Dr Abdul Majid 103

مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

 

(قسط دوم)

 

ایک انسان جوں جوں اپنی عمر کی سیڑھیاں چڑھتا جاتاہے اس کی زندگی میں کبھی کبھی عجیب وغریب واقعات وحوادث بھی پیش آنے لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو تکلیف دہ ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوشی کاسامان مہیاکرتے ہیں۔ زندگی کے نشیب وفراز ہر کسی کی زندگی میں آتے رہتے ہیں جن کا سامنا کرنے سے نت نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔
کچھ حوادث وواقعات لاکھ کوشش کے باوجودبھی بھلائے نہیں جاسکتے اور کچھ دوسرے ذہن میں ایسے نقش پیدا کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بار بار کرنے کو دل چاہتا ہے۔ جسے ذہنی فرحت ملتی ہے۔
وہیں انسان ان باتوں کا جنہوں نے تکلیف دی ہوئی ہوتی ہے خیال تک دل ودماغ میںغیر شعوری بھی لانا نہیں چاہتا ہے۔
بہرحال ان باتوں کا ذکر وہ اپنے ہمدرد ساتھیوں بہی خواہوں سے ضرور کرنا چاہتا ہے ۔
میری زندگی زیادہ تر پریشانیوں اور غلط فہمیوں کا گہوارہ رہی ہے ۔ کچھ میری ترش مزاجی اور کچھ میری صاف گوئی کی وجہ سے ۔
بہت دفعہ میرانظریہ صحیح تھا مگر مجھے اس لئے غلط سمجھا گیا کیونکہ میں انپاPoint of View اچھی طرح سمجھانہ سکا۔
میری طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ نام نہاد لیڈروں ، کھڑپنجوں کو گھاس نہیں ڈالتا تھا کیونکہ مجھے اپنی ایمانداری خداترسی۔ حقوق العباد قابلیت صاف گوئی اور وقت کی پابندی پر اللہ کے فضل سے ناز تھا۔

میں اپنا کام سو فیصد نیک نیتی اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لئے کرتا تھا۔ کیونکہ باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ رزق اور عزت اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھی ہے اس لئے میں نے کسی کے ناراض یا خوش ہونے کی پرواہ نہ کی۔
یہ حدیث شریف مجھے کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتی ہے نہ تب اور نہ اب میں نے اپنی یادوں کو ہمیشہ اپنے سینے میں محفوظ رکھاہے اور اکثر گردن جھکا کران کھٹی میٹھی یادوں کو یاد کرکے کبھی ہنستا ہوں اور کبھی روتاہوں۔
یہ۱۹۵۷ء کے آخری ایام کی بات ہے میں سری امر سنگھ ہائی سکول بھدرواہ جس کو اب گورنمنٹ بوائز ہائر سکینڈری سکول کہتے ہیں میں نویں جماعت میں پڑھتاتھا۔ چار بجے چھٹی کے بعد جب میں گھر جانے کے لئے سیری بازار پہنچا تو میں نے وہاں ایک چھوٹے بچے کو ایک بس کے سہارے گہری نیند میں پڑا ہوا دیکھا۔ میں نے اس کو پہچانا کہ یہ کشتواڑ کے انور درویش کا بیٹا تھا۔انور درویش صاحب اکثر ہمارے گھر آتے تھے ۔ میں نے بچے کو پیٹھ پر اٹھایا ۔ اپنے گھر لایا وہاں انوردرویش صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بیٹے کے متعلق پوچھا کہ اس کو کہاں سے اٹھا کر لائے ۔ میں نے جب پوری بات بتائی وہ بہت خوش ہوئے ۔ بولے جابیٹا تو ڈاکٹر بنے گا۔ ہمارے وہم وگماں میں بھی نہ تھاکہ ایسا بھی ہوسکتاہے ۔
ان کا یہی بیٹا بعد میں اسحاق درویش صاحب کے نام سے مشہور ہوا اور میں اللہ کے فضل سے اور ان کی دعا سے ڈاکٹر بن گیا۔
۱۹۶۳ء میںمیڈیکل کالج پٹیالہ میں داخل ہوا ۔ میں چونکہ پہلی بار گھر سے اتنا دور چلا گیا تھا جہاں کی زبان، رہن سہن موسم سب کچھ بدلا بدلا تھا۔ مجھے گھر اپنی بہنوں اور والدین کی یاد بہت ستانے لگی۔ آٹھ دس دن تک برداشت کیا پھر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیاتو میں اپنا سارا سامان اور کتابیں وہیں چھوڑ کر گھر واپس چلا آیا ۔ واپس آنے کے بالکل جھوٹے بہانے والدین کو سنائے۔
دس پندرہ روز بعد میں جہاں بھی جاتا سارے پوچھتے کب آئے؟ کب جانا ہے۔ سارے اپنے پرائے ڈاکٹر ڈاکٹر کہہ کر بلانے لگے بس پھر کیا تھا میرا دل پلٹ گیا واپس پٹیالہ پہنچا۔ وہاں میری ملاقات ڈاکٹر کندن لال چوہدری سے ہوگئی جو کہ مجھ سے ساڑھے تین سال سنیئر تھے ۔ جو بعد میں جموں وکشمیر کے چوٹی کے فزیشن اور نیرولوجسٹ بن گئے ۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ ابھی چندروز شام کو اناردانہ چوک میں مچھلی کھانے جایا کر و۔ وہاں مچھلی تل کر بیچنے والا اصل میں مہاراجہ پٹیالہ کا باورچی تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر ہفتہ بھر کی لٹر مستی کے بعد پڑھائی میں جُٹ گیا ۔
ڈاکٹر کندن لال چوہدری کا انتقال ۲ ماہ قبل ایک لمبی بیماری کے بعد امریکہ میں ہوگیا ۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ہمدری کبھی بھی بھول نہیںسکتا۔
میں اکثر ان سے فون پر ملاقات کیاکرتا تھا ۔ ڈاکٹر ہونے کے علاوہ زبردست قلمکاراورشاعر تھے ۔
میں ایم بی بی ایس کے فائنل ایئر کا امتحان دے چکا تھا ۔۱۹۶۵ء کی جنگ زوروں پر تھی پورا بلیک آؤٹ تھا ۔ زندگی بہت پریشان کن تھی ۔ سوچتاتھا کہ کب اپنے گھر اپنے والدین اور ہمشیراں کے پاس پہنچوں۔ مجھے اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ کچھ ان بن ہوگئی تھی اس نے ہوا اُڑائی کہ یہ کشمیری لڑکا( یعنی میں) پاکستان کی طرف داری کررہاہے اور ان کے بمباری سے خوش ہوتاہے جوکہ بالکل جھوٹ تھا۔
وہ بری طرح میرے پیچھے پڑا ۔ میرے ایک دوسرے دوست نے کہا کہ فلاں لڑکا آپ کو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچانے کی کوشش کررہاہے ۔ اس نے مجھے پرنسپل تک یہ بات پہنچانے کی صلاح دی۔
رات گئے شاید ڈیڑھ بجے میں اور میرا دوست پرنسپل ڈاکٹر امر جیت سنگھ کے بنگلے پر گئے اس وقت وہ ابھی جاگ رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک دو اور دوست بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں نے ان کو اپنی پریشانی سنائی۔ پرنسپل صاحب کے دوستوں نے مجھے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں اس پر میں نے کہا کہ میں جموں کشمیر کے جموں میں رہتا ہوں ۔ انہوں نے پھر پوچھا جموں میں کس جگہ ۔ جواباً میں نے کہا میں جموں سے دور ایک قصبہ ہے بھدرواہ میں وہاں رہتا ہوں۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے اوربولے کہ وہ ۱۹۴۷ئ کے آس پاس وہاںفارسٹرتھے۔ انہوں نے بھدرواہ کے مشہور گاؤں کنسر جہاں کی مولی شلجم مشہور ہے کاذکر کیا ۔ انہوں نے کیلاڑ۔اٹھکھار گاؤں کا بھی ذکر کیا ۔ انہوں نے بھدرواہ کے راجماش اور کمبلوں کاذکر بھی بڑی دلچسپی سے کیا ۔
ان تینوں اشخاص نے صبح کالج سے نکل جانے کی صلاح دی۔ پرنسپل صاحب نے مجھے جاتے جاتے صلاح دی کہ ریلوے سٹیشن پر دوکڑے خرید لینا۔ وہ پہن کر جانا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور بخیروعافیت بھدرواہ اپنے گھر پہنچا۔
میرا فائنل کا امتحان شروع ہوگیا ۔ میڈیسن کا اکسٹرنل اگزامینر لکھنؤ سے کوئی ڈاکٹر صاحب آئے۔ وہ میرے فارموکا لوجی کے HOD ڈاکٹر گریلوال کے ہاں ٹھہرے تھے ۔ انہوں نے مجھے سے Motion Sicknessکے بارے میں پوچھنا شروع کیا ۔ نہ جانے کیوں اور کیسے میرا دماغ پھرگیا ۔مجھے لگا کہ جیسے مجھے سب کچھ بھول گیا ۔ میرے پسینے چھوٹنے ۔ اپنے گھر جانے کی جلدی کا خواب ٹوٹتا نظر آنے لگا۔ ڈاکٹر گریوال میری یہ حالت بھانپ گئے ۔ بولے ۔ بھئی جموں سے سرینگر اتنے موڑ ہیں۔ اتنی الٹیاں آتی ہیں۔ یہ الٹیاں روکنے کے لئے کون سی دوائیاں کھاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میرا دماغ کھل گیا ۔
میں نے سب کچھ فرفر سنایا
ڈاکٹر گریوال نے ایک موقع پر جب کہ میرا لون نہیں آیا تھا ۔ نوٹس نکالا تھا کہ ہوسٹل کے تمامduesسوموار تک ادا کرو۔ ورنہ ہوسٹل سے بے دخل کئے جاؤ گے ۔ وہ ہوسٹل کے سپرانٹنڈنٹ بھی تھے ۔ میں نے ان کو آہستہ سے کہا کہ جناب میرے لون کی قسط ابھی نہیں آئی ہے میں duesنہیں دے سکتا۔ یہ سن کر انہوں نے کہا کہ جاؤ ۔ سردارنی سے ڈھائی سو روپئے لے آؤ اور کلرک کے پاس جمع کردو۔ یہ تھاان کا پیار ہمدری انسان دوستی کا حال میں ان کی ہمدردیاں کبھی نہیں بھلا سکتا۔
میرا آخری اور فائنلgynae viva کا تھا۔ Longcase کے 100نمبرات ہوتے تھے اس میں پاس ہونا ضروری تھا ۔ مجھے ایک بڑھیا دی گئی اس کا پورا پورا معائینہ کرنا تھا۔سٹیٹ کرنے تھے۔differnetal diagnosisاس پر discussion اورTreatment میں نے جوں ہی شروع کیا ۔ ماتا جی ۔ست سری اکال ۔ اس نے ذرا سا سرہلایا۔
ماجی ! کیا تکلیف ہے۔ خاموشی………
ماں جی ۔ کے تکلیف اے پھر کوئی جواب نہیں
سوچا کہ ماں جی اونچی سنتی ہوگی۔ اب میں نے زور سے پھر یہی سوال دُہرایا ۔ جواب پھرخاموشی
اب اور زور دے کر پوچھا ۔’’ کے تکلیف ہے تہانوں ماں جی‘‘
اب ذرا ہونٹ ہلے
چھت ڈگی دی ہے۔
ماں جی۔ میں پوچھیا ۔ کیں وے ہسپتال بہچ داخل ہوئے او۔
چھت ڈگی دی ہے۔
اب میں پریشان ہوا ۔ کیا کروں میرا تو بیڑا غرق ہونے کو ہے ۔ اوران بزرگ ماتا جی نوں اپنی چھت دی پئی ہوئی ہے۔
اتنے میں ہماریHOD Gynecology ڈاکٹر میڈم گنڈا سنگھ وہاں سے گذری وہ بہت انسان دوست مددگاراور خوش اخلاق ٹیچر تھی۔ اس کے مقابلہ کا سارے کالج میں کوئی بارُعب پروفیسر نہ تھا ۔ ان کا انتقال فروری ۲۰۲۱ ء میں ہوا۔ میں ان کو بھولنا بھی چاہوںتو پھر بھی نہیں بھول سکوںگا۔
وہ جھٹ میری پریشانی سمجھ گئی ۔ بولی۔ او منڈیا ۔ کِنے سال پٹیالہ بچ ہوئے ۔ تینوں اتنا نئی پتہ کہ پنجابی بچProlapse uterus نوں چھت ڈگنا کہندے نے۔
یہ سن کر میری خوشی سے باچھیں کھل گئی۔ اب کیا تھا ۔پھٹا پھٹ سب کچھ لکھ ڈالا۔
ہم چونکہ رات بھر پڑھائی کرتے تھے ۔ نیند کا غلبہ جب ہوتا تو اس کو دور رکھنے کے لئے ہم یار دوست ریلوے سٹیشن یا اس کے نزدیک ایک ڈھابہ پر چائے یاکافی پینے جاتے تھے ۔ ایک دن جولائی۱۹۶۳ میں ہم اسی مقصد کے لئے اپنے ہوسٹل سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ ایک کتا ہماری طرف بڑی ڈراونی آواز میں بھونکنے لگا ۔ ہمارے ساتھ ایک نیپالی دوست تھا جب اس نے یہ ڈراونی آواز سنی تو وہ جھٹ بول پڑا۔ بھئی عبدل ہمارے نیپال میں کہتے ہیں جب اس طرح کتا آواز نکالے تو کوئی قریبی مرجاتا ہے۔ میں نے سن کر اَن سنی کردی۔
تقریباً اسی جولائی میں میں پڑھتے ہوئے قمیض کے کالر کے پاس کسی کیڑے کی حرکت محسوس کرتا ۔ اس طرف ہاتھ کرتاتو یہ کالی جوں ہوتی تھی۔ اسی طرح کبھی گریباں کبھی پاجامہ کے ناڑا والی جگہ میں جوں کی حرکت لگاتار محسوس کرتا۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ مرے اللہ یہ کیا ماجرا ہے میں تو دن میں رات میں کئی کئی بار نہاتا ہوں گرمی دور کرنے کے لئے یا نیند کوبھگانے کیلئے ۔ پھر یہ جوویں کیوں۔
میرا کمرہ نمبر ۱۳۲ تھا۔ بالکل کونے میں جہاں شور شرابا نہ تھا۔ میں یہ کمرہ مل کر بڑا خوش تھا یہاں بھی ان ہی دنوں مکھیوں کی بھرمار آنے لگی کمرے میں جالیاں لگی تھیں بعد میں مجھے پتہ چلا جب والد صاحب اس دنیا سے کوچ کرگئے کہ یہ دراصل اشارات تھے جو میری آنے والی مصیبت کا پتہ دیتے تھے ۔
میڈیکل کالج کی تعلیم کے دوران مجھے پا مسٹری اورFace reading کا شوق سوار ہوگیا۔ میں نے Cheiroکی پامسٹری پر ایک دو کتابیں پڑھیں اسی طرح فیس ریڈنگ اور Signature analysis پر بھی کافی وقت ضائع کیا ۔ ایک دن میں نے اپنے ہاتھ کی heart line پرisland دیکھا۔ جس کا مطلب تھا کہ کوئی غم رونما ہوگا ۔ میں نے سوچا کہ فائنل امتحان آنے والا ہے شائد میرا کوئی مضمون رہ جائے گا ۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ بلکہ یہ سب حالات میرے والد صاحب کی وفات کی طرف اشارہ کرتے تھے ۔ جو میری غیر حاضری میں ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۳ء کو ہمیں چھوڑ کر واصل بحق ہوگئے۔
مجموعی طورپر میرے میڈیکل کالج کے دن بہت ہی اچھے اور خوشگوار تھے ۔ یہاں سے ہی میری زندگی کا سورج طلوع ہوا اور یہاں کی تعلیم کے صدقے میں آج اس مقام پر ہوں جہاں اللہ نے مجھے عزت شہرت اور سب کچھ دیا۔
میرے کالج کے دنوں کے دوست اب تک مجھے برابر یاد کرتے رہتے ہیں ۔
ان میں سے کوئی امریکہ ،کوئی کنیڈہ تو کوئی آسٹریلیا میں ہے بہت سارے ہندوستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں اوران میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ روزانہ ہی گپ شپ ہوتی رہتی ہے ۔ ان کے ساتھ روزانہ کسی نہ کسی سے ملاقات ہوتی ہے۔
ہم سب ہم جماعتوں نے اپنا ایک گروپ بنایا ہے ۔۱۹۶۴ءGomcoاس کے ذریعہ روزانہ ہی کسی نہ کسی سے بات ہوتی ہے۔ پرانی کھٹی میٹھی باتیں یاد کرتے ہیں ایک دوسرے کی یاداشت کی داد دیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھے سے حافظہ میرا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں