ترا پیغام آیا ہے دسمبر کے مہینے میں 0

عدُو کی ذد میں ہے کب سے حصارِ ذات مرِی

غزل

پرویز مانوس

عدُو کی ذد میں ہے کب سے حصارِ ذات مرِی
ہراس و خوف میں گُزری ہر ایک رات مرِی
مِرا تھا ہا تھ نوالے کی سمت پھیلا ہوا
امیرِ شہر مگر دیکھتا تھا کات مِری
کفیل اپنے گھرانے کی ہوں،بتاؤں کسے
سمٹ گئی اسی روٹی میں کائنات مِری
کبھی میں اپنے قبیلے کا ایک رہبر تھا
پھر آج کیوں نہیں سُنتا ہے کوئی بات مِری
بہت سے لوگ ہیں جیسے ابھی ہوئے شامل
اسی طرح سے تھی نکلی کبھی برات مِری
میں تیز دُھوپ میں جس کا تھا سائبان بنا
اُسی کے واسطے اب کچھ نہیں حیات مِری
بچھڑنے والے کو احساسِ درد ہوجاتا
کبھی جو دیکھتا وہ قلبی واردات مرِی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں