ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
رشید پروینؔ سوپور
ڈرگس۔ قائمہ کمیٹی برائے سماجی انصاف و عطائے اختیار کی رپورٹ
پورے بھارت میںایک سروے کے مطابق عادی ڈرگس لینے والوں کی تعداد ۲۰۲۱ میں ۵ پرسنٹ سے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ منزلیں طئے کرکے ۲۰۲۲ تک ۱۴پرسنٹ تک پہنچ چکی ہے ، یہ اعداد و شمار صحیح ہیں تو آپ خودکلکولیٹ کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ آبادی کا کتنا بڑا حصہ ہے ۔اور اگر اس انا کونڈا نے اپنی یہ رفتار قائم رکھی تو آپ یہ بھی جان جائیں گے کہ یہ اتنا بڑا شاندار ماضی والا ملک مکمل طور پر بھنگیوں اور چرسیوں کی آرام گاہ میں کتنی مدت تک تبدیل ہو جائے گا ۔۔
قائمہ کمیٹی برائے سماجی انصاف و عطائے اختیار، نے حالیہ دنوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں ڈرگس سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی ہے ، یہ مرکزی قائمہ کمیٹی لوک سبھا اورراجیہ سبھا کے ۲۷ افراد پر مشتمل ہے اور اس کمیٹی نے محتاط طریقے سے جموں و کشمیر میں ڈرگس پر سروے کے بعد اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے کر آخر پیش کیا ہے ،اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر شاید کرپشن میں جہاں سر فہرست اپنا مقام بنا چکا ہےٹھیک اسی طرح منشیات کے استعمال میں بھی اسی مقام پر آچکا ہے ،، اس سے پہلے کہ ان کے ہوشربا اور لرزہ خیز اعداد و شمار کا ذکر کیا جائے ہم اپنی طرف سے اس رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں کہ شاید یہ اعداد و شمار نا مکمل اوران سے کہیں زیادہ ہوں کیونکہ اکثر و بیشتر ، والدین کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کی اس تباہی اور بربادی کو سماج اور اپنے خاندان سے کسی طرح چھپائے رکھیں اور اس طرح سے شاید ایک بہت بڑی تعداد اس کوشش میں کامیاب بھی رہتی ہو، اگر یہ مفروضہ درست ہے تو اعداد و شمار کہیں بہت زیادہ ہوں گے ، یہ رپورٹ نہ صرف لرزہ خیز ہے بلکہ ہیبت ناک اور اسی قدر اذیت ناک بھی ہے ، مجموعی طور پر اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں ۱۳ لاکھ پچاس ہزارسات سو ڈرگ ایڈکٹ ہیں ، جو ۱۸ سال کی عمر سے لے کر ۷۵ سال کی عمر کے درمیان ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی تعداد ۱۸ سے ۲۷ سال تک کے نوجوانوں کی ہے جس میں ایک بہت بڑی تعداد صنف نازک سے بھی تعلق رکھتی ہے ،،،
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ ۲۰۱۸ میں متوقع آبادی پر مبنی اعداد و شمار ہیں اور ۲۰۱۸ سے لے کر اب تک زمینی سطح پر اس انا کونڈا نے کتنی بڑی تعداد کو نگل لیا ہوگا اس کا ہم صرف اندازہ ہی کر سکتے ہیں ،، معاملے کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ا س رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ۱۰ برس سے ۱۷ برس کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد ایک لاکھ اٹھا سٹھ ہزار سات سو ہے ، لیکن ہماری دلیل کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ اور بہت زیادہ ہوگی ، اور ہم جانتے ہیں کہ اس عمر کے بچے مڈل سکولوں۔ ہائی یا ہائر سیکنڈری سکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں ، ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ منشیات کا یہ ٹیرف اور مافیا ان ہی سکولوں میں سر گرم اور شدت کے ساتھ چل رہا ہے جس کی وجوہات کو سمجھنا بڑا ہی آسان اور سہل ہے ،،
یہ عمر بچے کی معصومیت اور بے نیازی کی ہوتی ہے اور اس عمر میں بچوں سے بہت سے کام غیر شعوری طور پر بھی بڑی آسانی سے کرائے جاسکتے ہیں ، انہیں کوئی بھی کام کرانے کے لئے آسانی سے اکسایا بھی جاسکتا ہے اور معمولی للچانے یا انہیں غلط راستوں پر ڈالنے کے لئے کسی خاص تکنیک کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ، بس دوستی ۔دوستی میں ہی کم عمر بچوں سے یہ کام کرائے جاسکتے ہیں جو ان کے لئے تباہ کُن تو ہوتے ہیں لیکن یہ معصوم سی جانیں آنے والے طوفانوں سے کوئی سرو کار ہی نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے یہ نو عمر بچے خوبصورت اور خوشنما لبادوں میں چھپے سانپوں اور شہماروں سے بڑی آسانی سے ڈسے جاسکتے ہیں ، منشیات میں مبتلا بچوں اور بچیوں کی یہ تعداد ہوشربا بھی ہے اور ہمارے پیروں سے زمین کھسکا دینے کے لئے بھی کافی ہے ،، ڈرگس کی یہ فراونی اور پھر اس کو ستعمال کرنے والوں کی یہ تعداد اپنے اندر شاید اس قدر سادہ نہ ہو جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں ، اس سنگین مسلے کے بہت سارے پہلو اور پہلو در پہلو ہیں۔جن کی گرہیں کھولنا ہمارے لئے آسان نہیں ،یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ مافیا جو ڈرگس کو بڑی آسانی اور مکمل اعتماد کے ساتھ چلا رہا ہے ،کن بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے ،؟
پیڈلرس جو ڈرگ سپلائی کرتے ہیں اور ڈسٹری بیو ٹرس جو تقسیم کاری کرتے ہیں اور اس کے بعد تیسرے نمبر پر وہ غریب ، سادہ لوح اور معصوم بچے جو ان کے نشانوں پر ہوتے ہیں ، دو مراحل کو ہم نظر انداز کر تے ہیں جو بہت ہی اہم اور بنیادی مجرموں کی فہرست میں آتے ہیں۔اور یہ لوگ کس طرح اپنی راہیں آسان بھی سمجھتے ہیں اور بلا خوف و خطر کے سماج اور معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہیں ،؟ یہ شاید سمجھ سے باہر کے معمے نہیںلیکن اس مافیا کا ۔جو تناور درخت کا روپ اختیار کر چکا ہے کی جڑیں کاٹنے میں ہم بری طرح سے ناکام ہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار یا وہ ادارے جو اس مافیا کی بیخ کنی کے ذمہ دار ہیں اس کا علاج کہاں ڈھونڈھتے اور تلاش کرتے ہیں ؟ مرکزی سرکار نے napddrیعنی نیشنل ایکشن پلان فار ڈرگ ڈیمانڈ ریڈکشن قائم کی ہے ، یہ تنظیم ریاستی اور مرکزی (یو ٹی ) کے اشتراک میں دوسری تنظیموں ،این جی اوز ، ٹرسٹس ، آٹو نو مس باڈیز اور ہسپتالوں کے اشتراک اور باہمی تعاون پر مبنی ہیںجو سب مل کر ڈی ایڈکشن پر کام کرنے کے منصوبے تشکیل دیتے ہیںیاپھر تجا ویز دیتی ہیں ،، کیا کہئے اور کیا لکھئے ِ ۔ ،،
(اونٹ نے بانہال میں کپاس کھائی اور کسی اور اونٹ کی سونڈ بارہمولہ میں کاٹی گئی )) کیا اس کے لئے پولیس ڈیپارٹمنٹ کافی نہیں ؟،
جب کسی بھی ریاست میں دہشت گردی ،یا ملیٹینسی کو ختم کیا جاسکتا ہے تو یہ بڑا اور پاور فل ادارہ اپنے مقابلے میں ایک چھوٹے سے مافیا کو زمین بوس کیوں نہیں کر سکتا؟یا تو اس محکمے کے ہاتھ پیر ہی بندھے ہیں یا ہمارا آئینی نظام ہی مکڑی کا وہ جالا ہے جس سے طاقت ور بار بار توڈ کر نکل جاتا ہے ، سرکاران تنظیموں کو فنڈ واگذار کرے گی ، ہسپتا لوں میں ڈرگ ایڈکٹوں کے لئے سہولیات میسر رکھے گی، ڈرگ ایڈکشن سینٹرز کا قیام عمل میں لائے گی لیکن اس مافیا کی بیخ کنی کے سخت اور شدید اقدامات اور قوانین بنانے سے معذور رہ جاتی ہے ،بہر حال یہ وہ گورکھ دھندے اور پھڈے ہیں جو ہم جیسے لوگ نہیں سمجھ پاتے ، ،ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیسے اور کس طرح پچھلے پچیس تیس برسوں کے دوران درسگاہوں ، کالجوں سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت، اونچی انسانی اقدار اور علم وادب کی خوشبوؤں کے بجائے یہ عفریتیں پل رہی ہیں یا پنپنے میں کامیاب رہی ہیں ،کچھ تو ہے جو اس مافیا کے لئے آسانیاں اور سہولیتیں فراہم ہورہی ہیں ، کون لوگ ہیں جن کی پہنچ ان تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں تک آسان بنی ہوئی ہے؟کیا اساتذہ بھی اس میں ذمہ دار ہے یا کیا وہ کچھ اس معاملے میں اپنی جان کے خوف سے چھپانے پر مجبور ہیں ،؟ بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا لازمی اور ناگزیر ہے ، ، ،،،
ہماری ایک مکمل نوجوان نسل ماضی قریب میں پوری طرح کٹ چکی ہے ،،،اور ہماری اب یہ دوسری نوجوان نسل ایک عفریت کی زد میں ہے بلکہ ذالچو اور کاکڑ خانوں کے قتل عاموں کے مقابلے میں زیادہ سنگین، اذیتناک اورالمناک ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کا خاتمہ مقصود ہو اس سے تلوار کے بجائے اسی راستے پر ڈال کر اپنی موت آپ مرنے کے لئے چھوڈا جاتا ہے ، ،،
یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ والدین دور و نزدیک ، آئے روز اخبارات کی رپورٹننگ کے مطابق اپنے نوجوان بیٹوں کی لاشیں ، کھیتوں سے ، کھلیانوں یا نزدیکی باغوں سے اپنے کندھوں پر اٹھاکر خاموشی کے ساتھ ا نہیں کفن پہنا کر دفن کر آتے ہیں ، ان کا دکھ ناقابل برداشت ،، ناقابل فراموش اور ناقابل بیان ہے ،، اس غم کا اندازہ ، اور ان کیفیات کا اندازہ کرنا ہی ناممکن سی بات ہے جن سے یہ والدین گذرتے ہیں ۔۔ حالیہ مہینوں میں ڈرگ پیڈلروں کے خلاف اخباری طور پر ایسا ؛لگتا ہے کہ مہم شروع کی جا چکی ہے ،، جو سمیناروں ، تقریروں ،کالجوں اور سکولوں میں ڈبیٹس کی صورت آگے بڑھ رہی ہے ، لیکن یہاں یہ سوال بڑا اہم ہے کہ کیا اس طرح کی مہم کوئی خاص نتائج پیدا کرسکتی ہے ؟،
ہم اب ہر سنجیدہ اور پوری قوم کی زندگی سے وابستہ گھمبیر مسائل کا حل بھی دکھاوے کے جلسے ، پریڈووں، ڈبیٹس اورسوشل میڈیا پر اپنی نمائش تک محدود کر چکے ہیں ، جو لاحاصل ہی نہیں بلکہ ہماری بے حسی اور اپنی قوم اور وطن کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ، اس عفریت کا تدارک سخت سزاؤں ، خلوص اور دیانت داری کے ساتھ تمام پیڈلرس کو وہ کتنے ہی بڑے با اثراور سرمایہ دار ہوں پا بہ زنجیر کئے بغیر ممکن ہی نہیں۔کیونکہ ان سب لوگوں کی پناہ گاہیں سیاسی اور حکمراں تنظیموں کی چھتر چھایا کے بغیر کہیں نہیں ، دوسری اور اہم بات یہ کہ ہم مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں میں قرآن فہمی کا شوق پیدا کریں ،کیونکہ اصل ِحیات بھی یہی ہے اور اصل زندگی بھی ہر لحاظ سے یہ تعلیمات ہیں جو انسان کو اپنے معاشرے میں متوازن اور بغیر ریپرشن ، ڈیپرشن اور سپریشن کے زندگی گذارنے پر آمادہ کرتی ہیں کیونکہ اسلام کی بنیادی تعلیم اس کے ذہن پر چھپ جائے تو وہ زندگی کے کسی موڈ پر اللہ کی مشیعت اور منشا سے بغاوت نہیں کرتا ، اور اس منشا اور مرضی سے بغاوت ہی اصل میں ڈیپرشن ، سپرشن اور ریپرشن جنم لیتا ہے۔۔
�������