ایک اور سفر تمام ہوا 0

ایک اور سفر تمام ہوا

طیبہ تبسم

ستمبر 2021 میں اپنی بی ایس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد میرا ارادہ یہی تھا کہ کوئی اچھی جاب کروں گی اور اپنے سارے خواب پورے کروں گی۔آگے پڑھنے کا نہیں سوچا تھا۔کیوں کہ ایک انسان بہت سارے خواب دیکھتا ہے اور ان کو پورا بھی کرنا چاہتا ہے کچھ بچے سمجھدار اور کچھ سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ حساس بھی ہوتے ہیں ان کی زندگی خود سے شروع ہو کر خود پر ختم نہیں ہوتی وہ اپنے خاندان کے ہر بڑے چھوٹے فرد کے بارے میں سوچتے ہیں۔میں بھی شاید انہیں لڑکیوں میں سے انہی بچوں میں سے ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے اکثر کہا جاتا ہے تم بیٹی ہی کمال کی ہو تمھیں واقعی ضرورت نہیں یہ کہنے کی کہ کاش تم اپنے والدین کا بیٹا ہوتی۔مگر مجھے پھر بھی لگتا ہے میرے والدین مجھ سے بہت اچھی اولاد ڈیزرو کرتے ہیں مجھ میں بہت خامیاں ہیں۔ کیوں کہ والدین کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور ان کے احساس اور جذبے کی قدر صرف حساس اور سمجھدار بچے ہی سمجھ سکتے ہیں۔میں بھی یہی سوچتی تھی کہ اب نہیں پڑھنا بس جتنا پڑھ لیا بہت ہے اب صرف خود پر محنت کرنی ہے۔مگر باپ کے ہوتے ہوئے تو زندگی ویسے ہی حسین ہوتی ہے۔بابا کی خواہش پر میں نے ایم فل میں داخلہ لے لیا اور ساتھ بی ایڈ کا ارادہ بھی کیا۔یہ فیصلہ اس وقت تو بہت آسان تھا مگر جب کرنا چاہا تو پھر سفر نے بہت تھکا دیا۔ہر رات کے اندھیرے اور دن کی تیز چھبتی روشنی نے مجھے میری زندگی کی تمام مشکلات سے لڑھنا سکھایا۔دن کی تھکی راتوں کو میں کیسے چھپ چھپ کر روتی تھی یہ قدرت جانتی ہے یا میری ذات۔منزلیں آسان نہیں ہوتیں۔جو سب سے زیادہ چیز میں نے محسوس کی وہ ساتھ تھا۔مجھے کسی کی سپورٹ نہیں تھی بعض دفعہ انسان کو صرف ایموشنلی سپورٹ چاہیے ہوتی ہے وہ اتنا ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ وہ کہیں دور چلا جائے۔مگر سمجھوتوں کا نام زندگی ہے۔یہ سفر جو تین سال تک جاری رہا۔اس سفر نے مجھے میرے اپنوں کے وہ رویے اور چہرے دکھائے جن سے شاید میں واقف ہی نہیں تھی۔دوستی،سے لے کر ہر رشتے نے مجھے ایسی ایسی ازمائش میں ڈالا کے میری روح بھی تھک گئ۔میں دنیا جینے والی لڑکی تھی۔بہت شوخ چنچل جس کی زندگی میں بچپنا ختم ہی نہیں ہوتا تھا مگر پھر میرے اعتبار کو خلوص کو میری محبت کو ایسی ٹھوکریں لگی کہ میں گرتی گئ اور پھر خود ہی سنبھلی۔میری فیملی کی میں شکر گزار ہوں انہوں نے بہت بہت کیا۔جتنا ایک آئیڈیل والدین کر سکتے ہیں انہوں نے اس سے بڑھ کر کیا۔اللہ ان کو اس کا اتنا اجر عطا کرے کہ وہ دنیا اور آخرت کی ساری آسائشیں دیکھیں۔
میری ذات بذات خود بہت کچھ برداشت کرتی رہی،میں نے دن رات بہت کچھ سہا اور اکیلے تنہا سہا۔ایک گاؤں کی لڑکی شہر جاتی ہے تو سر پر گٹھری باندھ کر لے جاتی ہے جس میں بہت سی زمہ داریاں،پگڑیاں،عزتیں،اور محبتیں محفوظ ہوتی ہیں۔غلطیاں تو ہر انسان سے ہوتی ہیں کوئی بھی فرشتہ نہیں مگر میں نے ہمیشہ خود کی ذات سے بڑھ کر دوسروں کا سوچا کبھی غلط کا نہ ذہن میں سوال پیدا کیا نا ہی اس کا جواب ڈھونڈا مگر میری قسمت نے مجھے ہر اس جگہ پر لے جا کر حقیقت دکھائی جہاں کا شاید سن کر مجھے رونا آتا تھا۔میں ان سالوں میں ایک واٹر پروف گھڑی کی طرح ہو چکی ہوں جو پانی میں ڈوب کر بھی رکتی نہیں ۔میں مشکلوں، غموں، مصیبتوں، ذمہ داریوں میں ڈوبی ہوئی بھی چلتی رہی،مجھے ہر وہ دن یاد ہے جس دن میرے پاؤں شل ہوتے تھے مگر میں چلتی تھی،ہاں میں نے ایک عام لڑکی سے زیادہ محنت کی ہے اپنی زندگی میں اتنی محنت کے جس کا اجر اللہ کی ذات نے مجھے دیا ہے اود انشااللہ بہت دے گا بھی۔ کیوں کہ رب کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں وہ قادر ہے وہ کن کہتا ہے فیکون ہو جاتا ہے۔مجھے خود کی ذات پر فخر ہے میں نے کبھی کسی کی ذات کے بارے غلط نہیں سوچا میں نے ہمیشہ خود سے بڑھ کر دوسروں کی فکر کی ہے میرا رب مجھے تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے وہ ایک دن بہترین عطا کرے گا جس سے میں بہت خوش ہو جاؤں گی۔آج ایم فل کا سفر ختم ہوا اور یہ سفر مجھے بہت کچھ سکھا کر گیا جس کی ایک لائن جو بہت خاص ہے۔
خود سے بڑھ کر کوئی بھی اپنا نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے ”ایک اور سفر تمام ہوا

  1. اس تحریر سے ایک سبق آموز احساس ملا کہ وقت کی تھکن سے بھی انسان کو نہیں تھکنا چاہیے خواہ راہیں کیسی بھی ہوں آپ کو چلتے رہنا چاہیے کامیابیاں آپکی ہی ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں