افسانہ۔۔۔لاحاصل ندامت‎‎ 0

افسانہ۔۔۔لاحاصل ندامت‎‎

سبزار بٹ
ویل نور آباد

حسب معمول محمود شام کو آفس سے گھر آیا۔اور اسی بستر پر جاگرا جو کئی دنوں سے کسی نے اٹھایا نہیں تھا۔ راستے میں جو پیا تھا ابھی وہ نشہ اترا بھی نہ تھا کہ محمود نے ایک اور پیک بنایا۔اور پیتا رہا ۔محمود روز تو نشہ کر کے سوجاتا تھا لیکن آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔پتہ نہیں آج اسے روشنی کا خیال رہ رہ کر ستاتا تھا “مت کرو نشہ، فضول خرچی اور آوارہ گردیاں مت کرو۔ صحت بھی بگڑ جائے گی اور بچے بھی۔پھر نہ گھر کے رہو گے نہ گھاٹ کے۔ ” روشنی کی یہ کہی ہوئی باتیں آج بار بار یاد آرہی تھیں اور محمود بے چینی کی حالت میں کروٹیں بدلتا رہا۔
روشنی دراصل اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی جسے بڑے نازونعم سے اپنے ماں باپ نے پالا پوسا ۔اس کی اچھی تربیت کی اور اسے اچھی خاصی تعلیم بھی دلوائی۔ شام کا وقت تھا روشنی اپنے کمرے میں اینٹرنس کی تیاری میں مشغول تھی کہ ان کا ہمسایہ دینا کا کا اندر آیا اور روشنی کے باپ سے روشنی کے رشتے کی بات کرنے لگا۔روشنی کا باپ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دینا کا کا نے حقے کی نئے چھوڑتے ہوئے کہا ۔
ہاں مجھے پتہ ہے کہ تم یہی کہو گے کہ روشنی کی ابھی پڑھائی چل رہی ہے۔
تو ہم کونسا کسی جاہل اور ان پڑھ کا رشتہ لے کر آئے ہیں۔
انجینئر ہے انجینئر ۔مہینے کا ایک لاکھ روپئے کماتا ہے ۔عیش کرے گی روشن بیٹی عیش ایسے رشتے بار بار نہیں ملتے۔
دینا کاکا میں نے ہمیشہ تم پہ بھروسہ کیا ہے ۔
لیکن کیا تم سچ سچ اس لڑکے کو جانتے ہو؟ اس کا اخلاق، کردار،۔۔۔
ارے ہاں اس کے تو پورے علاقے میں چرچے ہیں۔
لو جی، روشن بٹیا بھی آگئی۔اس سے بھی پوچھو۔
روشنی بیٹی دینا کا کا تمہارے رشتے کی بات کرنے آئے ہیں ۔
ابا حضور میں نے بلا آپ کی کوئی بات آج تک ٹالی ہے۔جو آپ کا فیصلہ ہوگا مجھے تسلیم ہوگا۔
روشنی نے اپنے باپ اور دینا کاکا کے سامنے چائے رکھی اور یہ جملے کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔
رشتہ طے ہوا ،شادی ہوئی۔ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں روشنی کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا ۔کہ اس کی شادی اس شخص سے ہوئی ہے جو فقط پیسے کماتا ہے۔ جس کا دین سے دور دور تک کا بھی واستہ نہیں ہے۔ روشنی تو بچپن سے ہی باپردہ، دیندار اور صوم اصلواۃ کی پابند تھی۔ روشنی کو پہلے پہلے لگا کہ وہ اپنے شوہر کو دین کی طرف راغب کرے گی۔لیکن کہاں ۔محمود تو رشوت اور نشے کا اس قدر عادی ہوچکا تھا کہ اسے اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا وقت گزرتا گیا ۔روشنی اب دو بچوں کی ماں بھی بن چکی تھی اور بار بار اپنے شوہر سے کہتی تھی کہ یہ بےدینی، رشوت خوری اور نشے کی لت تمہیں ایک دن لے ڈوبے گی ۔ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔خدا کے لیے باز آو۔ان بچوں پر بھی برا اثر پڑے گا۔
لیکن محمود پر ان باتوں کو کوئی اثر نہیں پڑتا تھا ۔نشے کی لت نے اور اسے گلی کا آوارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی اگر بچوں کو کبھی کبھی ڈانتی تھی تو محمود آگ بگولا ہو جاتا تھا اور اپنی نیک سیرت اور کم زبان بیوی پر بہادری دکھانے لگ جاتا تھا۔
باپ کی لاپرواہی اور مکمل چھوٹ نے تو بیٹی اور بیٹے تو بدچلن اور آوارہ بنا دیا۔
بیٹی رات کے ایک ایک بجے گھر آتی تھی اور بیٹا تو ہفتے میں کبھی ایک بار اپنے درشن دیتا تھا۔
روشنی کا دم گھٹنے لگا اس گندے ماحول میں۔ شوہر کی زیادتیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور روشنی سارے ستم بڑی خاموشی سے سہہ لیتی تھی ۔کبھی قناعت پسندی پر طعنے سننے پڑھتے تھے تو کبھی پردہ کرنے پر ذلیل کیا جاتا تھا۔یہاں تک کہ اسے نماز بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرنے دیتا تھا۔ روشنی اپنے باپ کے لیے بوجھ اور شرمندگی کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی اس لیے وہ چب چاپ برداشت کرتی تھی اور اکثر نماز میں اپنے بچوں اور شوہر کے لیے ہدایت کی دعا کرتی تھی۔بات تب بگڑی جب روشنی کو پتہ چلا کہ محمود کے کسی اور عورت سے ناجائز تعلقات ہیں اور روشنی دھیرے دھیرے ذہنی دباؤ کا شکار ہوگ اور بالآخر وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
آج دو سال ہوگئے ۔بچے بھی پتہ نہیں کہاں چلے گئے ۔وہ بھی باپ کے بے جا لارڈ پیار سے عیاش اور بد چلن بن گئے محمود اکیلے کمرے میں پیک پر پیک پئے جارہا تھا۔ روشنی کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں ہلکا سا خمار چھانے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نیند اس پر نظر عنایت کرنے والی ہے کہ اچانک سے دروازے پر روشنی نمودار ہوئی اور محمود کی تنہائی پر مسکراتے ہوئے بولی۔ کیوں میرے سرتاج ۔وہی ہوانا جس کا ڈر تھا۔ کیا ملا ہمیں ۔تمہیں پتہ ہے تم کون ہو اور میں کون ہوں۔۔
ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔۔تم روشنی ہو اور م. ۔۔۔م۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔۔۔تم ایک آوارہ بیٹے کے باپ ہو اور میں ایک بدچلن بیٹی کی ماں ۔روشنی نے محمود کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
محمود نے اٹھنے کی کوشش کی کہ وہ روشنی سے کہے کہ وہ شرمندہ ہے۔لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکل سکا۔
اور ہاں یہ آپ کی میری آخری ملاقات ہوگی ۔میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تم سے دور بہت دور جا رہی ہوں ۔ یہ کہہ کر روشنی غائب ہو گی ۔
اتنے میں موذن نے اذان دی اور محمود نیند سے جاگ گیا۔اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔وہ پسینے سے شرابور تھا ۔دیکھا تو دروازے پر کنڈی لگی ہوئی تھی ۔کمرے میں ہر چیز بکھری پڑی تھی ۔اور سرہانے پر شراب کی خالی بوتل تھی۔
محمود کو بے قراری ہوئی ۔وہ اسی وقت جا کر روشنی سے ملنا چاہتا تھا۔اسے معافی مانگتا چاہتا تھا۔
جیسے تیسے کر کے سویرا ہونے تک ٹھہر گیا۔سویرا ہوتے ہی محمود سر جھکائے ہوئے روشنی کو لانے کے لیے نکل پڑا۔سڑک پر پہنچتے ہی اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔جب گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے اپنی بیٹی جبینہ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔،ادھر آؤ بیٹی یہاں تو سرپھرے گھوم رہے ہیں ۔جن کے اپنےبچے بدچلن اور آوارہ ہونگے وہ دوسرے کی بچوں کی قدر کہاں جانیں گے۔اور تو اور روشنی جیسی نیک سیرت اور باحیا عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسینے سے شرابور محمود بالآخر روشنی کے گھر پہنچ گیا۔روشنی بستر مرگ پر اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی اور اس کے سبھی احباب اس کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ محمود بڑی ندامت سے روشنی کے سرہانے بیٹھ گیا اور ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخے دیکھنے لگا۔اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی جب اس بات کا پتہ چلا کہ روشنی کینسر کے آخری سٹیج میں ہے اور اس کا دماغی توازن بھی بگڑ چکا ہے۔ محمود نے روشنی کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور پچھتاوے کے آنسو بہائے جارہا تھا کہ اچانک سے روشنی نے ہچکی لی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دائے اجل کو لبیک کہہ گئی۔ محمود بجھے ہوئے قدموں سے اپنے گھر ( جو کہ اب فقط نام کا گھر رہ چکا تھا) کی طرف روانہ ہوا۔اور روشنی بڑے دھوم دھام سے اپنے آخری منزل کی طرف ۔۔۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے روشنی کی موت کا دکھ ایسے منا رہے تھے جیسے سچ مچ ان کے آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہو۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں