0

دیار ولی کا مستند شاعر ۔۔ رشید افروز

عظیم انصاری ،جگتدل
M- 9163194776
شاعری، فنِ تخلیق کی بہت سی دوسری شکلوں کی طرح جذبات ، احساسات اور تخیل آفرینی کی دلپذیر اور من موہک شکل ہے ۔ یہ علم ، مشاہدہ اور اقدار کو متشکل کرتی ہے ۔ شاعری کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ تخلیق کا عمل اگر گوشۂ تنہائی میں بھی انجام دیا جائے ( جو عموماً خلوت ہی میں انجام پذیر ہوتا ہے ) تو بھی شاعر سماج کے لئے اجنبی نہیں ہوتا ۔ شاعری کی علمی ‘ ادبی‌ اور روحانی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا کی ہر زبان کی روح شاعری ہی ہے ۔ اردو شاعری بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے۔ شاعری سے متعلق عام افراد کی رائے جداگانہ ہے ۔کوئی اسے اصلاح معاشرہ کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے تو کوئی اسے ذاتی اظہار کا وسیلہ سمجھتا ہے ۔ بعض افراد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تفریح اور وقت گزاری کے لیے ہے ۔ ان مختلف خیالات کے باوجود شاعری کی وہ طاقت جو جھنجھوڑنے ، خفتہ جذبات کو بیدار کرنے اور روح میں سرشاری پیدا کرنے کی ہے ، کی ناقابل تردید اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ یہ دنیا دو حصوں میں منقسم ہے کہیں یہ دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے تو کہیں رینگتی ہوئی لیکن شاعر کو اپنے محسوسات کی پیشکش میں زمانے کی چال کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ شاعری اسی قلندری کا نام ہے ۔ اس بوقلموں انسانی معاشرے میں شاعر بدلتے نظام میں خود کو ہم آہنگ کر لیتا ہے اور فنی اظہار میں معروضیت ، عمومیت اور دیرپا اثرات قائم کرنے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے وہ اپنے مخصوص رنگ اور آہنگ کو برقرار رکھنے میں یقیناً کامیاب ہوتا ہے اور اس کی فنکاری کا ایک زمانہ قائل ہوتا ہے ۔ ایسے ہی قبیل کے شاعروں میں ایک اہم نام رشید افروز کا بھی ہے جن کا تعلق گجرات سے ہے ۔
رشید افروز کی پیدائش یکم اکتوبر 1945 کو احمدآباد میں ہوئی ۔ عبدالمتین اور زینت بیگم کی آنکھوں کا یہ نور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ۔ اس نے آرٹس اور کامرس دونوں میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور اور LLB بھی مکمل کیا ۔ اس کے بعد سلسلۂ معاش کے لیے جدوجہد کی ۔ کبھی جنرل اسٹور میں کام کیا تو کبھی بطور مدرس ریاضی انجمن ہا ئی اسکول میں اپنی صلاحیت منوا ئی اور اخیر میں بنک آف بروڈہ میں کام کرتے ہوئے بحیثیت سینیر منیجر مارچ 2001 میں سبکدوش ہوا ۔
رشید افروز نے شاعری کی ابتدا 1962 میں کی ان کی پہلی غزل ماہنامہ شب خون الہ آباد میں شایع ہوئی جسے سبط نبی صمیم ( راولپنڈی پاکستان) نے بہترین شاعری کے سالانہ انتخاب میں شامل کیا ۔اتنے اچھے رسالے میں غزل کی اشاعت نے انھیں کافی متحرک کردیا اور ہندوپاک کے اہم رسائل میں ان کے کلام کی شمولیت ہونے لگی ۔ ان کی محنت رنگ لائی اور ان کا پہلا شعری مجموعہ ” نفی” اکتوبر 1980میں منظرِ عام پر آیا جس کی کافی پذیرائی ہوئی ۔ وارث علوی، عبید صدیقی اور گوپال متل جیسے مشاہیر نے ان کی کافی حوصلہ افزائی کی ۔
زیرِ نظر کتاب ” نصاب” ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ اس کی اشاعت مارچ 2021یں ہوئی ۔ دراصل انھوں نے 2020 کے کرونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنے تمام کلام کو یکجا کیا اور ” نصاب” کی صورت میں قارئین کے روبرو پیش کیا ۔ اس مجموعے میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی ۔ ان کی شاعری سے متعلق ڈاکٹر اختر شاہ کا کہنا ہے کہ” رشید افروز کی شاعری اپنے سیاسی ، سماجی و معاشرتی مخاصمانہ ماحول کے خلاف ردعمل ، اقدار اور انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ کی نوحہ زنی ہے ۔ وہ قطعی رومانی شاعر نہیں ہیں۔ ان کی شاعری عصری حقائق پر مبنی ہے ۔ ان کا ہر شعری تجربہ آپ بیتی نہ رہ کر جگ بیتی بن جاتا ہے جو ان کے کلام میں تازگی اور تنوع پیدا کردیتا ہے ۔”
” نصاب” میں کل 70نظمیں اور اتنی ہی غزلیں ہیں ۔ مجھے یہ کہنے میں میں کوئی عار نہیں کہ رشید افروز دونوں ہی صنف میں یکساں قدرت رکھتے ہیں ۔ اس مجموعے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رشید افروز نے اپنے تجربے اور مشاہدے کا بھرپور استعمال کیا ہے اور دونوں ہی صنف میں بے حد کامیاب شاعری کی ہے ۔ ان کی نظموں میں وہ تمام شعری و فکری لوازمات ہیں جو ایک کامیاب نظم گو شاعر کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ تخلیق، نفی، عرفان ، درگزر اور تو جو چاہے جیسی نظمیں تصورِ توحید اور ربوبیت کی عمدہ مثالیں ہیں ۔ یہ نظمیں یہ بتاتی ہیں کہ وہ ایک صالح کردار کے مالک ہیں ‌۔ قیدِ ہستی، فاصلہ، کچھ روز ابھی ہم زندہ ہیں ،خواہش کا زہر ، خوابوں کی امانت، شاہکار ، زندگی کے نام پر اور ” سحر ہونے تک” کچھ ایسی نظمیں ہیں جو ہمارے دل پر براہ راست اثر کرتی ہیں اور ہمارے دل کی گہرائیوں کو چھولیتی ہیں ۔ ان نظموں میں زندگی کے رموز و علائم کے ساتھ ساتھ رشید افروز کی فکری اڑان، داخلی بصیرت اور وجدان کے رنگ نمایاں ہیں ۔ ان نظموں کے علاوہ زنگ خوردہ سماعت ، خوابوں کی امانت، زوال کے بعد ، کرفیو آرڈر، پیش خیمہ اور ” آزمائش” کچھ ایسی نظمیں ہیں جن میں عصری آگہی اور انسانی اقدار کی جھلکیاں موجود ہیں ۔ ان نظموں کی قرات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رشید افروز ایک پختہ کار شاعر ہیں اور اس قبیل کی اور بھی نظمیں ہیں جو ان کے کامیاب شاعر ہونے کی عمدہ دلیلیں ہیں ‌۔ مذکورہ بالا نظموں کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ کسی تحریک یا ازم کے پیروکار نہیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے نئے تجربات کے چکر میں نہ پڑ کر اپنی فکر اور احساسات کو بس ہنرمندی سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کی رسائی عام قاری تک بھی ہوتی رہے ۔ وہ روایت کو برتتے ہوئے اپنے انفرادی اسلوب کو بھی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری کو وہ آہنگ اور فکری وجدان عطا کیا ہے جو ان کی شاعری کو اعتبار و وقار بخشتی ہے ۔ انھوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے کافی ریاضت کی ہے ۔ ” نصاب ” کے فلیپ پر رشید افروز نے خود لکھا ہے کہ” نفی کی نظموں اور غزلوں پر کئی بار نظرثانی کرچکا تھا جس کے سبب ان تخلیقات ، کو بھی نیا انداز ، نئی معنویت ملی ہے ۔ اس لحاظ سے ” نصاب” میں شامل منتخب کلام میرا شعری سرمایہ بن گیا ہے اور یہی میرا شعری حوالہ ہے ۔ اس کے علاوہ باقی کلام میں نے منسوخ کردیا ہے ۔ ”
رشید افروز کی نظمیں یوں تو نظریاتی تحریکوں سے بے نیاز مروجہ اسلوب میں ہیں لیکن ان کی فکری وجدان میں تجربے اور مشاہدے کے ساتھ احساس کی شدت بھی ہے اور خیال و جذبے کی ترسیل میں توازن بھی ۔ ان کی نظموں میں فرسودگی نظر نہیں آتی اور یہ بڑی بات ہے ۔
رشید افروز کی غزلیہ شاعری روایت کی پاسداری کے ساتھ فکری بالیدگی اور فنکاری کی عمدہ مثال ہے ۔ پیش رو شعراء سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راہ بنائی ہے ۔ اس انفرادیت کے سبب ان کا اسلوب الگ پہچان رکھتا ہے ۔ زبان و بیان بھی خوب ہے ۔ انھوں نے اپنے احساسات و جذبات کی عمدہ ترجمانی کی ہے ۔ ان کی غزلیہ شاعری کے یہ مختلف رنگ ملاحظہ فرمائیں
تھکن سے چور کیوں سارا بدن ہے
سفر کا خاتمہ ہونے کو ہے کیا
فیصلہ ہم نے کیا، سر نہ جھکائیں گے کبھی
ورنہ حالات نے مجبور کئی بار کیا
دشتِ أمید کی جھلسی ہوئی خاموشی میں
بس ترا نام مجھے حرفِ دعا لگتا ہے
شکستِ ذات کا جب بھی مجھے احساس ہوتا ہے
بہت کم ظرف ہوں، کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتا ہوں
تمام عمر یونہی ، خاک چھانتے گزری
یہ آرزو ہی رہی آسماں بناؤں گا
غزلیہ شاعری میں شعرائے کرام نے تشبیہ و استعارے کے استعمال سے اپنی شاعری کو زیادہ پر اثر اور پرمغز بنانے کی کوششیں کی ہیں جس کے سبب ان کی شاعری کا رنگ زیادہ نمایاں ہوا ہے ۔بقول معروف شاعر و ناقد ایم نصراللہ نصر
” استعارہ دراصل شاعری کی اہم خوبیوں میں سے ایک ہے ۔ اس سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جاذبیت بڑھتی ہے اور معنویت میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ استعارہ ایک مجاز ہے جس سے تشبیہ کا گمان ہوتا ہے – لیکن دراصل یہ حقیقت پر مجاز کا غلبہ ہے ۔ ”
( انتقاد و استبصار – ص -177)
رشید افروز کو یہ ادراک ہے کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے ۔ اس لیے انھوں نے بھی تشبیہ و استعارے کے سہارے اپنی شاعری کو زیادہ پروقار بنایا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں
یہ دن بھی کیا ہے کہ منظر دھواں دھواں نکلا
میں منظروں سے گزرتا ہوا کہاں نکلا
دشت میں سبزہ اگا، سر پر ردا قائم ہوئی
قریۂ جاں میں نئی آب و ہوا قائم ہوئی
ہر اک رت میں تقاضے بدلتے رہتے ہیں
کہیں سے دھوپ ،کہیں سے شجر بھی لے آنا
اداسی میں ڈوبا ہوا درد و غم
مری انگلیوں میں سلگتا رہا
احساسِ غمِ ذات نے چپی سی لگادی
جس وقت زمانے سے ملاقات ہوئی ہے
رشید افروز کی شاعری زندگی کے مشاہدات و تجربات سے عبارت ہے ۔ان کی شاعری میں اگر عصری آگہی کا نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے ، وہیں ان کی شاعری عرفانِ ذات سے بھی منور ہے ۔ ان کی شاعری کی برجستگی ہمیں سنجیدہ مطالعے کی دعوت دیتی ہے ۔ ان کی شاعری میں سہلِ ممتنع کی بھی عمدہ مثالیں ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں
ترازو میں کسی سے لفظ کب تولے گئے ہیں
جو تم نے کہہ دیا ، اس پر بھروسہ کرلیا ہے
بچھڑ کے تجھ سے ملی یہ نئی سزا مجھ کو
ترے فراق نے جینا سکھادیا مجھ کو
رنج کیا کرتے زمانے کی غلط باتوں کا
آپ کی بات کا افسوس مگر ہوتا ہے
اپنے سوا کوئی مجھے دشمن نہ مل سکا
میں کب تلک ہواؤں میں نیزے اچھالتا
جاکی ہوئی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
بس اتنی تمنا ہے ، ذرا دیر سلادے
غزلیہ شاعری میں میں لفظیات کی بڑی اہمیت ہے ۔ ہر شاعر اس کے سہارے اپنی تخلیق کو زیادہ پر اثر اور بامعنی بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ جن الفاظ کو اپنا وسیلۂ اظہار بناتا ہے اس کو وہ اپنے تخیل سے اس قدر ہم آہنگ کر لیتا ہے کہ شعری حسن میں چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ ایسی فنکاری بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتی ہے ۔ لفظیات کے ساتھ اگر مواد و خیال کی ہم آہنگی ہو تو شاعر بھی طمانیت قلب حاصل کرتا ہے اور قاری بھی ۔ یہ ہنر مندی بہت کم شاعروں کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ احساس و جذبات کی ترجمانی میں لفظیات کو ہنر مندی سے استعمال کرنا ایک اچھے شاعر کی پہچان ہوا کرتی ہے ۔ رشید افروز کی شاعری میں بھی یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے ملاحظہ فرمائیں
نہ جانے کیوں مجھے بچپن کے ساتھی یاد آتے ہیں
کہیں بنتا بگڑتا جب گھروندا دیکھ لیتا ہوں
ہم سا نہ دشت میں کوئی صحرا نورد تھا
سورج ڈھلا تو سر کو ہوا سائباں نصیب
وہ میرے قتل کے الزام سے بری نکلا
اور اپنی ساری خطائیں بھی دے گیا مجھ کو
ہر شخص نے خلوص سے دھوکا دیا مجھے
ہر آشنا نظر میں حسد کی جھلک ملی
تمام رات بہلتا رہا ہوں خوابوں سے
سحر ہوئی تو مجھے ڈس گیا مقدر دیکھ
مجموعی طور رشید افروز کی شاعری میں موضوعات کی گہرائی و گیرائی ہے ،وہیں تجربات و مشاہدات کی رنگارنگی بھی موجود ہے ۔ لہجے کی انفرادیت اور اسلوب کا بانکپن بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے ۔ وہ نظم اور غزل دونوں ہی صنف کے آداب سے واقف ہیں ۔ ان کی باریکیوں سے خاصی آگاہی رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں ایک مخصوص ترنگ ہے ، لہجے میں غضب کا اعتماد ہے ۔ ان کے کلام میں فصاحت و سلاست دونوں ہیں ۔ ان کے فکر و فن کی یہی خوبی انھیں اپنے ہم عصروں میں امتیازی درجہ عطا کرتا ہے ۔ امید قوی ہے کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ” نصاب” ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوگا اور بحیثیت شاعر ان کی پہچان مزید مستحکم ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں