خواتین اور موجودہ سماجی روئے 80

خواتین اور موجودہ سماجی روئے

الطاف جمیل شاہ ۔۔۔کشمیر
معاشرہ

سماج ان دو لفظوں میں وہ لذت و اپنائیت پوشیدہ ہے کہ مت پوچھئے سماجی یا معاشرتی بگاڑ جب بھی پیدا ہوتا ہے تو پھر وہ اقوام جن کے ہاں سماجی و معاشرتی بگاڑ پیدا ہو زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے جب جب مطالعہ قرآن کیا، اور سابقہ اقوام کی تباہی و بربادی اور ان کے جہاں سے فنا ہونے کے بارے میں پڑھا تو، میں حیرت و استعجاب کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہوا۔ کہ جن گناہوں کی بدولت وہ دنیا سے ناپید ہوئی یا مبتلائے عذاب ہوئیں وہ سب گناہ تو اب رنگین ہوکر امت مسلمہ کے ہاں موجود ہیں کیا سبب ہے کہ عذاب آتا نہیں،
(یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عذاب کیوں نہیں آتا اس پر پھر کبھی بات کرتے ہیں ) سابقہ اقوام میں سے ایک قوم لواطت کے سبب ایک ناپ تول میں کمی زیادتی کے سبب ایک نابرابری اور خدائی دعوے دار ہونے کے سبب ایک قوم اعلانیہ نبی سے بغاوت کے سبب دنیا سے مٹ گی اس میں جو گناہ یکساں سب کے ہاں تھا وہ ہے سماجی نابرابری کا
جسے مٹانے کے لئے الہی تعلیمات پر ایک مبارک کلام اللہ تعالٰی نے نازل کیا جس میں سابقہ اقوام کی تباہی کے اسباب اور ان سے بچاؤ کے اصول و ضوابط بھی بیان کئے گئے اور اعلانیہ بتایا گیا کہ ان سے منہ مت پھیرے نہیں تو اللہ تعالٰی آپ کا حشر بھی ایسا کرے گا کہ نام و نشان نہ رہے گا خیر جس زمانے میں یہ مقدس کلام نازل ہوا اس زمانے میں سماجی اور معاشرتی اقدار تباہی کے آخری سرے پر پہنچ گئے تھے مثال کے طور پر اس سماج میں خواتین سے انتہائی درجے کا ظلم و ستم روا رکھا جاتا تھا کئی ایسی مذاہب بھی تھے جو اسے انسان بھی تصور نہیں کرتے تھے والد کا سر شرمندگی سے جھک جاتا جب اسے بیٹی کے پیدا ہونے کہ نوید سنائی جاتی تھی ان سب باتوں سے ہم واقف ہیں کہ یہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے بیوی سے چوپائیوں جیسا سلوک انسانی معاشرہ تھا پر صرف مردوں کے لئے، چلیں اسی بات کو لے کر آج بات کرتے ہیں کہ جب خواتین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اسی دم امام کائنات کا ظہور ہوا اور انسانی اقدار کے وہ اسباق پڑھاتے کہ رہتی دنیا تک گر خواتین ان کے احسان پر شکر کریں شاید حق ادائی نہ ہو۔
اب خواتین کو ماں بہن بیٹی شریک حیات کے وہ مناصب ملے کہ جہاں عزت و تکریم کا عنصر وفا و محبت عقیدت و احترام کا جذبہ پنپنا شروع ہوا جو لوگ قبل اسلام کے انہیں پاؤں کی جوتی سمجھتے تھے وہ اب انہیں ماں کی صورت میں جنت کی دہلیز بہن کی صورت میں پیکر وفا و محبت بیٹی کی صورت میں کلید جنت اور شریک حیات کی صورت میں محبت و خلوص کا پرتو وفا شعاری کا نمونہ اور جنت کی بہترین نعمتوں میں سے شمار کرنے لگئے، امی ہوں یا دودھ اماں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مراتب بیان کئے کبھی اپنی والدہ کی آخری آرام گاہ پر رک کر آنسو بہائے یہ بتانے کے لئے کہ ماں سے مبارک سایہ کہاں ہے جہاں میں تو کبھی بتایا اس کے قدموں میں جنت ہے ایسے کہ دائی حلیمہ ؓ کے قدموں میں اپنے شانوں سے چادر اتار کر رکھ کر یہ بتایا کہ ماؤں کی عظمت بہت بلند ہے جب شیماؓ دودھ شریک بہن کی آمد ہوئی تو انہیں تحائف دئے ان کی عزت و تکریم اس انداز سے کئی کہ صحابہ کرام انگشت بدنداں رہ گئے کہ ایسی مقدس و مبارک خاتون کون ہیں جن کے لئے نبی مہربان نے تمام قیدی رہا کر دئے اسے کھجوروں کے گھچھے تھما کر ان کے ساتھ اپنے حجرے سے نکلے اور انہیں بار بار آنے کے لئے التجائیں کیں پوچھنے والوں سے کہا یہ میری بہن ہیں دودھ شریک میں نے انہیں یہ سب تحائف دے کیوں کہ بہنیں بھائیوں کے گھر سے خالی ہاتھ جاتے ہوئے اچھی نہیں لگتی، بیٹیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے بارے فرمایا کہ جنت ملے گئی بیٹیاں جب تھکی ماندی آپ کی دہلیز پر آئیں تو انہیں محبت و شفقت سے اپنے پاس بٹھائے ان کی خبرگیری کریں سفر ہو یا حضر بیٹیوں کا خیال رکھیں گر ہم فاطمہؓ کے حالات کے بارے جان جائیں تو سمجھ آئے گا بیٹیاں کیا ہوتی ہیں ان کا مرتبہ کیا ہوتا ہے ان سے کیسا سلوک رکھا جانا لازم ہے اہل ایمان کے لیے،
اور شریک حیات کا مت پوچھے فرمایا کہ ان سے مسکرا کر ملنا بھی ثواب ہے ان کے منہ میں لقمہ کھانے کا دینا بھی اجر کا باعث ہے ان کے کام میں معاون بننا بھی ثواب ہی ہے وہ تھک جائیں تو ان سے پیار و محبت سے پیش آنا بھی عبادت ہے ،
یہ سلسلہ چلتا رہا امام کائناتﷺ نے سب کے حقوق بیان کئے اور اک ایسا انسانی معاشرہ تشکیل پایا جو حیوانیت و درندگی کی زد سے آزاد ہوکر اک مثالی اور پاکیزہ معاشرہ کہلایا خواتین کے حقوق جن کا غضب کرنا عین کار ثواب جانا جاتا تھا اسلام نے اس کا غضب کرنا حرام بتلایا یوں وہ رسم کہ جو گھوڑے کہ پیٹھ پر بیٹھ کر میدان جنگ میں جانے کا کام کرسکتے ہوں یعنی مرد وارثین میں صرف یہی ہیں خواتین نہیں تو اسلام نے سب سے پہلے اسی کی نکیر کی اور خواتین کا حصہ مقرر کر دیا۔۔
اب جب حصہ مقرر ہوا تو ہر صاحب نے اسے ادا کرنا لازم سمجھا یہ صرف کوئی ترغیب نہیں تھی بلکہ یہ تو مسلم معاشرے کے فرائض میں سے بیان کیا گیا ہے کہ خواتین کو ان کا حق دیا جائے،
حکم قرآنی سورہ النساء آیت ۷
ترجمہ:
والدین اور اقربا کے ترکے میں سے مردوں کے لیے بھی ایک حصہ ہے اور والدین اور اقربا کے ترکے میں سے عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ، حصہ مقرر کیا ہوا ہے، اس آیت کی تفسیر میں معروف تفسیر بنام روح القرآن کے مصنف تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں،
اسلام سے پہلے صرف جزیرہ عرب میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک ہمہ نوعی ظلم کی چادر تنی ہوئی تھی جس نے پوری نوع انسانی کو اپنے سائے میں لے رکھا تھا۔ کمزور آدمی، صنفِ نازک اور یتیم بچے بالخصوص ان مظالم کا شکار تھے۔ عرب میں تو یہ اصول مروج تھا کہ ہر شخص وراثت کا استحقاق نہیں رکھتا۔ وراثت کا مستحق صرف وہ شخص ہے جو گھوڑے پر سوار ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرکے ان سے مال غنیمت چھین سکتا ہو۔ بچے چونکہ اپنی چھوٹی عمر کے باعث شاہسواری کا فرض انجام نہیں دے سکتے تھے اس لیے وہ وراثت کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ عورتیں بھی اپنی صنفی کمزوری کے باعث یہ فرض انجام دینے سے قاصر تھیں اس لیے انھیں بھی کسی طرح وراثت میں حصہ دار نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ صرف جوان اور بالغ لڑکا وراثت کا حق رکھتا تھا۔ اسلام آجانے کے بعد بھی جب تک کہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوگئے مسلمانوں میں بھی اسی طریقے سے وراثت تقسیم ہوتی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک واقعہ پیش آیا کہ حضرت اوس بن ثابت شہید ہوگئے اور اپنے پیچھے دو لڑکیاں ایک لڑکا نابالغ اور ایک بیوی وارث چھوڑے۔ مگر عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان کے دو چچا زاد بھائیوں نے آکر مرحوم کے پورے مال پر قبضہ کرلیا اور اولاد اور بیوی میں سے کسی کو کچھ نہ دیاکیون کہ ان کے نزدیک عورت تو مطلقاً مستحقِ وراثت نہ سمجھی جاتی تھی۔ خواہ بالغ ہو یا نابالغ اس لیے بیوی اور دونوں لڑکیاں تو یوں محروم ہوگئیں اور لڑکا بوجہ نابالغ ہونے کے محروم کردیا گیا۔ لہٰذا پورے مال کے وارث دو چچا زاد بھائی ہوگئے۔ اوس بن ثابت ( رض) کی بیوہ نے یہ بھی چاہا کہ یہ چچا زاد بھائی جو پورے ترکے پر قابض ہوگئے ہیں ان دونوں لڑکیوں سے شادی کرلیں تو چلیے میری فکر ختم ہوجائے مگر انھوں نے اسے بھی ماننے سے انکار کردیا۔ تب اوس بن ثابت کی بیوہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی گزارش پیش کی اور شکائت کی کہ حضور ان بچیوں کے پاس چونکہ کوئی مال نہیں رہا تو ان سے شادی کون کرے گا ؟ چناچہ حضور نے وحی کے انتظار میں جواب دینے میں توقف کیا تب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں۔
اس آیت کریمہ میں غور کیجیے ! اس میں متعدد احکام دئیے گئے ہیں۔ سب سے پہلا جو حکم دیا گیا ہے اس میں صدیوں پرانا ظلم ختم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی میں عرض کرچکا ہوں کہ میراث میں صرف مردوں کا حصہ سمجھا جاتا تھا عورتوں یا نابالغ بچوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ سب سے پہلا یہ حکم دیا کہ جس طرح مردوں کو والدین یا اقربا کے ترکہ سے حصہ ملے گا اسی طرح عورتوں کو بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ سے حصہ ملے گا اور صدیوں پرانی رسم کو توڑنے کے لیے پوری وضاحت سے کام لیا۔
مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ایک ہی جملے میں حکم دیا جاسکتا تھا۔ لیکن مردوں کا حکم الگ ذکر فرمایا اور عورتوں کے حصے کا الگ حکم دیاتا کہ کسی طرح کا اشتباہ باقی نہ رہے۔
اَقْرَبُوْنَکالفظ کہہ کر ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازلہ فرمایا۔ لوگ اپنی وراثت میں یا تو ان لوگوں کو شامل کرتے تھے جن سے معاشرتی یا سماجی تعلقات زیادہ گہرے ہوتے تھے اور یا پھر یہ سمجھتے تھے کہ مال وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے ہونی چاہیے۔ وارثوں میں جو زیادہ ضرورت مند ہے اسے وراثت میں حصہ دار بنانا چاہیے۔ یہاں بتایا جارہا ہے کہ مال وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہوتی ہے۔ جو شخص میت کے ساتھ رشتہ میں قریب تر ہوگا وہ بعید کی نسبت زیادہ مستحق ہوگا۔ اگرچہ ضرورت اور حاجت کے اعتبار سے بعید زیادہ محتاج ہو کیونکہ اگر ضرورت اور حاجت کو مال وراثت کی تقسیم میں معیار بنایا جاتا تو یہ کبھی بھی اصول نہیں بن سکتا تھا کیونکہ ضرورت بدلتی رہتی ہے۔ آج ایک شخص ضرورت مند اور فقیر ہے کل کو وہ غنی اور دولت مند ہوجاتا ہے اور آج ایک شخص غنی ہے تو وقت کا کوئی حادثہ اسے کل کو فقیر بناسکتا ہے۔ اس لیے یہ بات مستقل اصول بننے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ مستقل اصول یہی ہے کہ رشتے داری میں جو زیادہ قریب ہے وہی وارث بننے کا حق رکھتا ہے۔ اسی اصول کی بنیاد پر یتیم پوتے کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے۔ یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے زیادہ حاجت مند بھی ہو تب بھی مستحق وراثت بیٹا ہے پوتانھیں۔ البتہ بیٹے کی ضرورت رفع کرنے کے لیے شریعت نے دوسرے انتظامات کیے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں ایک اور قانونی حکم یہ دیا گیا ہے کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو۔ حتی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسروں وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے عربوں میں یہ بھی ایک جاہلانہ رسم پائی جاتی تھی کہ مال کی بعض اقسام خاص وارثوں کے لیے مخصوص کردی جاتی تھیں، دوسرے وارثوں کو اس سے محروم کردیا جاتا تھا۔ مثلاً گھوڑا، تلوار اور دوسرا اسلحہ یہ اگر مال وراثت میں موجود ہوتا تو یہ صرف نوجوان مردوں کا حق تھا۔ نابالغ بچوں کو تو خیر ویسے ہی وراثت نہیں دی جاتی تھی۔ بڑی عمر کے لوگ اگرچہ وراثت سے حصہ پاتے تھے لیکن اسلحہ وغیرہ سے ان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ ہر طرح کی وراثت قابل تقسیم نہیں ہوتی۔ یعنی وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال واملاک پر جاری نہیں ہوتا۔ اسی لیے غیر منقولہ زرعی اراضی یا صنعتی ادارے وغیرہ وراثت کے طور پر تقسیم نہیں ہوتے تھے اور آج بھی بعض مذاہب میں تقسیم نہیں ہوتے۔ اسلام نے ان مظالم کی جڑ کاٹ دی تھی لیکن مسلمانوں نے جاہلیتِ قدیمہ کو پھر زندہ کردیا ہے۔ کسی جاگیر کو وراثت نہیں بننے دیا جاتا۔ عام زمیندار بھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی زمینوں سے حصہ دینے کے روا دار نہیں ہوتے۔
تَرَکَ کے لفظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق زندگی میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی مورث مال چھوڑ کر مرتا ہے۔ اس لیے کسی اولاد کے لیے ہرگز زیبا نہیں کہ وہ زندگی میں اپنے والدین سے وراثت کا حصہ مانگے۔
آیتِ کریمہ کا آخری جملہ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وراثت کے ذریعے جو ملکیت وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے ملکیتِ جبری ہے۔ نہ اس میں وارث کا قبول کرنا شرط ہے نہ اس کا اس پر راضی ہونا ضروری ہے بلکہ اگر وہ زبان سے بصراحت یوں بھی کہے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا، تب بھی وہ شرعاً اپنے حصے کا مالک ہوچکا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ مالک بن کر شرعی قاعدہ کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کردے یابیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔
موجودہ رویہ
یہ قرآنی علوم سے نا آشنا ہوتی قوم مسلم گرچہ حقوق کے تحفظ کے لئے خوب دعائیں مانگ رہی ہے پر حق یہ کہ اس نے معاشرے میں وہی جاہلانہ اقدار کو فروغ دینے کی قسم کھا رکھی ہے جس کے خاتمہ کیلئے امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تھا معاشرے میں ایک دم دار آواز اٹھتی ہے کہ جہیز لینا غلط ہے حکومتی سطح پر بھی جہیز کے لین دین پر سخت پابندی عائد ہے پر ہمارا معاشرہ اسی لعنت کہ نظر ہوتا جارہا ہے، مجال ہے کہ ہم اس خباثت سے نکل آئیں کہ نکاح کے انتظار میں ہماری بیٹیاں ہماری عمر عزیز سے نکلتی ہوئی ہماری بہنیں کہاں جائیں، جس وراثت میں انہیں قرآن نے حق دیا ہے اسی کو ہڑپنے کے لئے ہمارے سماج کا انپڑ سے لیکر حاجی الحاج و علامہ زماں تک ان مظلوم بیٹیوں اور بہنوں پر کیسے کیسے دباؤ بناتے ہیں والد۔ و والدی تک کہتے ہیں بیٹا حصہ مت لینا سماج میں ہماری ناک کٹ جائے گئی بیٹا یہ بھائی ہے۔ آپ کا اسی کو بخش دو۔ اپنا حصہ بیٹا قربانی دو۔ آپ شادی کی شادی پر خرچہ آیا ہے۔ سو اپنے حصے سے دستبردار ہوکر اچھی بیٹی اور بہن بن جاؤ۔ بھائی کہتا ہے بہن اپنا حصہ لے جانا ہے تو لے جاؤ۔ پر میرے گھر کے دروازے آپ کے لئے ہمیشہ بند ہوجائین گئے۔ خیر ایسی واہیات سوچ و فکر جن مردہ ضمیر اور بے غیرت انسانوں کی ہو بھلا ان کے سامنے کون سی بہن بیٹی اپنا حق مانگ سکتی ہے۔ سو اب معاشرے کا ایک خبیث عمل بن چکا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ نہیں لینا چاہئے یہ عیب ہے کاش چند بیٹیاں اس ظلم و ستم کے سامنے ڈھٹ کر کھڑی ہوجاتی تو شاید کوئی حل نکل آتا پر۔۔ واللہ جی ان بیٹیوں و بہنوں کے صدقے ہونے کو چاہتا ہے جو اپنا حق اپنے والدین کے کہنے پر بھائی سے رشتہ دائم بنائے رکھنے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔ کئی والدین ایسے بھی ہیں جو اپنی حیات کے زمانے ہی میں تمام جائداد اپنی اولاد نرینہ کے نام لکھ دیتے ہیں بیٹیوں سے لکھ کر لیتے ہیں کہ تم اپنے حصے سے دستبردار ہورہی ہو اور اب وراثت میں تیرا کوئی حق نہیں ہے اور یہ تحریر لکھوا کر والدین اپنے لئے دنیا میں ہی جہنم کا پروانہ لکھوا لیتے ہیں، بھائی کا تو مت پوچھئے وہ تو بہنوں کے لئے دروازے بند کر دیتا ہے کاش بھائی جان سکتا جو اس کی یہ بے زبان بہن ہے یہ کائنات میں باپ کے بعد گر کسی پر قربان ہوسکتی ہے تو وہ اس کا بھائی ہی ہے جسے بہنیں ہمیشہ اپنی کل کائنات مانتی ہیں پر ہائے ہمارے بھائی کس بے دردی سے بہن کو اپنے گھر نہ آنے کی دھمکی دے کر اسے زندہ درگور کردیتے ہیں۔۔۔ ہمارے زمانے میں کئی بزرگ بنے لوگ گرچہ عرب جاہلوں کا بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر لعن طعن کرتے تھکتے نہیں پر کیا یہ سچائی نہیں کہ ہم ان عرب کے جاہلوں سے گیے گزرے ہیں وہ کم سے کم انہیں دنیا میں تو آنے دیتے تھے ہم نے تو شکم ۔ مادر میں ہی کئی بیٹیوں کے ٹکڑے کروائے اور دفنائے صرف اس بنیاد پر کہ کوئی ہم سے کہتا ہے کہ آپ کی اہلیہ کے شکم میں بیٹی پل رہی ہے وہ بھی کیا کم ہے کہ بیٹی کہ پیدائش پر تو کئی نامراد شاطر العقل مردوں نے بیویوں کو طلاق تک دی یا بیٹی کے نام سے ہی چڑ چڑانے لگئے۔ اب شریک حیات کا مت پوچھے ان کی زندگی تو اکثر ہم نے عذاب بنا دی ہوتی ہے مختلف طریقوں سے مجال ہے کہ ان سے مسکرا کر کبھی ملیں۔۔ ہاں بے غیرت مرد اکثر اپنی محبت و خلوص اور انسانی شرافت کا ثبوت غیر ۔محرم خواتین کے تئیں دیتے ہیں اور اپنی انسانیت میں چھپی شیطان مزاجی کو چھپا کر خوب داد و تحسین وصول کرتے ہیں
یہ سب ایک سماجی اور معاشرتی ناسور ہے جس پر ہم لب ّکشائی نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ ہم نے طے کر رکھا ہے ہم جیسے ہیں ہمیں جنت ۔ میں جانا ہی جانا ہے جہنم تو غیروں کے لئے ہے۔
کیا پوچھا جاسکتا ہے آج کل جو مسلمانوں کے معاشرتی اور سماجی روئیوں کا حال ہے کیا ایسے معاشرتی اور سماجی اقدار کی آغوش میں رہ کر ہم کبھی بھی منزل کی اور کامیاب سفر کر سکتے ہیں یا ایسے روئیوں کے ساتھ ہم فلاح و کامرانی کی اور جاسکتے ہیں کیا یہ سب کر کے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میدان حشر میں منہ دیکھا سکتے ہیں جن کا کہنا ہے ہر مظلوم کا وکیل میں ہوں تو کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ اپنی بہن بیٹیوں اور شریک حیات کے ساتھ ایسا رویہ رکھ کر ہم کس اسلام کی آبیاری کر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ حشر عرب کے ان کافروں اور مشرکوں کے ساتھ ہو جنہیں ہم ہر دن جہنمی کہتے ہوئے تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے،
ہاں اللہ کا کرم ہے کئی ایسے بھی ہیں جو ایسے رزائل و عادات خبیثہ سے اپنا دامن بچائے ہوئے بارگاہ الہی میں سرخ رو ہونے کے لئے ہمہ تن مستعد رہتے ہیں اور انسانی اقدار کے بارے الہی تعلیمات کی روشنی میں عازم سفر ہیں دنیا میں انہیں فخر ہے اپنے مسلمان ہونے پر سب ایک جیسے نہیں ہیں پر ہماری اکثریت پٹری سے بہت زیادہ نیچے اتر گئی ہے
سلسله جاری
فی امان اللہ

الطاف جمیل شاہ ۔۔۔کشمیر
Altafjameelshah@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں