ زندہ ہے وہ اپنے بچوں کو کوزہ گری اس لئے نہیں سکھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ صنعت ختم ہوتی جارہی ہے اور اس میں ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ہے اس مہنگائی کے دور میں ہم سب کو ان کوزہ گروں کے لیے فکر مند ہونا چاہئے ۔ ہم اگر ان کوزہ گروں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو کم سے کم اپنے گھروں میں چند مٹی کے برتنوں کا استعمال کرسکتے ہیں ۔چائے بنانے کے لیے، دہی کے لیے اور پانی کے لیے ایک مٹکے کا استعمال تو کر ہی سکتے ہیں ۔ ایک تو ہم بھی مٹی کے برتنوں میں کھانے کے مزے سے لطف اندوز ہو سکتے ہے اور دوسرا ان کے چہروں پر بھی تھوڑی سی خوشی آئے گی اور ان کے بھی چولہے جلانے میں ہم اپنا کردار نبھا سکتے ہیں ۔ سرکاری سطح پر بھی کمہاروں کے لیے ایک جامعہ منصوبے کے تحت کوئی سکیم لانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ کسی سکیم کے تحت کوزہ گروں کی امداد سے ہی اس طبقے سے جڑے لوگوں کی حالت میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ کوزہ گری لفظ کو مختلف شعرا نے اپنی شاعری میں بھی جگہ دی ہے اس حوالے سے پروین شاکر کا شعر ہے کہ
ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے
اس حوالے سے غالباً منور رانا لکھتے ہیں کہ
کوزہ گروں کے گھر میں مسرت کہاں سے آئے
مٹی کے برتنوں کا زمانہ نہیں رہا
0