افسانہ ۔۔۔اماں 72

افسانہ۔۔۔۔۔۔۔۔نالائق

راجہ یوسف

 

’’ اے نالائق ۔۔۔ کیا لکھ دیا یہ ۔‘‘ امجد نے ارشدکی ہوم ورک کاپی ہاتھ سے چھین لی۔
’’ نالایک ‘‘ ارشد کا معصوم سا جواب
’’ اس طرح سے لکھا جاتا ہے ۔؟ تم واقعی نالائق ہو ۔یار ارشد کب سمجھے گا تو ۔ صحیح لفظ لکھنا کب سیکھ جائے گا ۔‘‘
’’ مجھ سے نہیں ہو پاتا امجد ڈئیر ۔ کیا کروں‘‘
’’ دیکھ کیسے لکھا جاتا ہے ۔ ۔ اب سیکھ بھی لے ۔ نہیں تو فیل ہوجائے گا ۔‘‘ امجد بہت دیر تک اپنے دوست ارشد کو مشکل الفاظ لکھنا سکھاتا رہا لیکن ارشد پھر بھی غلطی پر غلطی کرتا جا رہا تھا۔

’’ نالائق ‘‘۔ امجد نے ارشد کے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر کہا اور ارشد ہمیشہ کی طرح زور دار قہقہہ لگا کر کتابیں سمیٹتا رہا۔
ان کے بیچ ’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے‘‘ والا جیسا معاملہ لگ رہا تھا۔ دونوں کی دوستی سارے گائوں میں مثالی مانی جاتی تھی ۔ امجد کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ تھا جبکہ ارشدایک غریب مزدور کا بیٹا تھا۔ کہانی وہی ہے اچھے گھر کا لڑکا تعلیم میں بھی اچھا اور غریب کا بچہ پڑھائی میں بھی غریب۔۔۔ گائوں کے اکلوتے ہائی اسکول سے امجد نے اچھے نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی اور ارشد ایک بھی کتاب پاس نہیں کر پایا۔ امجد کا داخلہ پاس والے قصبے کے کالج میں ہوگیا اور ارشد نے پڑھائی چھوڑ کر آٹو رکشہ چلانا شروع کردیا۔ دونوں کو اپنے اپنے کام سے بہت لگن تھی اور دونوں شد ومد سے اپنے اپنے کام میں جٹ گئے تھے۔
جب تک امجد نے قصبے کے کالج سے گریجویشن مکمل کرلی ارشد آٹو رکشہ سے ٹیکسی کا مالک ہوگیا تھا اور پھر اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کام کو شوق بنا دیا اور بہت جلد تین ٹکسیوں کا مالک بن گیا۔ اس کی شادی ہوگئی اوروہ ایک بیٹے کا باپ بھی بن چکا تھا۔ امجد مزید پڑھائی کے لئے شہر چلا گیا اور یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔اور یوں دونوں دوستوں کو ملنے کا موقعہ بہت کم ملتا تھا۔ اب وہ تب ہی ملتے تھے جب کبھی امجد گھر آجاتا تھا۔ امجد یونیورسٹی کا ہر دل عزیز طالب علم تھا۔ شعروشاعری سے اس کا شغف اور ادبی ذوق نے اسے اساتذہ کا چہتا بنا دیاتھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات عرشی سے ہوگئی۔ اور یہ ملاقات بڑھتے بڑھتے پیار میں بدل گئی ۔ پیار میں عہدوپیمان باندھنے سے پہلے ہی دونوں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ لیکن اسی دوران امجد کے باپ کا انتقال ہوگیا اور اسے گھر واپس آنا پڑا۔ ماں جو اکثر بیمار رہتی تھی ، شوہر کے انتقال کے بعد بستر سے لگ چکی تھی۔ اب امجد کا یونیورسٹی جانا محال تھا۔ آخر اس نے تلخ فیصلہ کر لیا اور گھر بیٹھ کر ماں کی خدمت میں لگ گیا۔ عرشی نے پاس والے ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ ماں کی پنشن اور عرشی کی قلیل تنخواہ سے گھر کے اخراجات چل رہے تھے اور امجد اپنی شعر و شاعری میں گم ہو چکا تھا۔اسے کبھی کسی مشاعرے میں شرکت کے لئے کسی دور درا ز علاقے یا کبھی شہر جانا پڑتا تھاتو جانے آنے کا کرایہ بھی عرشی سے لینا پڑتا تھا۔ ادب کی خبر رکھنے والا ادیب اپنے گھریلو معاملات سے اتنابے خبرتھا کہ اسے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس کی بیٹیاں کس کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ یہ عرشی جانتی تھی کہ کس کسمپرسی میں وہ اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہی تھی جو آٹھویں اور دسویں جماعت میں پہنچ چکی تھیں۔
امجد کے تب ہوش اڑ گئے جب اس کی ماں اسے چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اور اب عرشی کی معمولی تنخواہ سے گھر چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ شہر یاکسی دور جگہ جانے کے لئے امجدکے پاس کرایہ جٹانا بھی مشکل ہورہا تھا۔
ارشد اب علاقے کا بڑا ٹرانسپورٹر بن چکا تھا۔ اس کے پاس کئی پسینجر گاڑیاں تھیں۔ مدد کے لئے اس کے تین بیٹے اس کے ساتھ تھے۔ بنک اور فائناسس کمپنیاں اس پربہت زیادہ بھروسہ کر رہی تھیں۔ نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے اسے ایڈوانس میں پیسے دیتے تھے۔ارشد ان کا اچھا گاہک تھا۔ جس پر وہ آنکھ بندکرکے بھروسہ کرتے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب ارشد اور امجد ایک لمحہ کے لئے بھی جدا نہیں ہوتے تھے اور اب یہ وقت آیا تھا کہ ان کی ملاقات مہینوں کے بعد کہیں راہ چلتے ہوجاتی تھی۔ ۔۔ امجد کی ٹھاٹ تھی کہ وہ گھر سے کبھی پیدل نہیں جاتا تھا۔ بلکہ گھر تک آٹو رکھشا منگاتا تھا۔ لیکن اب جب سے اس کی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ جب بھی گھر سے نکلتا تھا تو پیدل ہی نکلتا تھا۔ اور واپسی بھی پیدل ہی ہوتی تھی۔ارشد نے کئی بار امجد کو اس طرح آتے جاتے دیکھا تو وہ ٹھٹک گیا۔ اور جب کبھی ان کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے امجد میں بہت زیادہ بدلائو بھی دیکھا تو وہ کچھ کچھ پریشان ہوگیا۔ امجد زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ ارشد یوں تو امجد کے حالات سے کچھ کچھ واقف تھا۔ لیکن عرصے سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا نہیں تھا۔ اس لئے حالات کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔ لیکن معلوم کر نے کے بعد اسے بہت دکھ ہوا۔ امجد کی بیوی کی معمولی تنخواہ سے گھرکا گذارہ مشکل سے ہو رہا تھا ۔ اور دو جواں بیٹیاں جو مہندی کو ترس رہی تھیں۔ ارشد اپنے دوست کے بارے میں دن رات سوچنے لگا۔ وہ کسی بھی طرح اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔لیکن وہ امجد کو جانتا تھا کہ وہ کتنا غیرت مند آدمی ہے اوروہ کسی بھی حال میںاس کی مدد قبول نہیں کرے گا۔ بہت سوچ بچار کے بعد ارشد نے سوچا کہ وہ امجد کو کہے گا کہ وہ اس کی ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام کرے۔ لیکن وہ خود ہی اس کی نفی بھی کرتا رہا کہ یہ کام اس کے ادیب دوست کے شایان شان نہیں ہے۔
پھر ایک دن ارشد نے ایک بڑا فیصلہ کر لیا اور وہ امجد کے گھر پہنچ گیا ۔ یہ فیصلہ لینے سے پہلے اس نے کئی بار سوچا ۔ اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ مشورہ کیا۔ لیکن پھر بھی اسے یہ خدشہ لاحق تھا کہ امجد کہیں برا نہ مان جائے اور ساری زندگی کی دوستی ٹوٹ نہ جائے ۔ لیکن کسی اور سے بات کہلوانے کے بجائے ارشد نے طئے کیا کہ کچھ بھی ہوجائے ، یہ بات وہ خود ہی امجد سے کہہ دے گا ۔
یہ بہار کی آمد آمد کے دن تھے ۔ خوشگوار صبح کو ارشدخوش کن نوید لے کر آیا تھا۔ عرشی ہکا بکا تھی ۔خوش بھی تھی اور حیران بھی ۔لیکن امجد کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گذر گئے۔ پھر اس نے نم آنکھوں سے اپنے دوست ارشد کی طرف دیکھا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر پہلے ان کو چوما پھر تھرتھراتی آواز میں صرف اتنا ہی بول پایا۔
’’ ارشد ۔۔۔ میرے دوست ۔ یہ بس کہنے کی باتیں ہیں کہ بیٹیاں ماں باپ کے لئے بوجھ نہیں ہوتی ۔ لیکن میری کمراس بوجھ سے واقعی جھکی تھی ۔ آپ نے میری دونوں بیٹیوں کو اپنی گھر کی بہوئیں بنا کر مجھ پر احسان کیا ہے ۔ ‘‘
’’ نہیں میرے دوست یہ احسان میں تم پر نہیں بلکہ اپنے ا ٓپ پر کر رہا ہوں۔آپ کی بیٹیاں اتنی پیاری اور خوش اخلاق ہیں کہ انہیں کوئی بھی اپنی بہو بنا سکتا ہے ۔ میں تو ان کو اپنی بیٹیاں بنا کر لے جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’ ارشد ۔۔۔ میرے دوست ۔۔۔ سچ کہہ رہا ہوں ۔ آج آپ نے اس نالائق دوست کی لاج رکھ دی ہے۔‘‘
’’ نا ۔۔۔ نا ۔۔۔ امجد ڈئیر ۔ یہ ’’ نالایک ‘‘ والا سہرہ تم میرے سر ہی رہنے دے تو اچھا ہے۔ اسے نہ چھین مجھ سے ۔ یہ میرے پاس ہی رہنے دے ۔ اسے تو میں نے اپنے یار کی نشانی سمجھ کر تعویز بنا دیاہے۔ اور اسے اپنی تقدیر سے باندھ کر رکھ دیا ہے ۔‘‘
’’ ارشد میرے دوست ۔ ‘‘ امجد اٹھ کر ارشد کا ہاتھ پکڑکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اپنے دوست کو گلے لگا کر زار و قطار رو لیتا ہے
عرشی کی آنکھوں سے بھی ا ٓنسوں بہہ رہے ہیں۔ لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی آج برسوں کے بعد مسکرائے تھے۔
���
��

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں