فتویٰ 0

فتویٰ

ملک منظور

مبلغ صاحب گاؤں کے چند نوجوانوں کے ساتھ عائشہ کے گھر پہنچا اور باہر سے آواز دی۔۔عائشہ عایشہ ۔۔
عائشہ دوڈتے دوڈتے باہر آئی ۔خطیب کو صحن میں دیکھ کر اس نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے ادباً کہا ۔۔خطیب صاحب اندر آئیے۔۔۔
ایک نوجوان نے غصے سے کہا ۔۔آپ کے گھر میں پانی پینا بھی حرام ہے ۔۔
عائشہ ہکا بکا ہو گئی وہ سمجھ نہیں پائی کہ وہ کیا کہہ رہے تھے ۔
خطیب نے حکماً کہا ۔۔دیکھو عائشہ تمہاری بیٹی جو کام کرتی ہے وہ گناہ ہے ۔بہتر ہے کہ تم اس کو واپس بلاؤ اور توبہ کرو ۔ورنہ ؟
عائشہ نے بات کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں کہا
۔۔۔ورنہ کیا ؟
ہمارے ساتھ قطعہ تعلقات کرو گے۔یا کوڑے مارو گے
۔۔وہ تمہارے سماج نے اسی دن کیا جس دن میرے شوہر کا چالیسواں دن منایا گیا ۔آپ بھی تو اسی دن آئے تھے ۔
تم بڑی بدتمیز عورت ہو ۔تمہیں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے
خطیب نے آنکھیں پھیر کر کہا ۔
عائشہ نے نرم لہجے میں کہا ۔۔بات کرنے کا سلیقہ ایک بیوہ سے مت پوچھو۔
خطیب صاحب دنیا میں ایک بیوہ کو طرح طرح کے ظلم وستم برداشت کرنے پڑتے ہیں، مختلف قسم کی مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بحثیت ماں پریشان رہتی ہے کہ کس طرح بچوں کی پرورش کرے
میں نے اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کو خوش رکھنے کی بہت کوشش کی؛ لیکن میں ان کو وہ خوشی نہیں دے پائی جو انہیں باپ سے ملتی ۔خوشیاں تو دور کی باتیں ہیں میں اپنے بل بوتے پر دو وقت کا بھر پور کھانا بھی نہیں دے سکی ۔
لوگ مجھ جیسی بدقسمت ماں کو طعنے دیتے ہیں، پھبتیاں کستے ہیں۔ ظالم سماج کی گندی سوچ ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتی ہے۔
ان بچوں کے یتیم ہوجانے کے بعد عزیز واقارب نے ہم سے رشتہ توڑ لیا۔ ہمارا خدا کے علاوہ کوئی پرسان حال نہیں تھا،کسی نے ہماری پریشانی کے ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
وہ گناہ نہیں ہے۔
شوہر گلزار کی اچانک وفات ہونے سے عائشہ اپنے تین بچوں سمیت گھر میں بےبس اور بے سہارا ہوگئی تھی ۔
گلزار کی موت نے ایک آباد گھر کو بربادی کے دہانے پر کھڑا کیا ۔اس سےعائشہ کو گہرا صدمہ پہنچا۔ شوہر کی موت کے بعد آفتوں اور غموں کا لمبا سلسلہ شروع ہوگیا ۔چند دنوں تک لوگوں کا تانتا بندھا رہا ۔رسم چہارم کی چائے پینے اور پندرہویں کے چکن کھانے کے بعد لوگوں کی بھیڑ تیزی سے کم ہوتی گئی ۔ایک دو سال تک کچھ لوگوں نے صدقات و خیرات دے کر مدد کی لیکن وہ بھی دیتے دیتے تھک گئے ۔تھکنا تو ضروری تھا کیونکہ نیک کام وزن دار جو ہوتے ہیں ۔گاوں میں عورتوں کی مزدوری کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے عائشہ کے لئے تین بچوں کا پیٹ پالنا دشوار ہوگیا ۔آس پاس کے لوگوں کا چھوٹا موٹا کام کرنے سے وہ جتنی رقم کماتی تھی اس سے بچوں کے دو وقت کی روٹی کا انتظام پوری طرح سے نہیں ہوتا تھا ۔اس لئے وہ اکثر خود بغیر کسی سحری کے روزے رکھنے پر مجبور ہوجاتی تھی ۔بڑی بیٹی بارہویں میں پڑھتی تھی وہ بھی اکثر ماں کے ساتھ خالی پیٹ سو جاتی تھی ۔فاقوں کی وجہ سے عایشہ کے سینے سے دودھ خشک ہوگیا جس کی وجہ سے چھوٹا بیٹا جو ابھی ایک سال کا ہی تھا اکثر روتا رہتا تھا ۔دوسرا بیٹا سات سال کا تھا وہ کبھی کبھی ماں سے پوچھتا تھا ۔۔ماں ہمارے پاس کھانا کیوں نہیں ہے ؟ کیا خدا نے‌ ہمارے لئے رزق کے سارے دروازے بند کئے ہیں ۔
بیٹے کی یہ باتیں سن کر عائشہ کا کلیجہ پھٹ جاتا تھا ۔وہ پڑوسیوں کی اونچی دیواروں کو دیکھ کر بیٹے سے کہتی ۔۔یہ یزید کی فوج ہے جو ہمارے کھانے کی اشیاء کو ہم تک آنے سے روک رہی ہے ۔ورنہ خدا نے یتیموں اور مفلسوں کے لئے پہلے ہی انتظام کر رکھا ہے ۔
اس زمانے میں اگر عمر ہوتے تو ہماری ہانڈی خالی نہیں ہوتی ۔
مشکل حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیٹی مسکان نے پڑھائی چھوڑ کر ایک ہوٹل میں برتن دھونے کا کام شروع کیا ۔بیچاری کے معصوم ہاتھوں میں چھالے پڑنے لگے ۔وہ سب برداشت کرتی رہی لیکن سیٹھ کی قلیل تنخواہ سے اس کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔اس لئے اس نے دوسرے کام کی کھوج جاری رکھی ۔ایک دن اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا ۔وہ بہت خوش ہوگئی ۔اس نے ماں سے پوچھ کر نوکری کے لئے فارم بھرا ۔خوش قسمتی سے کمپنی نے اس کو بہتر تنخواہ دے کر منتخب کیا ۔ اس کے گھر کے حالات دھیرے دھیرے جتنے سدھرنے لگے اتنے ہی سوالات سماج کے ریاکار لوگ پوچھنے لگے ۔کل تک جو لوگ بیوہ عورت اور اس کے یتیم بچوں کی اجیراً زندگی پر ذرہ بھر بھی توجہ نہیں دیتے تھے ۔آج اچانک وہ ان کی زندگی میں دخل دینے لگے۔
گاؤں کے خطیب کو کسی نے مسکان کے کام کے بارے میں کہا ۔خطیب صاحب نے لڑکیوں کی بے حیائی پر لمبا بھاشن دیا ۔جب اس سے پیٹ نہیں بھرا تو غریب‌ مسکان کے نام پر خوب لعن وتان کی۔
مسکان ایک ہوائی جہاز میں بحثیت میزبان کام کرتی تھی ۔ سواریوں کا دل بہلانے کے لئے جہازوں کے ساتھ منسلک کمپنیاں لڑکیوں کو سج دھج کر رہنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ان کے کپڑوں کو آخری حدتک چھوٹے کرتے ہیں ۔بےچاری لاچار لڑکیاں عفت کا سودا کرنے کے بجائے ایسی نوکریاں کرنے کے لئے مجبور ہوجاتی ہیں ۔لوگ ان کے لباس پر انگلیاں تو اٹھاتے ہیں لیکن اس کے پیچھے پنہا مجبوری کو ان دیکھا کرتے ہیں ۔
اسی اثنا میں مسکان بھی باہر آئی اور مولوی صاحب سے کہا ۔۔مولوی صاحب ‌آپ ہماری کفالت کا انتظام کیجئے اور میں اپنی نوکری چھوڑ دوں گی ۔یا گاؤں میں ہی مجھے کوئی کام دلادیں ۔۔
خطیب صاحب نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔۔م م م میں کیسے کر سکتا ہوں ۔۔مجھے اپنی تنخواہ وقت پر نہیں ملتی تو آپ کی زمہ داری کیسے لوں گا
مسکان نے کہا ۔۔تو پھر بغیر سوچے سمجھے فتویٰ نہ لگایا کرو ۔
ملک منظور قصبہ کھل کولگام
9906598163

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں