انشائچہ :- ڈیڑھ سو کا قرض 0

انشائچہ :- ڈیڑھ سو کا قرض

ایس معشوق احمد
رابطہ :-8493981240

قرضہ چاہیے قلیل ہی ہو آدمی کو ذلیل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ایک گل ناز کے ہم مقروض ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ خوبصورت لڑکیوں کا دل لینا چاہیے نہ کہ ان سے قرضہ لیا جائے۔آدمی کبھی کبھار مقروض ہوہی جاتا ہے۔ہم بھی ایک خوبصورت نازنین کے قرضدار ایسے ہوئے جیسے کوئی کسی کی ایک جھلک دیکھ کر فدا ہوتا ہے اچانک اور بغیر کوئی لمحہ گنوائے۔ہوا یوں کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ہوئی کہ ایک سرکاری رسالہ گھر آنے والا ہے۔(واضح رہے کہ معتبر ذریعہ وہ نازنین خود ہے اور اسی نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی)۔کتاب گھر آئے تو ہم تحفہ سمجھ کر رکھ لیتے ہیں اگرچہ اس پر بھی واضح حروف میں قیمت درج ہوتی ہے لیکن کوئی سرکاری رسالہ گھر آئے تو تشویش ہوتی ہے اور ہمیں ایک عدد ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ہمیں مقروض ہونے کا موقع دے ۔صاحبو! اس دفعہ رسالہ گھر آنے کی خبر تو آئی لیکن ہمیں کسی شخص کی ضرورت نہ پڑی بلکہ ایک حسینہ گل اندام کا پیغام آیا کہ ہم نے آپ کے نام کا رسالہ جاری کردیا ہے ۔رسید ہم تک پہنچائی گئی جس پر دو زبانوں میں بڑے حروف میں ڈیڑھ سو روپیہ لکھا تھا۔ہم خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی بے چینی بھی محسوس ہوئی۔خوشی اس بات کی تھی کہ نیا رسالہ گھر آئے گا اور بے چین اس لیے تھے کہ ہمارا سر فقط ڈیڑھ سو کے قرضے سے جھک سا جائے گا۔ایک ڈیڑھ لاکھ ہوتا تو ہم اسے ہضم کرکے خوشی خوشی اپنے نام کے ساتھ بے ایمان لگانے کو تیار تھے لیکن فقط ڈیڑھ سو کے لیے ہم ہرگز ایماندار سے بے ایمان نہیں ہو سکتے۔
صاحبو! میں معشوق ہوں عاشق مزاج اور جی جان سے فدا ہونے والا۔کوئی حسینہ بات کرنا تو درکنار پیار سے میری طرف فقط دیکھ لے تو ۔۔۔۔
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
اور سیہ چشمگی قیامت کے بدلے ہم قیامت کے ہی منتظر ہوتے ہیں لیکن اس کا کیا کیجیے کہ کچھ نازک بدن ، من موہن ، چنچل سندریاں مجھ سے پیار کرنے کے بجائے مجھے قرضدار کرتی ہیں وہ بھی فقط ڈیڑھ سو سے ۔ اس نازنین کو شاید خبر نہیں کہ میں کتنا ایماندار اور بااصول ہوں۔ یہ قصہ ان سے پوچھ لیں جہنوں نے مجھے کبھی قرضہ دیا اور میں نے پھر کبھی ان کی شکل تک نہ دیکھی ۔اگر خدا نخواستہ کبھی حادثاتی طور ملاقات ہوگئی تو میں نے انہیں پہنچاننے سے صاف انکار کیا۔اس شوق حسینہ کا ڈیڑھ سو شدید طوفان میں پھنسے جہاز کی طرح ڈوبنے ہی والا ہے لیکن اسے چاہیے کہ امید کا دامن نہ چھوڑے کہ اس پر دنیا قائم ہے۔ ڈیڑھ سو کا قرضہ لے کر ضمیر نے جو دھتکارا وہ اپنی جگہ لیکن مرزا نے ہماری جو بے عزتی کی وہ الگ۔ کہنے لگے کہ لوگ لاکھوں کروڑوں کھا کر ایماندار رہتے ہیں اور تم ڈیڑھ سو کے لیے بے ایمان ہوگئے۔کھانا ہی تھا تو کروڑ نہ سہی لاکھوں ہی کھاتے۔صاحبو! ہم ڈیڑھ سو کا قرضہ لے کر شرمندہ ہیں اور کل سے اس گل ناز کا پتہ ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اس کا ڈیڑھ سو روپیہ اسے واپس کر سکے۔اگر آپ اس کا پتہ جانتے ہیں تو مجھ سے ضرور رابطہ کیجیے تاکہ میں مقروض سے با اختیار آدمی بن کر آپ کو دعائیں دوں۔
(نوٹ :- ڈیڑھ سو کا قرض دبستان کشمیر کا پہلا اردو انشائچہ ہے اور غالبا یہ اردو کا بھی پہلا انشائچہ ہے۔ ہوسکتا ہے کل مجھ سے سوال کیا جائے کہ جناب یہ انشائچہ کیا ہے ۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انشائچہ انشائیہ ہے جس کی بنیادی خصوصیت اختصار ہے۔جس طرح افسانے کے بطن سے افسانچے نے جنم لیا اسی طرح انشائیہ کی کوکھ سے انشائچہ وجود میں آیا۔ ا۔ م ۔احمد )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں