پروفیسر حنیف کیفی: چھوٹی چھوٹی یادیں-بڑی کارآمد باتیں 72

پروفیسر حنیف کیفی: چھوٹی چھوٹی یادیں-بڑی کارآمد باتیں

محمد قیصر نعیم(دبئی)

میں کوئی ادیب یا مصنف نہیں ہوں اور نہ میری اپنی کوئی پہچان ہے۔ اگر پہچان ہے تو وہ صرف یہ کہ میں اپنے بابو کا بیٹا ہوں۔ وہی بابو جن کو دنیا پروفیسر محمد حنیف کیفیؔ کے نام سے جانتی ہے۔ اگر مجھ سے مختصراً والد صاحب کی شخصیت بیان کرنے کو کہا جائے تو صرف اتنا کہوں گا کہ ایک ماں کی طرح محبت کرنے والے باپ، شفیق استاد، اچھے دوست اور بہترین انسان۔
والد صاحب سے جڑی ہوئی بہت سی چھوٹی چھوٹی یادیں ہیں جو میرے لیے بڑی کارآمد باتیں ثابت ہوئیں۔ والد صاحب کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں بحیثیت لکچرر ۱۹۷۲ء میں ہوا اور ہم لوگ ان کے ساتھ جولائی ۱۹۷۲ء میں بریلی سے دہلی آگئے۔ ہم سب بہن بھائیو ںکا داخلہ بھی جامعہ کے اسکول میں ہوگیا۔ کچھ دن تک والد صاحب کا معمول رہا کہ جب تک ہم بچے راستوں سے مانوس نہیں ہوگئے صبح ہم لوگوں کو اسکول تک چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اسکول ختم ہونے پر محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ گھر واپس آجاتے تھے۔ والد صاحب کی شخصیت کے ساتھ بہترین کا لفظ اس حد تک جڑا ہوا ہے کہ اس لفظ کے بغیر ان کی شخصیت ادھوری سی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں بہترین ڈھونڈنے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا معاملہ ہوا تو اپنی حدود میں رہتے ہوئے بہترین تعلیم دی اور اس تعلیم ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب بھائی ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
بچپن سے ہی والد صاحب کو اپنے حق کے لیے لڑتے اور جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ انہوں نے ہمیں اسی بات کی ترغیب دی کہ محنت اور ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیجیے۔ عام طور پر بہت کم لوگوں سے ملنے والے اور بہت کم بات کرنے والے، لیکن اگر کسی سے بہت انسیت اور قربت ہے تو بہت بات کرتے تھے اور اونچے لہجے میں بات کرتے تھے۔ ہر کام میں نہایت ہی باریک بینی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ والد صاحب کو نفاست اور خوش سلیقگی کا بہت احساس رہتا تھا۔ بچپن میں ہمیں سکھایا کرتے تھے کہ جوتوں پر پالش کیسے کی جاتی ہے۔ پڑھنے کے لیے بہت زیادہ encourage کیا کرتے تھے کہ تمہیں debates میں حصہ لینا چاہیے چونکہ خود اپنی طالب علمی کے زمانے میں کافی active رہے ہیں اسی لیے چاہتے تھے کہ ہم لوگ تعلیمی میدان میں ان سے آگے نکلیں۔ ایک بہت اچھا واقعہ یاد آرہا ہے۔ جامعہ مڈل اسکول میں معلوماتِ عامہ (General Knowledge) کا ایک مقابلہ Jawahar Lal Nehru Prize کے نام سے ہوا کرتا تھا جس کو جیتنے والے کو ۲۰۰ روپے (دو سو روپے) انعام میں ملتے تھے جو اس وقت کافی بڑی رقم تصور کی جاتی تھی اور جو اعزاز تھا وہ تو بیش قیمت تھا ہی۔ غرض یہ کہ ہم نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آخری مرحلے تک پہنچے۔ یہ بات ۷۸-۱۹۷۷ء کی ہے۔ پورے اسکول سے پانچ بچے Viva کے لیے شیخ الجامعہ صاحب کے دفتر پہنچے۔ جب ہمارا نمبر آیا تو ہم بغیر کسی جھجک کے شیخ الجامعہ صاحب کے دفتر میں چلے گئے۔ والد صاحب کی تعلیم کے مطابق اندر پہنچتے ہی سلام کیا اور بیٹھنے کی اجازت مانگی۔ اس Viva میں تقریباً چار بڑی معزز ہستیاں موجود تھیں جن میں سے میں شیخ الجامعہ پروفیسر مسعود حسین خاں صاحب کو پہچانتا تھا۔ میں پہلے سے ہی ان سے بہت متاثر تھا چونکہ اسکول کے مختلف پروگراموں میں وہ شرکت کرتے رہتے تھے اور اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے بچوں سے مخاطب ہوتے تھے ۔مسعود صاحب نے اور باتوں کے علاوہ مجھ سے والد صاحب کا نام پوچھا، نام سن کر چونکے اور برجستہ کہا کہ آپ کے والد تو بہت ہی ثقیل اردو بولتے اور لکھتے ہیں اور آپ نے اتنی ہی ٹھیٹ ہندی میں جوابات لکھے ہیں (اس پورے مقابلے میں صرف میں نے ہی ہندی میں جوابات لکھے تھے)۔ میں نے بھی بلاتامل کہہ دیا کہ مجھے اردو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر سوال کیا گیا کہ چلیے والد صاحب کا کوئی شعر ہی سنا دیجیے۔ جواب تیار تھا کہ جب اردو سے دلچسپی نہیں تو پھر شعر کیسے یاد ہوگا۔ بہرحال اس سال کا نہرو پرائز ہمیں مل گیا جو کہ جامعہ کے Convocation میں اس وقت کے وزیراعظم جناب مرارجی دیسائی کی موجودگی میں جامعہ کے اس وقت کے چانسلر مرحوم ہدایت اللہ صاحب کے ہاتھوں دیا گیا۔ مسعود صاحب سے اس گفتگو کا فائد ہ یہ ہوا کہ ہم نے اردو میں دلچسپی لینا شروع کی اور والد صاحب کی غزلوں کے چند اشعار یاد کرلیے۔ ہم انتظار کیا کرتے تھے کہ کب کوئی اردو کا رسالہ آئے اوراس میں والد صاحب کا کوئی مضمون یا پھر غزل ہو اور ہم اسے پڑھیں، سمجھ میں تو خیر کیا آتا!

والد صاحب کی کتاب ’’اردو شاعری میں سانِٹ‘‘ جب شائع ہوئی تو ہم بہت چھوٹے تھے۔لیکن جب ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’اردو میں نظمِ معرّا اور آزاد نظم: ابتدا سے ۱۹۴۷ء تک‘‘ طباعت کے مراحل میں تھی تو ہم سمجھدار تھے اور اس کتاب کی طباعت کے سلسلے میں جو بھی مشقت والے کام ہوتے تھے ہم بھائی اس میں بابو کی مدد کردیا کرتے تھے۔ جب کتاب شائع ہوئی تو اس کی بہت زیادہ تعریف ہوئی۔لوگوں کا آنا جانا اور پھر اردو کے بہت بڑے ادیبوں اور ناقدین جن کے ناموں سے ہم واقف ہوچکے تھے، ان کے تعریفی خطوط آتے تھے اور جب مغربی بنگال اردو اکادمی نے اس کتاب پر کل ہند سطح کا پہلا انعام دیا تو لگا کہ واقعی کچھ ایسا بڑا کارنامہ ہوگیا ہے جس کی اہمیت کا ہمیں اندازہ نہ تھا۔
بابو جب بھی کوئی درخواست یا خط انگریزی میں لکھتے تھے تو وہ ہمیں دے دیتے تھے کہ اس کو دیکھ لو اس میں کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ ہم بھی اپنے آپ کو بہت قابل سمجھتے ہوئے ان کے خط میں غلطیاں ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے تھے یہ الگ بات تھی کہ اس میں باوجود لاکھ کوشش کے کوئی غلطی ہمیں نہیں ملتی تھی۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو یہ سمجھ میں آیا کہ یہ تو ان کے سکھانے کا انداز ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ انگریزی میں درخواست یا خط کیسے لکھا جاتا ہے۔
بابو گھومنے پھرنے کے بہت شوقین ہیں اور اس سے زیادہ شوق اور سلیقہ ان کو خریداری کرنے کا ہے۔ خریداری کرتے وقت وہ ہر ایک کے مزاج اور رنگ روپ کا خیال رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی دوسرے شہر سے کانفرنس یا سمینار وغیرہ کے بعد آتے تھے تو پہلا جملہ یہی ہوا کرتا تھا ’’اتنی خریداری ہوگئی کہ سارے پیسے ختم ہوگئے۔‘‘ بابو کھانے کھلانے کے بھی بہت شوقین ہیں۔ آئے دن ہمارے گھر پر ان کے احباب کی دعوتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری امّی کو سلامت رکھے اللہ نے ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے میں وہ ذائقہ دیا ہے کہ پیٹ بھرجائے اور دل نہ بھرے۔ آئے دن والد صاحب کے جو دوست احباب، ہمارے گھر پر کھانے کے لیے آتے وہ امّی کی بے حد تعریف کرتے۔ کھانے کی دعوتوں کے ساتھ ساتھ ادبی محفلیں بھی سجتی رہتی تھیں۔ اس طرح کی محفلوں میں کھانے کے علاوہ چائے اور پان کا دور چلتا رہتا تھا۔ حالانکہ بابو خود پان نہیں کھاتے ہیں لیکن پان ان محفلوں کا ایک ضروری جز ہوا کرتا تھا۔ ہماری امّی بھی بہت سلیقے سے خاصدان میں رکھ کر پان بھجوایا کرتی تھیں۔
عام طور پر سخت دِکھنے والے بابو اس وقت ہمارے دوست ہوجاتے تھے جب ہم کیرم کھیلتے ہوتے تھے یا پھر تعلیمی تاش۔ اور وہ ان کھیلوں میں شریک ہوکر ہمیں ہدایات دیا کرتے تھے کہ ان کھیلوں کو کیسے کھیلا جاتا ہے، یا پھر وہ کھیلوں کے بارے میں اپنی معلومات ہم سے بانٹا کرتے تھے۔ یہ وقت میرے لیے خاص طور سے بہت اچھا اور پرلطف ہوا کرتا تھا کیونکہ میں خود ہمیشہ سے ہی کھیلوں کا بہت شوقین رہا ہوں اور ہر وقت اس جستجو میں رہا کرتا تھا کہ کھیلوں کے بارے میں مجھے کچھ نئی بات معلوم ہو اور میری معلومات میں اضافہ ہو۔
۲۰۰۱ء میں اللہ تعالیٰ نے میرے والدین کو حج کی سعادت سے نوازا۔ ان دنوں میں بیوی بچوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں مقیم تھا۔ حج سے واپسی کے بعد میں نے امّی اور بابو کو Visit Visa پر شارجہ بلا یا تھا۔ وہ چالیس (۴۰) دن دبئی، ابوظبی، شارجہ اور دوسرے مقامات کی سیر و تفریح اور خریداری میں کب گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ والدین کو رخصت کرنے کے بعد میرے ذہن میں چند اور اچھی یادوں اور باتوں کا اضافہ ہوگیا۔
۱۵؍ جنوری ۲۰۰۳ء کا دن ہم سب کی زندگیوں میں ایک نہایت ہی افسوسناک خبر لے کر آیا۔ اس دن ہم سب بھائیوں کی چہیتی اکلوتی بہن غزالہ شباب ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالکِ حقیقی سے جاملیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس سانحے نے میرے والدین کی زندگی میں ایک بہت بڑا کبھی نہ پُر ہونے والا خلا پیدا کردیا اور اس سانحے کا اثر آج بھی ان کے ذہن میں تازہ ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری بہن کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ باجی کے انتقال سے یوں تو ہم سب کو بہت صدمہ ہوا لیکن بابو بالکل ٹوٹ گئے تھے، وہ ہم سب بچوں میں ہماری بہن کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ والد صاحب کے چند اشعارجو مجھے بہت زیادہ پسند ہیں پیش کرتا ہوں:
فرازِ دار، سرِنیزہ، رفعتِ سجدہ
میں جس مقام پہ تھا اک اٹھا ہوا سر تھا
جنہیں سکھائے ہیں آدابِ زندگی ہم نے
وہی یہ پوچھ رہے ہیں مزاج کیسا ہے
اور کیا تھا ترا چہرہ ہی دکھایا تھا تجھے
آئنہ توڑ کے کیوں پھینک دیا میری طرف
رخ موڑنے چلا تھا میں سیلابِ وقت کا
میری انا کی موج مجھے ہی ڈبو گئی
سخت ہے بیچ کی دیوار کراہیں کمزور
اپنے بیمار پڑوسی کی خبر کیوں آئے
کیفیؔ وہ جس کی بات میں کوئی اثر نہ ہو
اس کو مرا سلیقہ گفتار دیجیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں