مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو اچھا تھا 0

مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو اچھا تھا

غــــــــــــــزل

مبینہ رشید”

مرے خوابوں کے افسانے بکھر جاتے تو اچھا تھا
پرندے عشق کے پل بھر ٹھہر جاتے تو اچھا تھا
بہانہ کوئی کرلیتے وہ میرے ساتھ رہنے کا
یا میرے دل کے پربت سے اُتر جاتے تو اچھا تھا
کبھی خاموشیوں میں گنگناتے گیت اُلفت کے
کبھی جو ساز اپنے بھی نکھر جاتے تو اچھا تھا
کبھی رعنائیاں ہوتیں مرے بے رنگ اندھیروں میں
کبھی ہم بھی محبت سے سنوَر جاتے تو اچھا تھا
مری آوارہ نظروں کی کہانی متمعن ہوتی
اَگر وہ میری آنکھوں میں ٹھہر جاتے تو اچھا تھا
مبینہ دیکھ لیتے اک دفع چہرا جو دلبر کا
تو اُس کے بعد ہم یوں ہی جو مَر جاتے تو اچھا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں