انڈیا میں افریقہ سے لائے گئے چیتے کیوں مر رہے ہیں؟ 0

انڈیا میں افریقہ سے لائے گئے چیتے کیوں مر رہے ہیں؟

انڈیا میں معدوم جانور چیتے کو بڑے دھوم دھام سے دوبارہ متعارف کرایا گیا لیکن محض چند مہینوں میں ان میں سے آٹھ کی موت نے اس منصوبے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ملک میں چیتوں کو 1952 میں معدوم قرار دیا گیا تھا۔ لیکن ان کی نسل کو دوبارہ آباد کرنے کے ایک پُرجوش منصوبے کے تحت گذشتہ سال وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے کونو نیشنل پارک میں دوبارہ متعارف کرایا گیا۔
جمعے کو ’سورج‘ نامی ایک چیتے کی موت پر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس کی وجہ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی پارک میں محظ تین روز پہلے ہی (منگل کو) ایک اور چیتے کی موت ہوئی تھی جس پر پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ وائلڈ لائف جے ایس چوہان نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ موت کا شکار ہونے والے چیتے کا نام تیجس تھا ’جس کی عمر تقریباً چار سال تھی اور کونو نیشنل پارک میں مشتبہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔‘
انھوں نے بتایا کہ واقعے کے وقت چیتا ایک اینکلوژر میں تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں نمیبیا سے آٹھ چیتوں کو انڈیا منتقل کیا گیا تھا اور فروری 2023 میں جنوبی افریقہ سے مزید 12 کو یہاں لایا گیا تھا۔
ان میں سے چار چیتے گذشتہ دو ماہ میں مر چکے ہیں۔ مزید تین بچے، جو مارچ میں کونو پارک میں ایک نمیبیائی چیتے کے ہاں پیدا ہوئے تھے، وہ بھی مئی میں مر گئے۔
پارک کی انتظامیہ نے اس وقت کہا تھا کہ بچے کمزور، کم وزن اور پانی کی انتہائی کمی کا شکار ہو گئے تھے۔
بالغ چیتوں کی اموات مختلف وجوہات سے ہوئیں، جن میں گردے کی خرابی، جنسی عمل کے دوران آئی چوٹیں اور پارک میں جگہ کی کمی شامل ہیں۔
ایک مختصر عرصے میں ان چیتوں کی اموات نے ایسے منصوبوں کی عملداری پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
جنگلی جانوروں کے تحفظ پر کام کرنے والے کارکنان نے اس پارک کی چیتوں کے لیے مناسب مقدار میں شکار مہیا کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھایا ہے۔
ناقدین یہ بھی تشویش ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرے شکاری جانور ان چیتوں کے لیے خطرناک ہیں۔
معروف نیوز ویب سائٹ سکرول کے لیے جنگلی حیات کے تحفظ جیسے موضوعات کی ماہر ویشنوی راٹھور کا کہنا ہے کہ چیتوں کی موت کی متعدد وجوہات ہیں۔
گردے کی بیماری سے مرنے والے چیتا کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’اسے گردے کی بیماری نمیبیا سے تھی۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کی اگر انڈیا جانتا تھا کی چیتا بیمار ہے تو ہم نے اس کو (نمیبیا سے انڈیا) اتنا دباؤ بھرا سفر کیوں کروایا۔‘
ان ہلاک چیتوں میں دکشا نامی چیتا ’میٹنگ‘ کے دوران ہوئے زخموں سے مری۔ اگرچہ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ ’میٹنگ‘ کے عمل کے دوران چوٹیں آنا عام ہیں، یہ مسئلہ اس لیے پیچیدہ ہو گیا ہے کیونکہ اس کی موت دو نر چیتوں کے ساتھ ایک بند اینکلوژر میں ہوئی تھی۔
راٹھور کہتی ہیں ’ہو سکتہ ہے دکشا اپنے ’ہیٹ پیریئڈ‘ میں نہ ہوں، شاید اس عمل میں حصہ نہیں لینا چاہ رہی ہوں۔ اور اگر انھیں خود کو بچانے کے لیے بند اینکلوژر سے بھاگنے کی ضرورت بھی پڑی ہو تب بھی وہ باہر نہیں بھاگ پائی ہوں۔‘
حالانکہ چیتوں کو انڈیا میں دوبارہ متعارف کروانے کے لیے گذشتہ سال جنوری میں شائع ایک ایکشن پلان میں کہا گیا کہ کونو میں اس جانور کے لیے مناسب جگہ اور شکار ہے۔
یہ پلان پانچ سالوں میں انڈیا کے نیشنل پارکوں میں 50 چیتوں کو دوبارہ متعارف کرانے کے منصوبے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
لیکن جانوروں کے کچھ تحفظ پسندوں نے کونو میں اتنے چیتوں کے لیے رہائش گاہ کے مناسب ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔ اور یہ چیتوں کے دوسرے جانوروں سے رابطے کے دوران نظر آتا ہے۔
راٹھور کہتی ہیں کہ ’یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کی یہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ کچھ کونو پارک کی باؤنڈری کے باہر جا رہے ہیں، جنھیں محکمہ جنگلات کو کئی دنوں تک ٹریک کر کے واپس لانا پڑتا ہے۔‘
ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کونو ایکشن پلان 100 مربع کلومیٹر میں تین چیتوں کو رکھنے کی سفارش کرتا ہے جو کہ ان کے لیے ناکافی ہے۔
اس منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے پہلے بھی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ایکشن پلان میں کہا گیا تھا کہ اگر منصوبے کے پہلے سال میں شرح اموات 50 فیصد ہے تو اسے کامیاب تصور کیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش کے وزیر جنگلات ڈاکٹر کنور وجے شاہ نے ان اموات کو ایک قدرتی واقعہ بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’غیر ملکی سمیت ماہرین کی ایک ٹیم ہر ایک چیتے کی نگرانی کر رہی ہے۔‘
ان اموات پر اپوزیشن پارٹی کانگریس کی طرف سے بھی تنقید کی گئی ہے۔ حالیہ موت پر ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کہنا تھا کہ یہ ’ہر شعبے میں بدانتظامی‘ کی مثال ہے۔
مئی میں سپریم کورٹ نے معدومیت کا شکار جانوروں کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ چیتوں کو کسی متبادل جگہ پر منتقل کرنے پر غور کیا جائے۔
واضح کر دیں کہ انڈیا میں چیتوں کو دوبارہ متعارف کرانے کا آغاز وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال 17 ستمبر کو اپنی 78 ویں سالگرہ کے موقع پر کیا تھا۔
ان چیتوں کو لکڑی کے کریٹوں میں لایا گیا تھا اور انھیں انڈین شکار اور جنگل کے حالات کے مطابق تیار کرنے کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیے گئے اینکلوژر میں چھوڑا گیا تھا۔
ن چیتوں کو ٹریک کرنے کے لیے ریڈیو کالر لگائے گئے تھے تاکہ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔
انڈیا میں چیتے کی بڑی علامتی قدر ہے اور یہ لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ واحد بڑا ممالیہ جانور ہے جو 1947 میں آزادی کے بعد سے سکڑتی رہائش اور شکار کی کمی کی وجہ سے معدوم ہو گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں