sabzar bhat 64

لال قلعہ مغل دور کی ایک سنہری یادگار‎‎

سبزار احمد بٹ۔۔۔اویل نورآباد

مغلوں نے 1526 سے 1857 تک برِ صغیر پر حکومت کی ہے۔اس دوران مغلوں نے بھارت اور اس سے باہر بہت ساری جگہوں پر شاندار تعمیرات کھڑی کیں ۔یہ تعمیرات نہ صرف اپنے منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں بلکہ یہ تعمیرات ایسی جگہوں پر کی گئی ہیں کہ مغلوں کے ذوق جمال کی داد دینا پڑتی ہے ۔مغلوں کو اگر حسن و جمال اور قدرتی نظاروں کا پرستار کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔مغلوں کی بنائی ہوئی عمارتیں اس وقت بھی نہ صرف دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہیں بلکہ ملک کی آمدنی کا بھی اہم زریعہ ہیں ۔ان تعمیرات میں لال قلعہ بھی اپنی ایک منفرد پہچان اور اہمیت رکھتا ہے۔ اتنے عرصے کے بعد بھی لال قلعہ بھارت کے ماتھے پر ایسے چمکتا ہے جیسے آسمان پر چاند ۔لال قلعہ دریائے جمنا کے کنارے پر واقع ہے اور مغل سلطنت کی ایک بہترین یادگار ہے ۔لال قعلے کی تعمیر کا آغاز 12 مئی 1638 کو شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں کیا گیا۔ یہ وہ دور یے جب مغلوں نے اپنی سلطنت آگرہ سے دہلی منتقل کی ۔مغلوں نے لال قلعے کو اپنی رہائش اور حکومتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔لال قعلے می تخت طاوس ہوا کرتا تھا جس پر بادشاہِ وقت بیٹھ کر فیصلے سنایا کرتا تھا یہ تخت طاؤس انگریزوں کے پاس ہے یہ قلعہ پرانی دلی سے 330 میٹر کی اونچائی پر واقع ہے یہ پورا قلعہ سرخ پتھروں اور ماربل سے تعمیر کیا گیا ہے لال قلعہ کی تعمیر 1648 میں مکمل ہوئی یعنی لال قلعے کو تعمیر کرنے میں پورے 9 سال کا عرصہ لگا۔ لال قلعے کی دیواروں کا احاطہ 2.5 کلومیٹر ہے جبکہ لال قلعہ 255 acres زمین پر پھیلا ہوا ہے ۔ لال قلعے کا پہلا نام “قلعہ مبارک” تھا انگریزوں نے اس کے سرخ رنگ کو دیکھتے ہوئے red fort کہا۔جس کا ترجمہ لوگوں نے لال قلعہ کیا اور آج بھی یہ عمارت لال قلعے کے نام سے جانی جاتی ہے۔لال قلعے کا نقشہ استاد احمد لاہوری نے تیار کیا تھا ۔ لال قلعہ 1638 سے 1771 تک مغلوں کی نگرانی میں رہا۔جبکہ 1771 سے 1803 تک مراٹھا بادشاہت کی نگرانی میں رہا۔1803 سے 1857 تک انگریزوں کے قبضے میں رہا ۔1947 یعنی آزادی سے تا ایں دم بھارت سرکار کے پاس ہے۔لال قلعے کے دو دروازے ہیں لاہوری گیٹ اور دلی گیٹ۔ ملک کے وزیر اعظم ہر سال 26 جنوری اور پندرہ اگست کو لال قلعے کے لاہوری گیٹ سے ملک کا جھنڈا لہراتے ہیں اور سلامی لیتے ہیں ۔اور پورے ملک سے خطاب کرتے ہیں ۔لال قلعے کی اہمیت اور منفرد طرزِ تعمیر کو دیکھ کر 2007 میں UNESCO کی جانب سے اسے بین الاقوامی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔لال قلعے کا ایک بڑا حصہ فوجی نگرانی میں رہتا ہے جہاں عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق لال قلعے میں 2600 bc سے لیکر 1200 bc تک کا مواد استعمال ہوا ہے ۔لال قلعہ اپنی دیوار بندی اور دروازوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔لاہوری گیٹ لال قلعے کا اہم دروازہ ہے جسے اورنگزیب نے 1658 اور 1707 کے درمیان وسعت دی اور اسے 10.5 میٹر اونچا کیا۔ان دنوں شاہِ جہاں کو اپنے ہی گھر میں نظر بند کیا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ جب شاہِ جہاں نے یہ خبر سنی تو وہ سخت ناراضگی ہو گئے اور انہوں نے اورنگزیب کو لکھا کہ

” You have made a fort a bride, and set a veil on it”
دوسرا گیٹ دلی گیٹ ہے جہاں سے چھاتا چوک نام کا راستہ ہے جس کے دونوں طرف بازار سجایا جاتا ہے لال قلعے کو دو بار سخت نقصان بھی ہوا ہے ایک جب 1739 میں نادر شاہ ابدالی نے دلی پر حملہ کیا اور دوسری بار جب 1855 میں بھارت نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ۔ اس بغاوت کے رد عمل کے کاروائی میں لال قلعے کو نقصان ہوا۔ مغلوں نے لال قلعے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا تھا جیسے
رنگ محل:- یہ وہ رنگین محل تھا جہاں پر مغلوں کی بیویاں رہائش پزیر تھیں ۔
دیوان خاص:- یہ حصہ سفید ماربل سے بنا ہوا تھا یہاں پر حکومت کے خاص اور منظور نظر لوگ رہتے تھے۔ دیوان خاص کے بیچ میں مور کا تاج سجایا گیا تھا جسے 1739 میں احمد شاہ ابدالی نے ہٹایا۔یہ باتیں میوزیم میں موجود عبارت میں لکھی گئی ہیں
حمام :- یہ وہ جگہ ہے جہاں پر بادشاہت یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت سے منسلک لوگ نہایا کرتے تھےحمام تین حصوں پر مشتمل تھا اس میں بچوں کے لیے الگ جگہ بنائی گئی تھی ٹھنڈے اور گرم پانی کا انتظام تھا۔کچھ اہم فیصلے حمام میں بیٹھ کر لیے جاتے تھے
موتی مسجد :- یہ مسجد اورنگزیب نے 1660 میں بنائی تھی سفید ماربل سے بنی ہوئی یہ خوبصورت مسجد حمام کے مغربی میں دیوان خاص کے بالکل نزدیک میں واقع ہے یہ مسجد اورنگزیب نے اپنی دوسری بیوی نواب بی کے لیے تعمیر کی تھی۔اس مسجد میں مستورات نماز ادا کرتی تھیں اس مسجد کی تعمیر پر اُس وقت 16000 روپے کا خرچہ آیا
ڈرم ہاوس :- اس جگہ کو نیابت خانہ بھی کہتے تھے یہ وہ جگہ ہے جہاں پر فریادی بیٹھ کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے
ممتاز محل :- یہ وہ جگہ ہے جگہ پر عورتیں بیٹھا کرتی تھیں ممتاز محل کو آج بطورِ میوزیم کے استعمال کیا جاتا ہے آج بھی اس نمائش گاہ میں مختلف چیزوں کو محفوظ کیا گیا ہے اور اسے سیاحوں کے لیے کھلا رکھا گیا ہے ۔نمائش گاہ میں رکھے ہوئے چیزوں کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے ہر کمرے میں ایک لوڈ سپیکر رکھا گیا ہے جو اس کمرے میں رکھے ہوئے چیزوں یا تصویروں کے بارے میں جانکاری دیتا رہتا ہے اس میوزیم میں مختلف تلواریں، ٹوپیاں، نوٹس، تصویریں، پاسپورٹ وغیرہ چسپاں کئے گئے ہیں اور ان کے نیچے عبارت بھی درج کی گئی ہے
دیوان عام :- یہ عمارت نقار خانے کے بالکل متصل تھی اس جگہ کی چوڑائی 540 فٹ تھی جبکہ گہرائی 420 فٹ تھی اس جگہ پر عام لوگوں کے مسائل سنے جاتے تھے۔اس کے علاوہ بھی لال قلعے کے مختلف حصے تھے جہاں پر مختلف کام انجام دیئے جاتے تھے۔دیکھا جائے تو لال قلعہ محض کوئی عمارت نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر حکومتی امور چلانے کے لیے باضابطہ اور مکمل انتظام تھا۔اتنا ہی نہیں حفاظتی انتظامات ایسے تھے کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ کچھ چیزوں کو دیکھ کر آج کے جدید اور سائینسی دور میں بھی انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے
��
��
سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں