فتویٰ 114

انجام

ملک منظور

وہ تینوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے ۔جانتے کیوں نہیں وہ ایک ہی بستی میں رہتے بھی توتھے اور ایک جیسے مفلس گھرانوں سے تعلق بھی رکھتے تھے ۔فرق صرف اتنا تھا کہ ہلال کی ماں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور ارشید کی ماں نے پانچویں جماعت تک پڑھائی کی تھی ۔جاوید کے والدین انپڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ لاپرواہ اور آلسی تھے ۔ان کے لئے سچ اور جھوٹ ،حلال اور حرام کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ جاوید آوارہ اور غیر سنجید انسان بن گیا ۔ہلال اور ارشید اسکول کا ہوم ورک اچھی طرح سے کرتے تھے اور اسکول بھی روزانہ جاتے تھے ۔اسکول گاؤں سے تھوڑا دور کھیتوں سے گزر کر ایک بڑے میدان میں تھا ۔گاوں سے ایک کچی سڑک اسکول تک جاتی تھی ۔سڑک کے دونوں اطراف مکی کے کھیت اور اخروٹ کے درختوں کا جھنڈ تھا ۔

اسکول سے واپس آتے وقت جاوید ہمیشہ نہ صرف مکی کی چھلیاں توڑ کر لاتا تھا بلکہ اخروٹ بھی چرا کر لاتا ۔اس کے گھر والے کبھی اسے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ وہ چوری کیوں کرتا ہے ۔وہ خوشی خوشی اس کا خیرمقدم کرتے تھے اور اس کی چرائی ہوئی چیزیں کھاتے تھے ۔
اسکول میں استاد بھی لوگوں کی شکایت پر اس کو مارتے مارتے تنگ آگیا تھے ۔ہلال اور ارشید نے بھی جاوید سے دوری اختیار کی ۔ایک دن جاوید چھلیاں توڑ رہا تھا کہ ایک لڑکے نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔کیا کر رہے ہو جاوید ۔
جاوید پر خوف طاری ہوا وہ کانپنے لگا اس کے ہاتھوں سے چھلیاں گرگئیں ۔
اس لڑکے نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔۔گھبراو مت ۔۔۔میں بھی ایک چور ہوں ۔میرا نام مختار ہے ۔
جاوید نے ہوش سنبھال کر کہا ۔۔اچھا تو تم بھی چور ہو ۔پھر تو ہم‌چور چور ماسیرے بھائی ہوئے ۔
یوں دونوں کی دوستی کا آغاز ہوا ۔مختار نے دھیرے دھیرے جاوید کو سگریٹ نوشی اور تمباکو چبانے کی لت میں مبتلا کردیا ۔گاوں میں چوریوں کی وارداتیں بڑھنے لگیں۔ تو گاوں والوں نے جاوید کو ڈرا دھمکا کر گاؤں سے بھگا دیا ۔جاوید گاؤں سے شہر پہنچ گیا ۔جیب میں کوئی پیسہ نہیں تھا ۔کھانے کے لالے پڑ گئے ۔اسی اثنا میں وہ ایک منی بس کے دروازے پر لٹک گیا ۔منی بس میں سواریاں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں ۔منی بس سٹاپ پر سواریاں اتارتی گئی اور اس کے اندر جگہ خالی ہوتی گئی ۔جب گاڑی کے اندر جگہ خالی ہوئی تو جاوید بھی ڈرائیور کے بغل میں کھڑا ہوا ۔ڈرائیور نے جب جاوید کو دیکھا تو فوراً بول پڑا ۔۔۔ارے جاوید تو ۔۔
جاوید نے بھی حیران کن انداز میں کہا ۔۔مختار بھائی تم ڈرائیور بن گئے ہو ۔
ہاں مجھے دو سال ہوگئے ۔۔جاوید نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
تم کیا کر رہے ہو ۔جاوید نے پوچھا
میں تو بس کوئی کام ڈھونڈ رہا ہوں ۔جاوید نے‌ مایوس کن لہجے میں کہا ۔
سمجھو آپ کو کام مل گیا ۔مجھے کنڈیکٹر کی ضرورت ہے ۔آج سے تم میرے کنڈیکٹر ۔۔مختار نے جواب دیا ۔
ایک دفعہ پھر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے لگے ۔
مختار اپنے مالک‌ کو منی بس سے کمائی گئی رقم شام کے وقت حوالے کرتا تھا اور مالک بھی خوشی خوشی سو دو سو روپیہ چائے پانی کے لئے دیتا تھا ۔جاوید کے ساتھ مل کر مختار پھر سے نشیلی چیزیں کھانے لگا اور کبھی کبھی شراب نوشی بھی کرتے تھے ۔مالک کے پیسوں میں بتدریج کمی ہونے لگی ۔وہ سمجھ گیا کہ مختار کے من میں کھوٹ ہے ۔اس نے موقعہ پاکر دونوں کو نوکری سے نکال دیا ۔کام چھوٹنے کے بعد دونوں بہت پریشان ہوگئے اور سوچنے لگے کہ بھوک کو مٹانے کے لیے کیا کیا جائے ۔
مختار جو شہر کی ہر گلی کوچے سے واقف تھا نے جاوید سے کہا ۔۔سنو جاوید ،اب کی بار کچھ ایسا کرتے ہیں کہ زندگی سنور جائے اور پھر چوری کی ضرورت نہ پڑے ۔
جاوید نے پوچھا ۔۔کیا ہم چوری کریں گے ؟
مختار نے ہاں کہتے ہوئے کہا ۔۔گلی کی نکڑ پر ایک بوڑھے آدمی کی دکان ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ ہفتے بھر کی رقم وہیں رکھتا ہے ۔
جاوید نے دلچسپی دکھاتے ہوئے کہا ۔۔اچھا پھر تو اپنا کام ہوجائے گا ۔
دونوں نے آدھی رات کے بعد دکان کا تالا توڑا اور دکان میں گھس گئے ۔ادھر بوڑھے دکاندار کو نہ جانے کیا کام یاد آیا اور وہ بھی خلاف توقع دکان پر آیا ۔دکان کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اچنبے میں پڑھ گیا ۔وہ ابھی حیرانی کے عالم میں گم سم ہی تھا کہ اندھر سے چور باہر آئے ۔اس نے چلانا شروع کیا ۔۔۔چور چور ۔۔۔چ چ چور۔۔۔۔۔
چور بھاگنے لگے تو اس نے ان کو پکڑنے کی کوشش کی اور جاوید کو پکڑا ۔جاوید نے بوڑھے دکاندار کی پکڑ سے خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ چھوٹ نہ سکا ۔اسی اثنا میں مختار نے جاوید کو چھڑانے کی کوشش میں دکاندار کو سر پر ایک ڈنڈے سے مارا ۔دکاندار نیچے گر گیا لیکن مختار کی ٹانگیں ابھی بھی اس کی گرفت میں تھیں ۔
جب کوئی صورت بن نہ پڑھی تو جاوید نے ایک بڑا پتھر دکاندار کے سر پر مارا جس سے وہ موقعے پر ہی وفات پا گیا۔
اگلے دن پورے بازار میں سناٹا چھا گیا ۔پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر تفتیش شروع کی ۔ کچھ دنوں کے بعد پولیس نے جاوید اور مختار کو گرفتار کیا اور پوچھ تاچھ میں دونوں نے اقبال جرم کیا ۔گاوں میں جب یہ خبر پہنچی تو جاوید کے والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ وہ افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکے ۔جب مجرموں کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جاوید کا چہرہ جج صاحب کو دیکھ کر لال پیلا ہوگیا ۔وہ جرم پر اتنا شرمندہ نہیں تھا جتنا وہ جج صاحب کو دیکھ کر ہوگیا۔جج کوئی اور نہیں بلکہ جاوید کا پڑوسی اور بچپن کا دوست ہلال تھا اور وکالت کرنیوالا ارشید تھا ۔
کاروائی شروع ہوتے ہی جج صاحب نے جاوید سے کہا۔۔جاوید یہ کیا کیا تم نے ۔
بچپن میں اخروٹ اور مکی کی چھلیاں چراتا تھا اور آج قاتل بن گیا ۔۔اور یہ مختار وہی ہے نا جس نے تجھے اسکول کے آنگن سے دور نشے اور جرم کی کالی دنیا میں دھکیل دیا ۔
جج صاحب نے جاوید کے والدین کو کٹھ گرے میں کھڑا کرکے پوچھا ۔۔آپ کو بیٹے کے بچاؤ میں کچھ کہنا ہے ۔
وہ دونوں شرمندہ ہو کر رو رہے تھے ۔
ادھر بیٹے جاوید نے جج صاحب سے کہا ۔۔جناب یہ کیا کہیں گے ۔انہوں نے مجھے کبھی ٹوکا ہی نہیں بلکہ ،یہ دونوں میری چرائی ہوئی چیزیں خوشی خوشی کھاتے تھے ۔اگر کسی دن کچھ نہیں لاتا تو یہ نہ لانے کی وجہ پوچھتے ۔
مختصر بحث و مباحثے کے بعد جج صاحب نے افسوس کے ساتھ دونوں کو با مشقت عمر قید کی سزا سنا ئی
اور جاوید کے والدین سے کہا۔۔۔اگر آپ نے بروقت اس کو برائی سے روک لیا ہوتا تو شاید آج آپ کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑھتا ۔
�����
ملک منظور
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں