کاش میں نے خدا سے کچھ اور مانگا ہوتا 0

کاش میں نے خدا سے کچھ اور مانگا ہوتا

ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر

دفتر سے نکل کر فرحان بیوی بچوں کے لیے کچھ ضروری چیزیں لال چوک میں خرید کر سیدھا ڈلگیٹ سومو سٹینڈ پہنچا ۔ وہاں سے وہ اننت ناگ کے لیے اپنا رخت سفر باندھ دیتا ہے۔ سنیچروار ہونے کی وجہ سے بہت کم گاڑیاں وہاں موجود تھیں اور سواریاں بہت زیادہ کیوں کہ جنوبی کشمیر کے بہت سے ملازمین ہفتہ بعد اپنے گھروں کا رخ کیا کرتے ہیں ۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد فرحان کی نظر جے کے زیرو تھری نمبر والی سومو گاڑی پر پڑی ۔ تیز قدموں کے ساتھ چل کر اس نے ڈرایور کو رکنے کے لئے اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
ہاں بھائی کہاں جانا ہے ۔۔۔ اننت ناگ
نہیں نہیں میں اونتی پورہ تک ہی ہوں ۔‌ بھائی نمبر جو اننت ناگ کا ہے ۔ پلیز اننت ناگ تک برابر جائے ۔ یہاں بہت سواریاں ہیں جو انتظار کر رہی ہیں اور جن کو برابر اننت ناگ جانا ہے۔۔۔
نہیں نہیں مجھے آج تین دن بعد گھر جانا ہے ۔ فایدہ کیا ہے برابر اننت ناگ جانے کا ۔
فرحان نے پھر ڈرایور سے گویا التجا کی کہ مہربانی کر کے برابر اننت ناگ تک جائے ۔ لیکن ڈرایور کہاں ماننے والوں میں سے تھا ۔۔۔۔ اترو آپ بھی گاڑی سے اگر نہیں بیٹھنا ہے۔ یہ سن کر فرحان نے خاموشی میں ہی اپنی عزت بچانا غنیمت سمجھا۔۔ کچھ قدم چل کر آٹھ نو اور سواریاں بھی سومو میں چڑھ گئیں ۔ ان کو بھی اننت ناگ تک برابر جانا تھا اور ڈرایور کو وہاں تک جانے کے لیے اسرار کیا لیکن ڈرایور صاحب نے ایک کی بھی نہ مانی ۔۔۔ فرحان کو بہت دکھ ہوا ۔ سات روز بعد گھر واپس آرہا تھا اور اوپر سے اننت ناگ تک برابر گاڑی بھی نہیں مل پارہی تھی ۔‌ اس نے اپنے آپ سے ہی کہا کاش میں پولیس میں ہوتا اس کا چالان بھی کرتا اور مارپیٹ بھی ۔ تبھی اسکا الو سیدھا ہوتا ۔ کتنا کمین اور کم ظرف ہے یہ بندہ۔۔۔۔۔
آگے چل کر گاڑی برابر دو گھنٹے تک جام میں پھنس گئی ۔ نہ آگے جانے کا راستہ تھا اور نہ ہی پیچھے جانے کا ۔ ڈرائیور نے‌ اب رانگ سایڑ سے ہی گاڑی آگے کی طرف نکالی۔ عاشورہ کا مقدس ترین دن تھا اور شیعہ برادری کے لوگ امام عالی مقام رضہ کے تعین خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جلوس کی شکل میں‌ مخالف سمت میں آگے بڑھ رہے تھے ۔‌ اسی وجہ سے جام تھا ۔ اسی اثناء میں ڈرائیور کو گھر کا فون آیا ۔۔۔۔ ہاں ہاں میں جلد ہی گھر پہنچ رہا ہوں ۔‌ تم بے فکر رہو ۔ میں نے اب اونتی پورہ تک ہی سواریاں اٹھائی حالانکہ کثیر تعداد میں سواریاں برابر اننت ناگ تک گاڑیوں کا انتظار کر رہیں تھیں ۔‌ یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا ۔۔۔۔۔
پانچ چھ قدم ہی بڑھا تھا کہ پولیس کی جپسی سامنے کھڑی ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر ایک سب انسپکٹر نے ڈرایور کو جتنا چاہا اتنی مارپیٹ کی اور جیپ سے اپنا سمارٹ فون نکال کر گاڑی کا فوٹو اٹھایا اور آن لائن چالان لکھنے لگا ۔ پانتھہ چوک بائی پاس پہنچ کر ڈرائیور گاڑی سے نیچے اترا اور سواریوں سے کہا۔۔۔۔۔
میں یہاں تک ہی ہوں ۔ آپ لوگ مجھے کرایہ ادا کرنے کی زحمت نہ کریں کیونکہ پہلے میں چالان بھر دوں گا ۔ اس لیے واپس ہی لالچوک جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔
فرحان ۔۔‌ کاش میں نے خدا سے کچھ اور مانگا ہوتا ۔


ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں