ملکہ وکٹوریہ، جو اپنی زندگی میں سات بار قاتلانہ حملوں میں بال بال بچیں 0

ملکہ وکٹوریہ، جو اپنی زندگی میں سات بار قاتلانہ حملوں میں بال بال بچیں

وہ 27 جون 1850 کا دن تھا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ایک اور کوشش کی گئی۔
اس رات ملکہ وکٹوریہ اپنے تین بچوں کو لے کر اپنے بیمار چچا سے ملنے لندن کے علاقے پکاڈیلی مینشن گئیں۔
جس دوران ملکہ اپنے چچا کی رہائشگاہ کے اندر ان کی عیادت کر رہی تھیں، تب ہی باہر سینکڑوں پرجوش شہری ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے منتظر تھے اور بے چینی سے ان کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
لیکن اس بھیڑ میں ایک آدمی کا مقصد کچھ اور تھا۔
جیسے ہی شاہی سواری رخصت ہونے لگی، رابرٹ پیٹ نامی آدمی ہجوم کو دھکیلتا ہوا ملکہ کی گاڑی کی طرف بھاگا اور ان کے سر پر دھاتی چھڑی سے وار کر دیا۔
اس حملے کے ساتھ ہی ہجوم میں خوف و ہراس پھیل گیا لیکن اسی افراتفری کے دوران ملکہ وکٹوریہ اٹھ کھڑی ہوئیں، اپنے ہیٹ کو درست کیا اور پرسکون رہتے ہوئے اعلان کیا کہ ’مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی۔‘
1837 میں جب سے ملکہ وکٹوریہ تخت نشین ہوئیں تھیں تب سے اب تک یہ پانچواں موقع تھا جب ان پر حملہ کیا گیا تھا۔
ذرائع ابلاغ میں اکثر ملکہ کے پرسکون انداز کو سراہا جاتا تھا۔ مارننگ پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ’ملکہ وکٹوریہ نے خطرے کا کوئی احساس نہیں ہونے دیا اور خود پر مکمل قابو رکھا۔‘
اس واقعے کے بعد جب ملکہ وکٹوریہ کی گاڑی بکنگھم پیلس واپس آئی تو وہاں موجود تماشائیوں نے نہایت خوش دلی سے اپنی ملکہ کو خوش آمدید کہا۔
ملکہ وکٹوریہ ایک لچکدار، ناقابل تسخیر اور فرض کے لیے پرعزم شخصیت کے طور پر مقبول تھیں۔
ملکہ وکٹوریہ سے منسوب ان کا مشہور اقتباس ’ہم خوش نہیں ہیں‘ شاید ان کے ہونٹوں سے کبھی ادا نہ ہوا ہو تاہم یہ جملہ ملکہ کے اس دور کی عکاسی کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔
ملکہ جہاں عوامی طور پر مضبوط اور ناقابل تسخیر شخصیت کے طور پر پہچان رکھتی تھیں وہیں ان کی ذاتی ڈائری ان کے ایک جذباتی پہلو کو ظاہر کرتی ہے۔
اپنے اوپر ہونے والے ایک حملے کو یاد کرتے ہوئے ملکہ نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ’مجھے وہ سب ایک خوفناک خواب جیسا لگتا تھا۔‘
جیسے ہی اس قاتلانہ حملے کا واقعہ سامنے آیا، خوف اور الجھن نے ان کے اندر ایک غصے کو جنم دیا، جسے انھوں نے اب تک کی گئی سب سے شرمناک اور بزدلانہ حرکت کے طور پر بیان کیا تھا۔
اس حملے نے صرف ملکہ وکٹوریہ کو ہی جذباتی طور پر متاثر نہیں کیا تھا بلکہ پرنس البرٹ بھی اس واقعے پر صدمے میں آ گئے تھے۔ اس وقت کے ہوم سکریٹری سر جارج گرے جب واقعے کے بعد بکنگھم پیلس پہنچے تو ان کے چہرے سے پریشانی عیاں تھیں اور آنکھیں پرنم تھیں۔
حملے کے کئی گھنٹے بعد تک ملکہ وکٹوریہ حیران و پریشان رہیں جبکہ ان سے کچھ کھایا بھی نہیں جا رہا تھا تاہم اس سب کے باوجود انھوں نے اپنے اندر کی پریشانی ظاہر نہ ہونے دی اور انھوں نے اوپیرا کا رخ کیا جہاں ہجوم خوشی کے اظہار کے طور پر اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھال کر ان کی سلامتی کے لیے نغمے گا رہا تھا، جس کے الفاظ تھے ’خدا ملکہ کو محفوظ رکھے۔‘
ملکہ پر حملوں نے برطانیہ کے ان افراد کے جذبات کو بھی جھنجوڑ دیا جو پہلے ان کے لیے بہت پرجوش نہیں تھے اور پھر ملکہ وکٹوریہ نے خود ازراہ مذاق کہا کہ ’حملے سے یہ تو پتا چلا کہ سب کتنا پیار کرتے ہیں۔‘
حملوں کے ڈر سے پیچھے نہ ہٹنے کا ان کا عزم جوانی کے دور سے ہی ان کا خاصہ رہا تھا۔
1842 میں جان فرانسس نامی ایک نوجوان نے کانسٹیٹیوشن ہل پر ان پر پستول تان لیا تھا جب وہ اپنی گاڑی میں وہاں گئیں۔ پرنس البرٹ نے حملہ آور کو دیکھ لیا، فرانسس گولی نہیں چلا سکا اور بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس واقعہ کے فوری بعد جب پولیس فورس اس حملہ آور کے تعاقب میں تھی، ممکنہ قاتل کی موجودگی کے خطرے کے پیش نظر اس وقت کے وزیر اعظم رابرٹ پیل نے ملکہ کو باہر نہ نکلنے کی تاکید کی تاہم ملکہ نے انکار کر دیا۔
اگلی رات، وہ اور البرٹ اپنی اس گاڑی میں باہر نکلے جس کی چھت اوپر سے کھلی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ گارڈز بھی تھے۔
فرانسس نے ملکہ پر حملے کی ایک اور کوشش کی اور پولیس اہلکار کی جانب سے گرفتاری سے چند لمحے قبل شاہی جوڑے پر اپنے پستول سے فائر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
خوش قسمتی سے اس حملے میں ملکہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا مگر اس حملے کا انجام خوفناک ہو سکتا تھا۔
فرانسس کے حملے کے بعد ملکہ نے فوری طور پر اپنے شاہی فرائض دوبارہ انجام دینا شروع کر دیے اور بظاہر بغیر کسی ڈر و خوف کے عوام کے سامنے آنا جاری رکھا۔
یہ ملکہ کی ہمت اور بہادری کا عوامی مظاہرہ تھا جس کی پریس نے دل کھول کر تعریف کی۔
دی ٹائمز اخبار کی ایک نظم نے انھیں ’شیر دل حکمران ‘ کے طور پر بیان کیا اور انھیں جرات کے اعتبار سے بادشاہ بھی قرار دیا۔
ملکہ وکٹوریہ کے لیے اپنی ہمت اور چٹان جیسے حوصلے کو رعایا میں پیش کرنا اہم تھا۔ ان کے دور کے کچھ شہریوں کا خیال یہ بھی تھا کہ خواتین میں حکومت کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی خیالات کے حامل ان پر قاتلانہ حملے کرنے میں ملوث افراد بھی تھے جو خاتون کی حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ملکہ کے لیے اس طرح کے تکلیف دہ تجربات پر قابو پانا چیلینج بھی رہا۔
1840 کی دہائی میں چار مختلف حملہ آور ملکہ وکٹوریہ کو گولی مارنے کے حملوں میں ملوث رہے۔ 1850 میں جب رابرٹ پیٹ نے ان پر حملہ کیا، تب تک وہ ہجوم کے درمیان بے چینی محسوس کرنے لگی تھیں اور ان کی بے اطمینانی کی وجہ پرتشدد حملوں کا مسلسل نشانہ بنائے جانا تھا۔
اپنی ڈائری میں ملکہ وکٹوریہ نے اعتراف کیا کہ جب بھی عوام کا ہجوم ان کی گاڑی کے قریب ہوتا، انھیں یہ ہمیشہ اپنے خلاف کسی سازش کی کوشش کے امکان کے بارے میں معمول سے زیادہ سوچنے پر مجبور کرتا۔
تاہم ان سب کے آخر میں انھیں سب سے زیادہ تباہ کن جذباتی ضرب قاتلوں کی طرف سے نہیں ملی بلکہ ان کی موت کی وجہ ان افراد کی موت بنی، جن سے ملکہ بے انتہا پیار کرتی تھیں۔
رابرٹ پیٹ کی جانب سے قاتلانہ حملے کے چند دن بعد ملکہ کے کٹر اتحادی اور البرٹ کے دوست رابرٹ پیل اپنے گھوڑے سے گر کر موت کا شکار ہو گئے۔
دوسری جانب ملکہ وکٹوریہ کے چچا بھی جلد ہی وفات پا گئے۔ ملکہ وکٹوریہ اپنی ڈائریوں میں بارہا اس حیرت اور اداسی کے احساس کے غالب آ جانے کا اعتراف کرتی ہیں۔
یہ صدمات بہت بڑے تھے تاہم یقینی طور پر وہ اس وقت شدید دکھ سے گزریں جب 1861 میں البرٹ کی موت واقع ہو گئی۔
اگلی دہائی کے دوران، وہ عوامی زندگی سے کنارہ کش ہو گئیں اور ایک گہری افسردگی میں ڈوب گئیں تاہم بعد میں انھوں نے اس دور کو ’تکلیف دہ درد‘ کے طور پر بیان کیا، جب انھوں نے زندہ رہنے کی خواہش تک کو چھوڑ دیا۔
اس کے بعد ملکہ وکٹوریہ مزید 40 سال زندہ رہیں تاہم وہ کبھی مکمل صحت یاب نہیں ہو سکیں۔
آخر کار انھیں کسی نہ کسی طرح کبھی کبھارعوام کے سامنے آنے پر قائل کیا گیا اور اسی دوران انھیں دو بار پھر قتل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں تاہم اپنی جوانی کی طرح وہ کبھی بھی دوبارہ اس جوش و جذبے کے ساتھ عوام کے سامنے نہ آ سکیں۔
ان کی زندگی کے آخری دور میں ان کو دائمی درد اور جسمانی معذوری کا سامنا کرنا پڑا اور اس دوران ان کی افسردگی کا اندازہ ڈائری میں لکھی گئی ان کی تحریروں سے بخوبی ہوتا ہے۔
ملکہ وکٹوریہ اپنی زندگی میں سات بار قاتلانہ حملوں سے بچیں۔ انھوں نے نو بچوں کو جنم دیا۔ اپنے شوہر البرٹ کو کھونے کے بعد وہ بڑی حد تک گوشہ نشین ہو گئی تھیں۔
اگرچہ دولت اور اقتدار کی طاقت کے باعث ملکہ وکٹوریہ بہت سی ایسی مشکلات سے محفوظ رہیں، جس کا سامنا اس وقت کےعام افراد کو رہا تاہم ذاتی درد اور دکھوں کی شدت نے ان کو بے حال کیے رکھا۔
ملکہ وکٹوریہ کی بہادری اور خود پر قابو پانے کا عوامی مظاہرہ ان کی زندگی کا صرف صرف آدھا رخ بتا پاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں