مرزا بشیر احمد شاکر کا تخلیقی سفر 0

مرزا بشیر احمد شاکر کا تخلیقی سفر

سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد

کشمیر کے جنتے شعرا، ادبا، اور قلمکاروں نے اردو اور کشمیری زبان و ادب کی خدمت کی ہے اور ان زبانوں کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ان میں مرزا بشیر احمد شاکر کا نام قابل قدر ہے ۔مرزا بشیر احمد شاکر 8 مئی 1950 کو سرینگر میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام مرزا غلام محی الدین بیگ تھا ۔ دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ ڈاک میں بطورِ پوسٹ ماسٹر تعینات ہوئے ۔جس وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا ۔ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باجود مرزا بشیر احمد شاکر نے اردو اور کشمیری زبان میں اپنے قلم سے ایسے جوہر دکھائے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریاں کر کے بھی لوگ نہیں دکھا پاتے ہیں ۔انہوں نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھا بچھونا بنایا ہے۔ چند روز قبل مرزا بشیر احمد شاکر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بشیر صاحب کا کتب خانہ دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔ ہر طرف سے کتابیں ہی کتابیں ہے۔ ادبی کتابوں کے ساتھ ساتھ اسلامی کتابوں اور تفاسیر قرآن کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ موجود زمانے میں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو مرزا بشیر شاکر کی طرح کتابوں سے اس قدر محبت کرتے ہوں ۔اسی کتاب دوستی کا نتیجہ ہے کہ اب تک مرزا بشیر احمد شاکر کی آٹھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔جن میں” آوازِ دل ” اور “لوہتی گلاب ” کشمیری زبان میں تخلیق کی گئی کتابیں ہیں ۔یہ دونوں کتابیں مزرا بشیر احمد شاکر کی اسلام کے تئیں رغبت و محبت کا بین ثبوت ہیں ۔ دونوں کتابیں نعت، مناجات اور منقبت پر مبنی ہیں ” آوازِ دل” کا تقریظ پروفیسر نذیر احمد ملک نے لکھا ہے ۔جب کہ “لوہتی گلاب ” نامی کتاب پر سلطان الحق شہیدی، پروفیسر بشیر احمد نحوی، مولانا شوکت احمد کینگ، پروفیسر مرغوب بانہالی، اور ڈاکٹر شاد رمضان جیسے مستند قلمکاروں نے حوصلہ افزا تبصرے کئے ہیں ۔ دونوں کتابوں کے نعت، منقبت اور مناجات پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے ۔ روح کو سکون ملتا ہے مرزا بشیر احمد شاکر نے ” خط و خیریت ” نام کی ایک کتاب بھی کشمیری زبان میں تخلیق کی ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کتاب پر عبدالاحد فرہاد نے اپنے تاثرات پیش کئے ہیں اس کتاب میں مصنف نے وہ تمام خط نقل کئے ہیں جو انہوں نے وقت کے نامور ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کے نام لکھے ہیں اور وہ سب بھی جو جواباً ان ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں سے موصول ہوئے ہیں ۔ اس کتاب میں مزرا غلام حسن بیگ عارف، پروفیسر مرغوب بانہالی، ارجن دیو مہجور، محمد یوسف ٹینگ، غلام نبی خیال، نشاط انصاری غلام بنی آتش، پروفیسر شاد رمضان، عزیز حاجنی، پیارے ہتاش ، گلشن بدرنی، شاہد بڈگامی، اور متعدد لوگوں کو لکھے گئے خطوط اور ان کے جوابی خطوط شامل کئے گئے ہیں ۔اب اگر چہ خط لکھنے کا زمانہ نہیں رہا یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خط لکھنے کا رواج معدوم ہوگیا ہے لیکن مرزا بشیر شاکر کے خط پڑھ کر انسان ایک عجیب احساس سے لطف اندوز ہوجاتا ہے۔ اور یہ احساس بھی جاگ جاتا ہے کہ افسوس ہم کس اہم اور دل سے جڑی ہوئی صنف سے دور ہوگئے ہیں اور قاری کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوتی ہے کہ کیوں نہ پھر سے خط و کتابت کے اس عمل کی شروع کی جائے ۔کیونکہ جو لطف خط لکھنے میں ہے وہ ٹیلی فون پر بات کرنے میں نہیں ہے اگر چہ ٹیلیفون کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔مرزا بشیر احمد شاکر نے کشمیری زبان میں “خط و خیریت” نام کی ایک کتاب لکھ کر نہ صرف کشمیری زبان پر بلکہ نئی نسل پر احسان کیا ہے۔ خطوط کے ایک ایک لفظ سے چاشنی اور مٹھاس ٹپکتی ہے۔ مصنف کی علمی، ادبی مضامین و تاثرات پر مبنی ” گلرنگ” نام کی کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہیں ۔ جس میں مصنف نے کتب خانہ اکبر حیدی الکشمیری، جسٹس جاوید اقبال سے ایک یادگار ملاقات، آل اقبال کے ساتھ چند ساعتیں، ہسپتال عبرت کی جگہ جیسے علمی مضامین کے ساتھ ساتھ چند اہم تبصرے بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ اس کتاب میں مصنف نے مسدس حالی کا کشمیری زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے ۔مصنف نے” کتابیں ہم نشیں میری ” نام کی دلچسپ کتاب بھی لکھی ہے جس میں بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ کتابوں کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنی بات کی جائے، جتنا کچھ لکھا جائے اتنا کم ہے کیونکہ نئی نسل کتابوں سے بھاگتی جارہی ہے۔ اگر چہ نئی کتابیں لکھی جارہی ہیں تاہم اگر نئی نسل کو مطالعہ کی جانب راغب نہیں کیا گیا تو کتاب لکھے کا مقصد خود بہ خود فوت ہوجائے گا ۔ کیونکہ اگر قاری ہی نہیں رہے گا تو لکھنے والا اپنی موت آپ مرے گا۔ مصنف نے ” پوت آلو” نام کی بھی کتاب لکھی ہے جس میں کشمیر کے نامساعد حالات سے متاثر ہو کر مثنوی نما نظمیں درج ہیں جس سے کشمیر کے حالات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ کشمیری نظموں اور غزلوں پر مبنی ان کی کتاب “رنگہ ریول ” بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مصنف نے “خطوط و سفر نامے ” لکھ کر سفر نامہ کی صنف میں قابل قدر اضامہ کیا ہے ۔مزرا بشیر احمد شاکر کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی کتاب “علامہ اقبالؒ کے دیس میں ” ہے یہ کتاب سفر ناموں پر مبنی ہے۔مصنف کو اولیاءاللہ کی زیارت گاہوں پر جانے کا شوق بہت پہلے سے رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں مصنف نے بہت ساری زیارت گاہوں پر حاضری دی ہے ۔ زیارت گاہوں کا شوق اور علامہ اقبال سے عقیدت کے نتیجے میں مصنف تین بار پاکستان جا چکے ہیں تینوں سفر ناموں کو علامہ الگ الگ ناموں سے قلمبند کیا ہے ۔پہلے سفر نامے کو ” علامہ اقبالؒ کے دیس میں” دوسرے سفر نامے کو “لیلائے تمنا کی آغوش میں” اور تیسرے سفر نامے کو “ہمیں بھی یاد کر لینا” کے نام محفوظ کر لیا ۔مصنف نے ان اسفار کے دوران علامہ اقبال کی زیارت گاہ کے ساتھ ساتھ حفیظ جالندھری کی زیارت گاہ پر بھی حاضری دی۔ مصنف نے اسفار پاکستان کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور اقبال کی زیارت گاہ پر تلاوت بھی کی ہے اور تصویریں بھی لی ہیں۔ مصنف علامہ اقبال کے فرزند ارجمند جسٹس جاوید اقبال سے بھی مل چکے ہیں اور ان کی صاحبزادی محترمہ منیرہ سے بھی ملاقات کی ہے اس وقت محترمہ کی عمر 75 سال تھی ۔

اس حوالے سے مرزا بشیر شاکر لکھتے ہیں کہ ۔” چند ثانیوں کے بعد ہی محترمہ منیرہ اپنی نرس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں ۔میں احتراماً کھڑا ہوا اور فرط مسرت سے ان کے ماتھے کو بوسہ دیا۔ ایک نہیں دوبار۔ محترمہ بیٹھ گئیں ۔کبرسنی، سر کے بال بالکل سفید، عمدہ لباس زیب تن، خوش رو، میانہ قد، سبحان اللہ ” مرزا بشیر احمد نے جسٹی جاوید اقبال اور محترمہ منیرہ کے ساتھ تصویریں بھی لی ہیں۔یاد رہے کہ ان دنوں تصویر لینا اتنا آسان نہ تھا۔کیونکہ کیمرے اتنے عام نہ تھے ۔مصنف کو کیمرہ حاصل کرنے کےلیے سخت مشقت کرنی پڑی ۔علامہ اقبال کی صاحبزادی نے مصنف کو ایک شال بھی اوڑھا ہے جو مصنف نے بڑی محبت اور عقیدت سے سنبھال کے رکھا ہے۔ جو ان کی اقبال دوستی بلکہ اقبال شناسی کا بین ثبوت ہے۔ مرزا بشیر احمد شاکر نے اس پلنگ کی بھی تصور لی ہے جس پر حکیم الامت جناب علامہ اقبال نے آخری سانسیں لے ہیں۔ اور علامہ اقبال کی نوادرات کے ساتھ بھی تصویر لی ہے۔ مرزا بشیر احمد شاکر اس حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں” کہ
علامہ اقبال کی خواب گاہ سنگ مر مر کی بنی ہے جس پر یہ عبارت کندہ ہے
اِنَ مِنَ الشَعر لحکمتہ
وَ اِن من البیان لجرا
نہ افغانیم ونہ ترک و تتاریم
چمن زاد یم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردہ یک نو بہار یم
اس لوح مزار پر فارسی میں ایک عبارت بھی درج ہے۔مقبرہِ اقبال کے فرش پر سنگ مر مر کی خوبصورت تختیاں تزئین کاری کا عمدہ نمونہ ہیں اور دیواروں کے چاروں طرف علامہ اقبال کے دلنشین اشعار کندہ کرائے گئے ہیں ” علامہ اقبال نے اپنے وقت میں کہا تھا کہ
زیارت گاہِ اہل عظم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی
مرزا بشیر احمد شاکر خود لکھتے ہیں کہ یہ اولیا اللہ کی زیارت گاہوں کا شوق اور علامہ اقبال سے میری عقیدت ہے جو مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ اور میرا یہ سفر محض ایک ادبی سفر تھا۔
مرزا بشیر شاکر نے ” کتابیں ہم نشین میری ” نام کی ایک نظم بھی تخلیق کی ہے جو مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہے.اس نظم کے چند اشعار یوں ہیں۔
کتابوں سے مجھے اپنی کہوں کیا؟ کیسی الفت ہے
یہ میرا وہ اثاثہ ہیں جو سچ مچ بیش قیمت ہے
کتابیں رہنما ہوتی ہیں جو رستہ دکھاتی ہیں
کہاں جانا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ یہ ہم کو سکھاتی ہیں
پڑھو یہ معارف القرآن یہ ایک کارنامہ ہے
یہ اس مفتی شفیع صاحب کا تفسیری خزانہ ہے
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا بشیر احمد شاکر کو نظم و نثر پر یکساں عبور حاصل ہے۔ بارہ مولہ کے ایک معروف قلمکار خالق پرویز نے مرزا بشیر احمد کی ادبی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ایک خوبصورت نظم لکھ کر ان کا قلمی چہرہ پیش کیا۔جو کہ مرزا بشیر احمد شاکر کے لیے کسی بڑے تحفے سے کم نہیں ہے۔ بشیر نحوی صاحب مرزا بشیر احمد شاکر کی شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” انہیں پوسٹ ماسٹر کے بجائے کسی اسکول کا ہیڈماسٹر یا پھر کسی کالج کا لیکچرر یا استاد ہونا چاہئے تھا ” مرزا بشیر احمد شاکر آج بھی بڑے آب و تاب سے ادبی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان میں کچھ کرنے کی لگن ہو، کچھ کرنے کا جذبہ اور پختہ ارادہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے بلکہ پھر پوری دنیا اسے اپنے مقصد میں کامیابی دلانے کی سازش میں لگ جاتی ہے. یہ سچ ہے کہ مرزا بشیر احمد شاکر کے ادبی کارناموں پر اس مختصر سے مضمون میں مکمل طور پر بات نہیں ہو سکتی ہے نہ ہی اس مختصر سے مضمون میں ان کے تخلیقی کارناموں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے اللہ کرے کہ ایسے بے لوص، ہمدر اور ملنسار، علم دوست قلمکاروں کا سایہ اردو اور کشمیری ادب پر بنا رہے ۔
���
�������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں