عیدالاضحی کی فضیلت و اہمیت 0

عیدالاضحی کی فضیلت و اہمیت

ساحل ڈار
آثار شریف جناب صاحب صورہ

عیدالاضحی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دِن ہے، اس دِن کی دُعاؤں کی قبولیت کا عندیہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ روزِ عید ہم سب مل کر توبہ استغفار کریں۔ زبانی نہیں، عملی توبہ ۔ پروردگار کے حضور گڑگڑا کر دُعا کریں، اپنی کوتاہیوں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یاد رہے، دُنیا کی ابتدا ہی سے قربانی تمام مذاہب کا ایک لازمی حصّہ رہی ہے۔ یہ اللہ کے حضور جان کی نذر ہے، جو کسی جانور کو قائم مقام ٹھہرا کر پیش کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جانور کے گلے پر رسماً اور عادتاًچھری چلائی جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوہ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لئے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔
محبوبان الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت ترین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور قدم قدم پر جاں نثاری ، تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرناہوتا ہے۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے، اور وہی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ربّ کریم کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کئے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا، ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامت دین کے لئے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ ربّ العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اس قدر پسند آیا ، کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لئے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام ہر امتحان وآزمائش میں کامیاب وکامران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمت دین اور عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لئے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔
(سورة الانبیاء، آیت: 69)
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
ابھی یہ آزمائش کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا کہ آپ کی وہ آرزو اور دعا جس کا اظہار آپ نے اللہ تعالی سے ان الفاظ میں کیا:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ.
(الصافات، 37: 100)
’’(پھر اَرضِ مقدّس میں پہنچ کر دعا کی:) اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما‘‘۔
اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا۔ اسلامی تاریخ جن خواتین پر فخر کرتی ہے اور جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کی دلچسپ اور ولولہ انگیز تاریخ رقم کی ان میں حضرت ہاجرہؓ کا نام اہم ہے۔ جن کی زندگی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے بالعموم اور عورتوں کے لئے بالخصوص ایک پیغام اور سبق ہے۔ حضرت ہاجرہ ؓ حضرت ابراہیم ؑ کی وفاشعار اہلیہ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم ترین ماں تھی، ابنیاء کرام ؑکی فہرست میں یہ ایسا قابل رشک گھرانہ ہے جس کا ہر فرد جذبہ عشق و محبت سے سرشار اور تسلیم ورضا کا پیکر تھا، اللہ تعالی کی محبت اور فنائیت میں حضرت ابراہیم ؑ، حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ہاجرہ ؓ نے عجیب وغریب امتحانات دئے اور رہتی دنیا تک ایک مثالی خاندان ہونے کی یادگار چھوڑگئے۔ حج جیسی عظیم عبادت میں انجام دئے جانے والے بہت سے اعمال کا تعلق انہیں حضرات کی یادوں کو تازہ کرنا ہے اور بالخصوص صفا و مروہ کی بے تابانہ سعی تو حضرت ہاجرہؓ کی اداوں کی نقالی ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حضرت ہاجرہؓ کی یہ بےقراری نے شرفِ قبولیت حاصل کیا اور ہمیشہ کے لئے عبادت کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ حضرت ہاجرہؓ کی ایمان افروز کی زندگی سے یہاں ایک دو واقعے ذکر کئے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے جب حضرت ابراہیمؑ کو وفا شعار بیوی او ر شیر خوار بچہ حضرت اسماعیلؑ دو نوں کو لے جاکر ایک ایسی سر زمین پر چھوڑ آنے کا حکم دیا جو ابھی غیر آباد تھی اور چاروں طرف صحرا و جنگل کا سناٹاتھا، چرند و پرند کا کوئی پتہ نہیں اور انسانوں کی آمد ورفت کا کوئی گمان نہیں۔
یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا، سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔ حضرت ابراہیم ؑبے چوں چرا کچھ سامان ِ سفر لے کر ان دونوں کے ساتھ چل دئے، بڑھاپے کی تمناووں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب و نظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام، جس کو آپ صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب و گیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں، اس طرح کہ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم ربانی کی تعمیل میں لغزش ہو جائے ۔ سیدہ حاجرہؓ آپ کے پیچھے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ آپ ہمیں کس کے ذمہ پر چھوڑے جاتے ہیں؟ جواب ملا اللہ پر تو انہوں نے فرمایا: میں اللہ پر راضی ہوں۔ ٹھیک تب تو اللہ ہم کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ جب حضرت ابراہیم کی نگاہوں سے وہ دونوں اوجھل ہوگئے تو آپ نے رقت انگیز دعا فرمائی۔
(بخاری؛ حدیث نمبر: 3136)
رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ لا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْٓ اِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَ.
(ابراهیم، 14: 37)
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں‘‘۔
جب آپ اس آزمائش پر کھرے اترے۔ تو اللہ تعالی نے انعام کے طور پر اس بے آب و گیاہ آبادی میں زمزم کا چشمہ جاری کردیا اور قبیلہ جر ہم کو آباد کیا۔ یاد رہے کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لئے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی نہیں جھجکنا ہے، چاہے اس کے لئے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہو تو بھی پس و پیش سے کام نہ لیں جیسا کہ حضرت، ابراہیم ؑنے کیا تھا ان کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب تیسری آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے آپ اسے وحیِ الٰہی سمجھ کر فوراً اس کی تکمیل کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے بیٹے اسماعیلؑ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اللہ تعالی کے حکم کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیا۔ قرآن کریم نے اس کی منظرکشی یوں فرمائی۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.
’’پھر جب وہ (اسماعیل علیہ السلام) ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
(الصافات، 37: 102)
حضرت ابراہیم علیہ السلام تسلیم و رضا اور اطاعت ربانی کا پیکر بن کر تیار ہو گئے۔ چوں کہ اس امتحان وآزمائش میں بیٹا بھی شریک تھا اس لئے باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور اللہ تعالیٰ کا حکم سنایا اور اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ابا جان! جو حکم ملا ہے کر گزرئے، مجھے آپ صبر کرنے والا پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لئے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گا ورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لئے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
جب حضرت ابراہیمؑ اس عظیم قربانی کے لئے تیار ہو گئے اور آپ نے اسماعیلؑ کو پیشانی کے بل لیٹا دیا کہ چہرا دیکھ کر پدرانہ محبت ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور یہ صرف بات چیت کا قصہ نہیں، باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا ہے، آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، ہاتھ میں چھری ہے اور اکلوتے بیٹے کا بوڑھا باپ بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ذبح کر رہا ہے۔ مگر چھری بھی تو اسی ذات کے اختیار میں ہے جس کے اختیار میں آگ تھی۔ چھری سے ذبح کرنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے اور آسمان سے آواز آتی ہے:
اور قریب تھا کہ چھری اپنا کام کر جاتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ابراہیم تم اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو نکلے اور ایک مینڈھا آپ کی جگہ بطور فدیہ قربانی کے لئے جنت سے بھیج دیا۔ قرآن نے اس کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ۝ وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ۝ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۝ وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۝
(الصافات، 37: 103 تا 107)
’’پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا (اگلا منظر بیان نہیں فرمایا)۔ اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!۔ واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)۔ بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کردیا۔ ‘‘
غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے)اس کو(بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا
ابراہیم! بس اب امتحان پورا ہو چکا ہے۔ آپ کی قربانی کی یاد قیامت تک ہر سال زندہ کی جاتی رہے گی۔ آپ کے حقیقی پیروکار ہر سال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے موٹے تازے جانوروں کا خون اللہ کی رضا کے لئے بہاتے رہیں گے۔
یہ ہے ایک ہلکا سا منظر اس عظیم و جلیل پیغمبر کی عزیمت و استقامت کا جسے اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم رسولوں میں شمار کیا ہے اور خلیل اللہ جیسا پیارا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی تو نہیں فرمایا کہ
اور جب ابراہیمؑ کو اس نے بہت سی باتوں میں آزمایا تو وہ بھی پورا اترا۔ پھر رب نے کہا میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔
یہ انسانی قربانی اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے پہلی قربانی تھی کیونکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی ۔ کسی دیوی یا دیوتا کے نام پر نہ تھی ۔ باپ اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر نے کو تیار تھا ورنہ عموماً ا س کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ کہ قربان ہونے والا بذاتِ خود تیار تھا ، ورنہ اس سے پہلے قربانی کے لئے زبردستی پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ یہی وہ سنتِ ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحی کے موقع پرقربانی کرتے ہیں۔ سنتِ ابراہیمی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو اور اہم بات یہ کہ اس میں ریا کاری نہ ہو کوئی اگر اس وجہ سے عمدہ مہنگے جانور خریدتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے سراہا جائے تو اللہ تعالی کے پاس اس کا کوئی اجر نہ ہوگا ۔ بڑے سے بڑے عدد کو اگر صفر سے تقسیم کر دیا جائے تو حاصلِ ضرب صفر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں جان ومال، اولاد، وقت اور صلاحیتیں وغیرہ کی بھی قربانی شامل ہیں۔ جبکہ قربانی کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں