’’ ڈاکٹر گلزار احمد وانی کی انشائیہ نگاری ،ایک مطالعہ 0

’’ ڈاکٹر گلزار احمد وانی کی انشائیہ نگاری ،ایک مطالعہ

زاہد ظفر
ریسریچ اسکالر ،وی،بی، یو جھارکھنڈ
990700711

انشائیہ ایک ایسی نثری کہانی ہے جس میں دوسری نثری اصناف کے ہلکے پھلکے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں ۔انشائیہ نے اپنے وجود کو ان ہلکے پھلکے رنگوں سے ایسا رنگا کہ اپنی ایک مکمل اور الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہا اور قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بھی وہ شایدد اس لیے کیونکہ اس میں ان چھویے پہلوں پر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مصنف اپنے نجی تجربے بھی بلا کسی جھول کے بیان کر سکتا ہے۔ دور حاضر میں اس صنف نے ترقی کی مختلف سیڑھیوں کو اپنے نرالے اسلوب سے پار کر کے ادبی دنیا میں جو مقام حاصل کیا وہ اس کا مستحق ہے۔
بقول ڈاکٹر آدم شیخ۔
” انشائیے ایک زمین رنگین ،مزاج، ترقی پسند اور روایت شکن فنکار کے جذبات و احساسات کا پرتو ہوتے ہیں۔ ایک انشائیے میں لکھنے والے کے اندر دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہوتا ہے جن کی راہ میں اس کے عہد کی سماجی مذہبی اور اخلاقی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ انشائیہ نگار مروجہ اور فرسودہ روایتوں سے معنویت اور مطابقت پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کے انفرادی نظریات اور ذہنی کشمکش اظہار کے ذریعے ڈھونڈتی ہے۔ ادیب اس اظہار کے لیے زبان اور تحریر کا سہارا لیتا ہے لیکن اصناف ادب میں بھی جو تحریریں انشائیہ نگار کے نئے اور معنی خیز خیالات کی حامل ہوتی ہیں اپنے مواد ہیت اور انداز بیان کی وجہ سے دوسری تحریروں سے منفرد ہوتی ہیں۔ یہی انشائیے ہیں”
انشائیہ/ ڈاکٹر آدم شیخ/ اشاعت.1965/ صفحہ نمبر,26
مرکزی علاقہ جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ کی آبیاری کرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہے۔ جنہیں باآسانی ہاتھوں کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ یہاں ناول, افسانہ اور غزل کے مقابلے میں انشائیہ اگرچہ اپنی پہچان بنانے میں بہت پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے بہترین قلم کاروں نے اس صنف کی کچی ڈور کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے. جن میں خاص کر پروفیسر محمد زمان آزردہ، منصور احمد میر، اختر محی الدین، برج پریمی، شمیم احمد شمیم اور نوجوان قلمکار ڈاکٹر گلزار احمد وانی قابل ذکر ہیں۔
بقول ڈاکٹر فیروز مجید۔
” ڈاکٹر گلزار احمد وانی وادی کشمیر کے ایک ایسے نوجوان قلمکار ہیں جو خاموشی اور سبق روی کے ساتھ اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گلزار صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ تنقید پر ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ،وہ شعر بھی کہتے ہیں، کبھی کبھی افسانے بھی لکھتے ہیں ، انشائیہ نگار بھی ہیں۔
دہلیز/ ڈاکٹر گلزار احمد وانی/ اشاعت,2021/ صفحہ نمبر12.
جہاں تک ڈاکٹر گلزار احمد وانی کے انشائیوں کی بات کی جائے تو ان کے ابھی تک دو انشائیوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں “وادی امکان” ان کا پہلا انشائیوں کا مجموعہ ہے جو 2010 میں چھپ کر منظر عام پر آ یا اور “دہلیز” ان کے انشائیوں کا دوسرا مجموعہ ہے جو 2021 میں شائع ہوا ۔ جس میں مصنف کے بائیس انشائیے شامل ہیں جن کے عنوانات حسب ذیل ہیں۔۔
غبارے ،آئینہ ،چہرہ ،تکیا ،صاعقہ ورعد کا عالم ، کرسی، تحلیل، ٹی وی انٹینا،بجلی کی آنکھ مچولی، ہماری اردو، کلینڈر ،امتحان، کہیں دور کہیں پاس، سویرے جو میری آنکھ کھلی، شام، روزن دیوار و در ، دہلیز، خواب ،نمک، سایہ ۔ رومال۔اور محرومی۔
ڈاکٹر گلزار احمد وانی اپنے انشائیوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔۔
” راقم نے جو یہ انشائیہ تخلیق کیے ہیں یہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں ان کے اندر کئی طرح کے موضوعات سمٹے ہوئے ہیں۔ ایک قاری بہت دیر تک ان سے الگ طریقے سے نہیں دیکھ سکتا ہے اور بہت دیر تک ان اجزاء اور عناصر کے بارے میں خود بھی غور و فکر اور ادراک میں جا سکتا ہے۔ میں بھی باقی انسانوں کی طرح سوچتا ہوں اور دیکھتا ہوں مگر جو ذوق اور تسکین کسی پہلو کو دیکھ کر اور اظہار کرنے میں آتا ہے شاید یہی خود انشائیہ بھی ہے”
دہلیز/ ڈاکٹر گلزار احمد وانی/ اشاعت,2021/ صفحہ نمبر 8.
گلزار احمد وانی نے اپنے انشائیوں میں سماج کے چھوٹے چھوٹے مگر بہت حساس اور نازک پہلوں کو سامنے لا کر انہیں اسلوبیاتی اعتبار سے جاندار بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں سماجی اصلاح اور طنز کی چاشنی زیادہ نظر آتی ہے انہوں نے اپنے انشائیوں کے بنیادی موضوع معاشرتی برائیوں اور سماجی ناہمواریوں کو بنایا جو قاری کے لئے ایک گہری سوچ اور فکر کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ان کے ہر ایک انشائیے میں گہرے تجربے اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کے بہت سارے انشائیوں میں ہلکے پھلکے موضوعات سے زندگی کے عام مسائل سامنے لائے گئے ہیں لیکن مصنف کی ادبی قابلیت ،فنی مہارت اور اسلوب نے ان ہلکے پھلکے موضوعات میں بھی ایک سنجیدہ رنگ بھر دیا ہے۔
ڈاکٹر منظر حسین, گلزار احمد وانی کے انشائیوں کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں..
گلزار احمد وانی کے انشائیوں میں انشاء کا عمل اپنی تنومندی کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔تخلیقی نثر کے جملہ محاسن کے عضویات اور میکانکی عمل کے نمونے کے ساتھ گلزار احمد وانی کے انشائیوں میں موجود ہیں۔ ان کے انشائیوں کا مطالعہ قاری کو ہجوم افکار ،ذہنی انتشار اور خیالات کی پراگندگی سے دور اور محفوظ رہنے میں مدد کرتا ہے۔ شوخی، شگفتگی اور برجستگی ان کے ہر انشائیے میں موجود ہے۔ مزاح کی چاشنی بھی ہے اور طنز کے تیر و نشتر بھی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ گلزار احمد وانی کے انشائیہ عصری زندگی کی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کا ادبی آپریشن ہے ”

دہلیز/ ڈاکٹر گلزار احمد وانی/ اشاعت,2021/ صفحہ نمبر10.
موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے مصنف کا ہر ایک انشائیہ قاری کو بہت حد تک متاثر کرتا نظر آرہا ہے. ان کے انشائیوں میں بڑے خوبصورت اور خوشگوار انداز میں موجودہ دور کی ہر ایک برائی کو ہدف بنایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ میں مصنف نے اپنی نجی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو ان انشائیوں میں ایسے ڈھالا ہے جو ان کے فن کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے اپنے انشائیوں میں اپنے اردگرد کی ان چیزوں کو موضوع بنایا ہے جو ایک عام انسان کے لیے موضوع بحث نہیں ہیں لیکن مصنف نے ان معمولی اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے عام انسان تک ایک خوبصورت پیغام پہنچانے کی کوشش کی اور اپنے خیالات اور جذبات کی ایسی پیوندکاری کی ہے کہ عام لوگوں کے سامنے ان ہی چھوٹی چھوٹی اور معمولی چیزوں کے مختلف نقشہ بننے لگتے ہیں ۔جو ان کے لئے ایک سوال کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے انشائیوں میں ان کا ایک بہترین انشائیہ
“غبارے”ہے۔ جس میں انہوں نے سماج کے ایک پیچیدہ مسئلے کو موضوع بنایا ہے. جس طرح چھوٹے بچے غباروں میں ہوا بھر کر انہیں پھوڑ دیتے ہیں ان بچوں کے لیے شاید یہ ایک کھیل ہے لیکن ڈاکٹر گلزار احمد وانی نے اسی کھیل کو سماج کے اس طبقے کے ساتھ جوڑا ہے جو سرکاری دفاتر میں رشوت خوری کے حرام لقمے سے اپنے پیٹ کو
دن بہ دن غبارے کی طرح پھلاتے چلے جارہیے ہیں۔ حالانکہ اس غبارے کو پھوڑنے کی بہت کوششیں ہورہی ہیں لیکن یہ بچوں کے غبارے کی طرح کمزور نہیں کی جو تھوڑی سی زیادہ ہوا بھرنے سے پھٹ جائے بلکہ یہ دن بہ د ن پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ انشائیہ غبارے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔۔
” ہمارے ان دفتری غبارے بازوں میں ہوا بھر کر انہیں پھلانے سے فرصت تو ملے۔اب ان کا غبارے پھوڑے بھی تو کون بچوں کا غبارہ پھاڑنا یوں تو آسان ہے اور ماں باپ کی تعریفوں کا قصیدہ بطور مدح حاصل ہو ہی جاتا ہے مگر دفتری بابووں کے غبارے تک ہاتھ کیسے پہنچے کیونکہ ہر کرسی پر غبارے باز ہی بیٹھا ہوا نظر آ سکتا ہے”
ان کے بیشتر انشائیے انسان کے وجود کو ماضی حال اورمستقبل کی یادوں سے جوڑتے نظر آتے ہیں ۔ان انشائیوں کے مطالعے کے دوران قاری یادوں کی پگڈنڈیوں پر ہلکی سی مسکان لیے بڑی دلچسپی سے انشائیوں کا مطالعہ کرتا ہے. اس طرح کے انشائیوں میں ان کا ایک انشائیہ ٹی وی انٹینا ہے ہالانکہ موجودہ دور میں ٹی وی انٹینا جیسی چیز کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی لیکن ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب یہ ہر ایک گھر کی چھت پہ شان سے کھڑا رہتا تھا اور اس بات کی ثبوت دیتا تھا کہ اس گھر کے لوگ ٹی، وی جیسی اہم اور قیمتی چیز کا استعمال کرتے ہیں.۔اس انشائیہ کے مطالعے کے دوران ہر کسی کو اپنا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب گھر کی چھت پے چھڑھ کر اس انٹینا کو گھماتے ہوئے آوازیں لگایا کرتا تھا اور گھنٹوں اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کب انٹینا سہی جگہ پر لگ جائے اور اور ٹی وی پہ دھندلی تصویر صاف نظر آئے۔۔
انشائیہ سے ایک اقتباس ۔۔۔
’’انٹینا بھی اسی طرح کام کرتا ہے جب اس کی اپنی مرضی ہو ،وہ بھلا ہماری مرضی کا غلام نہیں ہوتا ہے۔ پر ان حالات میں انٹینا کی بھی کیا خطا ،کھبی اس پر چیل آبیٹھا کرتی ،کھبی کوا پنجوں میں کسی کھانے کی چیز کو دبا لیتا اور نیچے ہمارے ارمانوں کا خون ہو جاتا تھا‘‘۔
ڈاکٹر گلزار احمد وانی کے بہترین انشائیوں میں ایک انشائیہ خواب بھی ہے اس انشائیہ میں مصنف نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ دور میں خوابوں کا پوار ہوناانسان کامقدر طے نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے پہچان اور پیسہ کام کرتا ہے اگر پہچان اور پیسہ ہے تو اس دور میں ہر وہ خواب پورا ہوسکتا ہے جو کھبی مقدر کا کھیل سمجھا جاتا تھا ۔
انشائیہ خواب سے اقتباس۔۔۔
’’لوگوں کے یہاں خواب زندگی کی منزل ہوتی ہے اور وہ اس منزل کو سو جتن کر کے حاصل کر ہی لیتے ہیں چاہے ان کے خوابوں کی قیمت کتنی بھی ہو وہ اپنے خواب بلاشبہ خوابوں کی دکان سے ہی رشوت کے عوض خرید لیتے ہیں اور جن کی آنکھوں میں وہ خواب سجے ہوئے تھے ان پر حق تلفی کی ریت ڈال کر ان کی تمناؤں کا سودا کر لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جس کو ڈاکٹر بننا چاہیے چائے کی دکان پر چائے بیچتے ہوئے آپ کو نظر آ سکتا ہے اور جو معمولی صلاحیت والے لوگ ہیں وہ مناسب جلیلہ پر فائز ہوا کرتے ہیں نتیجہ یہی کہ خوابوں کے خریدار کسی بھی قیمت پر اپنے خوابوں کی خرید لیتے ہیں وہ بھی مہنگے داموں کے عوض‘‘
انشائیہ کے اس اقتباس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ موجودہ دور میں ہر کام قابلیت اور ایمانداری سے نہیں بلکہ دولت اور رسوق سے چلتا ہے اور انسان ہر اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے جس کے وہ قابل نہیں .حقدار بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔
مصنف کے چند ایک انشائیہ انشائیہ نگاری کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں خاص کر انشائیہ نمک جس سے پڑھ کر قاری کو انشائیہ کی چاشنی اور طنز و مزاح کا مزہ نہیں بلکہ ایک مضمون کا تاثر ہوتا ہے حالانکہ انشائیہ کے شروع میں مصنف نے کوشش کی ہے اسے فن انشائیہ میں ڈھالا جائے لیکن آخر میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں کیونکہ مصنف ان انشائیوں میںموضوع سے ہٹ کر پیش کی چیزوں کی اہمیت اور خصوصیت پر زور ویتا ہے۔
اس مضمون میں گلزار احمد کے سارے انشائیوں پر بات کرنا ممکن نہیں لیکن ان کی انشائیہ نگاری کو سمجھنے کے کیے ان کے ایک ہی انشائیہ کا مطالعہ کافی ہے۔مستقبل میں ڈاکٹر گلزار احمد وانی سے جموں و کشمیر کی ادبی دنیا کو بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ انشائیہ جیسی خوبصورت صنف کی آبیار ی کرتے رہیں گے۔اور نئے قلم کاروں کی آبیاری میں ان کے ادبی کارنامے معاون ثابت ہوں گے۔۔۔
�

����
زاہد ظفر
ریسریچ اسکالر ،وی،بی، یو جھارکھنڈ
990700711

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں