25، 25 روپے ڈال کر خاکروب خواتین نے 10 کروڑ کا جیک پاٹ جیت لیا 0

25، 25 روپے ڈال کر خاکروب خواتین نے 10 کروڑ کا جیک پاٹ جیت لیا

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 11 خاکروب خواتین نے جون میں لاٹری ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے اکٹھے کیے اور پھر گذشتہ ہفتے اُن کی یہ جان کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ انھوں نے دس کروڑ روپے یعنی 12 لاکھ امریکی ڈالر کا جیک پاٹ جیت لیا ہے۔
یہ خواتین خاکروبوں کے اُس گروپ کا حصہ ہیں جو کیرالہ کے ملاپورم ضلع کے پارپنانگڈی قصبے میں گھروں سے کوڑا اکٹھا کرتا ہے۔ انھیں اس کام کے عوض عام طور پر روزانہ تقریباً 250 روپے اجرت ملتی ہے۔
یومیہ اجرت کے علاوہ انھیں کبھی کبھار اُن گھروں سے بھی کچھ پیسے مل جاتے ہیں جہاں سے وہ کوڑا اکھٹا کرتی ہیں جبکہ بعض اوقات کچرے کی فروخت سے بھی وہ تھوڑے بہت پیسے اکھٹے کر لیتی ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ یہ کمائی اس مہنگائی کے دور میں اُن کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین نے اپنے بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کے لیے قرض لے رکھے ہیں اور اسی قرض کو اتارنے کی امید میں وہ کبھی کبھار مل جل کر لاٹری کے ٹکٹ خرید لیتی ہیں۔
لاٹری انڈیا کی بہت سی ریاستوں میں غیر قانونی ہے لیکن کیرالہ کی حکومت خود لاٹری کا ایک انتہائی مقبول پروگرام چلاتی ہے۔۔
اس گروپ کے لیے عام طور پر لاٹری ٹکٹ خریدنے والی ایم پی رادھا نے کہا کہ ’ایک بار، ہم نے 1,000 روپے کا انعام جیتا اور اسے آپس میں بانٹ لیا تھا۔‘
پچھلے مہینے خواتین کے اس گروپ نے ’مون سون بمپر پرائز لاٹری‘ کے لیے 250 روپے کا ٹکٹ خریدنے کا فیصلہ کیا (بمپر انعامی لاٹری خاص مواقع جیسے تہواروں کے وقت کیرالہ کی ریاست جاری کرتی ہے۔)
72 سالہ کُٹٹی مالو کہتی ہیں کہ جب رادھا چندہ اکٹھا کر رہی تھیں تو وہ شروع میں غمزدہ تھیں کیونکہ ان کے پاس لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے بالکل نہیں تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’پھر چیرومنیل بیبی (گروپ کی ایک اور رکن) نے مجھ سے کہا کہ اس کے پاس 25 روپے ہیں اور وہ مجھے ٹکٹ کے لیے اس میں سے آدھا رقم دینے کے لیے تیار ہے۔‘
چنانچہ دونوں خواتین نے مل کر ٹکٹ کے اپنے اپنے حصے کے ساڑھے بارہ، ساڑھے بارہ روپے ڈالے جبکہ باقی نو خواتین نے 25-25 روپے ادا کیے۔
مز کٹٹی مالو کہتی ہیں: ’ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر ہم کوئی بھی انعام ملتا ہے ہمیں برابر کا حصہ ملے گا۔ ہمیں اتنی بڑی رقم جیتنے کی امید نہیں تھی۔‘
ان خواتین کو قرعہ اندازی کے ایک دن بعد ہی پتہ چلا کہ وہ جیت گئی ہیں جب ان میں سے ایک نے اپنے شوہر سے لاٹری کا نتیجہ چیک کرنے کو کہا۔
مز رادھا کہتی ہیں کہ ’یہ چوتھی بار ہے جب ہم نے بمپر انعام کے لیے ٹکٹ خریدا ہے۔ تین بار ناکامی کے بعد چوتھی بار ہم خوش قسمت رہے۔‘
مز بے بی کہتی ہیں کہ انھیں یقین نہیں آ رہا کہ ان کے گروپ نے جیک پاٹ جیت لیا ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’قسمت کبھی میرے ساتھ نہیں تھی۔‘ ان کا گھر 2018 میں کیرالہ میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ اب وہ ایک گھر بنانے اور اپنے قرضوں کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
گروپ کی دیگر خواتین کے پاس بھی اسی طرح کی کہانیاں ہیں۔
پچاس سالہ کے بندو نے اپنے شوہر کو گذشتہ سال گردے کی خرابی کی وجہ سے کھو دیا۔ ان کا خاندان ان کے ٹرانسپلانٹ کے لیے رقم اکٹھا کرنے سے قاصر رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ڈائیلاسز کے لیے جو رقم رکھتے وہ اس سے وہ لاٹری ٹکٹ خرید لیتا تھا۔ وہ ہمارے گھر کی تعمیر مکمل کیے بغیر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ مجھے اب اسے مکمل کرنا ہے۔‘
مز بندو یہ رقم اپنی 15 سالہ بیٹی کی تعلیم پر خرچ کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اچھی نوکری حاصل کر سکے۔
49 سالہ لکشمی کہتی ہیں کہ ان کی لاٹری جیتنے سے ایک رات پہلے ان کا خاندان اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھا۔ ان کے شوہر ایک مزدور ہیں اور ریاست میں شدید بارش کی وجہ سے آج کل انھیں مزدوری بھی نہیں مل پا رہی۔
اس جوڑے کو سکون ہے کہ وہ اب یہ رقم اپنی بیٹی کی تعلیم پر خرچ کر سکتے ہیں۔
56 سالہ لیلا کو اس بات کی فکر تھی کہ وہ اپنی بیٹی کی سرجری کے اخراجات کیسے برداشت کریں گی۔ وہ کہتی ہیں: ’میں نے پہلے ہی اپنے گھر کو رہن پر رکھ کر اس کی شادی کے لیے پیسے قرض لیے تھے۔‘
حکومتی ٹیکس ادا کرنے کے بعد ان خواتین کو مجموعی طور پر 63 ملین روپے ملیں گے۔ مز بے بی اور مز کٹٹی مالو اپنے حصہ 63 لاکھ میں سے آدھا آدھا برابر تقسیم کریں گی جبکہ دیگر کو 63-63 لاکھ روپے پورے ملیں گے۔
ریاست بھر میں ان کوششوں کو مربوط کرنے والی ایجنسی سچتوا مشن کے ڈائریکٹر کے ٹی بالا بھاسکرن کا کہنا ہے کہ کچرا جمع کرنے کے علاوہ یہ خواتین عوامی بیت الخلا کی تعمیر اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے سہولیات کی تنصیب میں بھی مدد کرتی ہیں۔
جمعہ کو اپنی زندگی بدل دینے والی جیت کے ایک دن بعد 11 خواتین ہمیشہ کی طرح اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایجنسی کے دفتر پہنچیں۔
مز لیلا نے کہا: ’ہم نے ایک چیز کا فیصلہ کیا ہے کہ ہم یہ نوکری نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہی اجتماعیت تھی جس نے ہمیں خوشحالی دی ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں