میں جب بھی سرِ آئینہ آ گیا 0

میں جب بھی سرِ آئینہ آ گیا

غزل
اشہرؔ اشرف

میں جب بھی سرِ آئینہ آ گیا
میں اپنی ہی صورت سے گھبرا گیا
یہ طرزِ تکلم مجھے بھا گیا
تری گفتگو کا نشہ چھا گیا
جہاں میں تماشا بنایا گیا
ہمیں اپنے گھر سے نکالا گیا
ہمیشہ تماشہ دکھایا گیا
ہمیں شیشے میں روز اتارا گیا
ہم اس شہر کے رہنے والے ہوئے
جہاں روز مقتل سجایا گیا
نئی صُبح کے منتظر تھے مگر
امیدوں پہ شب خون مارا گیا
تسلط اندھیروں کا ہر شے پہ ہے
چراغوں کو اشؔہر بجھایا گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں