عید قرباں 0

عید قرباں

فرحان بارہ بنکوی
سورج اپنی شعائیں بکھیرنے کو بے تاب ہے، ہر کوئی عید گاہ کی جانب رواں دواں ہے، تکبیر تشریق کا غلغلہ اور ہر طرف بلند آواز سے اسی کا شور ہے۔ ہر زبان پر “اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد” کا ورد جاری ہے۔ عید گاہ کے راستے پر تل دھرنے بھر کی جگہ نظر نہیں آ رہی۔
عید گاہ میں ہجوم عاشقاں ہے، جو دیوانہ وار آتے چلے جا رہے ہیں۔ امام صاحب عید قرباں کے فضائل و مسائل بیان کر رہے ہیں۔ عوام محو تماشا بنی ہوئی ہے۔ نماز کا وقت ہو چلا ہے۔ پھر نماز کا طریقہ بیان کیے جانے کے بعد نماز (جماعت) کھڑی ہو چکی ہے۔ لوگ دزدیدہ اور حسرت بھری نگاہوں سے با شرع حضرات کو تاک رہے ہیں۔ پہلی ہی رکعت میں قبل سورۃ، بہ وقت زائد تکبیر، کوئی ہاتھ اٹھا کر بغلیں جھانک رہا ہے، کوئی اس کش مکش میں مبتلا ہے کہ ہاتھ باندھے یا ابھی ایسے ہی ہوا میں لہراتا رہے۔ بالآخر پہلی رکعت مکمل ہوئی۔ پھر دوسری رکعت میں زائد تکبیروں میں مغالطے کے بعد، کوئی تو ڈنڈے کی طرح سیدھا کھڑا ہوا ہے اور کوئی رُکوع میں ہے اور کوئی “مذبذبین بین ذالک” یعنی رُکوع اور قیام کے بیچ تذبذب میں پھنسا ہوا ہے، کہ ایا قیام ہی میں رہے یا رُکوع کرے۔ خیر! خدا خدا کرکے نماز پائے تکمیل کو پہونچی اور لوگ خراماں خراماں گھروں کو روانہ ہو گئے۔
یہ قصاب آ رہا ہے۔ بکرے کو اس کی آخری آرام گاہ بھیجنے کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ مفتی صاحب بکرے کی گردن پر چھری پھیرنے کے وقت نالاں نظر آئے؛ کیونکہ معمول کے بر خلاف چھری کند تھی۔ قصاب نے فوراً دھار لگا کر چھری مفتی صاحب کے ہاتھوں میں سونپ دی اور پھر انہوں نے دعا کے بعد بکرے کی گردن پر چھری پھیر دی اور خون کی پھہار پھوٹ پڑی۔ اہل خانہ رو رہے تھے؛ کیونکہ بکرے سے اُن کو دلی لگاؤ تھا اور یہی شریعت میں مطلوب بھی ہے کہ اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان کی جائے۔ قربانی ہونے بعد ہر طرف گوشت ہی گوشت نظر آ رہا ہے۔ کلیجی، گردہ، دل، پھیپھڑے، آلات وغیرہ صبح ناشتے کے لیے رکھ دیے گئے، دست، ران، سینہ، وغیرہ دوپہر کی بریانی کے لیے اور ما بقیہ شام وغیرہ کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ اور جو کسی لائق نہیں تھا وہ فقرا و مساکین کے لیے رکھ دیا گیا۔ ہر گلی، ہر کوچے، کیا شہر، کیا دیہات، ہر طرف گوشت ہی گوشت نظر آ رہا ہے۔ شہری، دیہاتی، خواندہ، نا خواندہ، امیر، غریب، ہر کوئی حصول گوشت کے لیے حیران و سرگرداں پھر رہا ہے۔
قربانی سے مقصود یہ تھا کہ رضائے الٰہی کی خاطر اپنی پسندیدہ اور محبوب ترین چیز راہ خدا میں قربان کی جائے۔ اپنی انا، خود غرضی، مفاد پرستی، بغض و حسد، کینہ، نفرت، حب جاه و مال وغیرہ پر چھری چلا کر محبت و بھائی چارے کے بیج اور امن و امان کے پودے بو کر اس دنیا کو خوش رنگ کر دے؛ لیکن قربانی کو وسیلہ گوشت بنا لیا گیا ہے اور آخر عوام طالب گوشت ہو بھی کیوں نا؟ جب کہ آج کل مسلمان ہونے کا دار و مدار ہی گوشت کھانے پر ہے۔
�������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں