مشاہیر ادب سے ایک نشست 192

مشاہیر ادب سے ایک نشست

ندائے ادب 03

مہمان :
محترم ایم آئی ظاہر
میزبان:
افتخار الدین انجم

ہمارے آج کے مشاہیر ادب کی مہمان شخصیت ہیں محترم جناب ایم آئی ظاہر صاحب ۔ ایم آئی ظاہر صاحب ادبی و صحافتی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
ایم آئی ظاہر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسی شہرت و عزت عطاء فرمائی جو سرحدوں کے حدود و قیود سے آزاد ہے
گاہے بگاہے ایم آئی ظاہر صاحب سے ہندوستان و پاکستان کے مختلف اخبارات و صحافتی ذرائع مختلف انٹرویوز کی صورت ہمیں ملواتے رہتے ہیں۔
مگر ہمارا آج کا انٹرویو چونکہ مشاہیر ادب سے ایک نشست کے عنوان سے ہے ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ ہم شخصیت پردازی کے بجائے ادبی و صحافتی نوعیت کے سوالات پر ہی فوکس رکھیں۔
تو آئیے چلتے ہیں سوالات کے سلسلے کی جانب۔
سوال : آپ کا تعارف مختصراً ؟
جواب : ایم آئی ظاہر شاعر ۔ پرنٹ ٹی وی اور ڈیجیٹل کے حقوق انسانی سے وابستہ کثیرالسانی بین الاقوامی مشنری صحافی برائے امور خارجہ نیوز ریڈر نیوز اینکر اسکرپٹ رائٹر۔
سوال: آپ کونسے اخبار/ رسالہ سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں؟
جواب : پہلے اردو روزنانہ قومی آواز سے وابستہ۔اب عالمی سطح پر کثیرالسانی آزادانہ صحافت سے منسلک ہوں۔۔
سوال:اردو کی بقاء میں اردو اخبارات و رسائل کا کیا کردار رہا ہے ؟
جواب: اردو کی بقا میں اردو اخبارات و رسائل نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ تیس برس پہلے تک کی بات ہے میں اس میں اضافہ کرنا چاہونگا کہ یہ وہ دور ہے جس میں اردو ٹی وی چینلز ،اردو پورٹل،اردو ویب سائٹس اور اردو ریڈیو بھی اردو زبان و ادب اور صحافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسے آپ صرف بر صغیر ہندوپاک تک محدود نہیں سمجھیں۔مشرقی ممالک میں بھی اردو زبان نے ترقی کی ہے۔ میں نے اپنی تنظیم عالمی تحریک اردو صحافت کے کنوینر کے طور پر اردو صحافت کے دو سو برس ہونے بر دنیا بھر میں اردو کی صورت حال کا جائزہ لیا اور دنیا بھر میں اردو کے صحافیوں ادبا اورشعراءسےرابطہ ہوا۔مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکہ، انگلینڈ، جرمنی، ہالینڈ، نیدرلینڈ، جاپان اور اسپین وغیرہ کئی ممالک میں بھی اردو زبان و ادب کے ساتھ اردو صحافت ہر شکل میں موجود ہے۔سعودی عرب میں تو عربی اور انگریزی کے بعد یہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ وہاں یہ سوچ کر افسوس ہے کہ کتابت ختم اور کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور موبائل کے دور میں دوسری زبانوں کے میڈیا نے جتنی ترقی کی،اردو صحافت نے اتنی ترقی نہیں کی۔پورے برصغیر میں بھی اردو کے دو سو بڑے اخبارات نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ اردو صحافت نے دو سو برسوں میں محض دو قدم کا ہی سفر طے کیا ہے۔اردو صحافت کو ابھی نئی شاہراہوں پر لمبا سفر طے کرنا ہے ۔
سوال :آج کے جاری اخبارات و رسائل کے معیار سے کیا آپ مطمئن ہیں ؟
جواب : میں آج کے اخبارات و رسائل کی اشاعت کی ستائش کرونگا کہ سرکولیشن اور اشتہارات کی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ ‌وہیں سوشل میڈیا اور مہنگائی کے دور میں اخبار نکال رہی ہیں۔یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ اردو صحافت تراجم اور سوشل میڈیا کی محتاج نظر آرہی ہے۔ یہاں میں عالمی لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے جرمنی میں رہ رہے عالمی شہرت یافتہ صحافی۔ شاعر اور افسانہ نگار جناب عارف نقوی صاحب کا جملہ کوٹ کرنا چاہونگا۔میں ان کی بات سے اتفاق رکھتا ہوں۔انہوں نے اردو صحافت کے دو سو برس پر خاکسار کی تنظیم عالمی تحریک اردو صحافت کی جانب سے منعقد عالمی سمینار میں کہا تھا-“اردو کو عوام کی زبان بنائیں۔ جب یہ عوام کی زبان بنےگی تو اخبار بھی بڑھیں گے اور اردو میڈیا کو بھی فروغ ملےگا۔ اردو صحافت گرامر اور قوانین کے بارے میں سوچیں اور اپنی زبان ‌مضبوط بنائیں ہمیں زبان کے مسائل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔اردو صحافت نے 80 فیصد آبادی کو نظرانداز کر دیا ہے۔ہم اردو کو دیہات میں نہیں لے گئے۔ ہم نے اردو کو مزدوروں اور کسانوں کی زبان نہیں بنایا۔ انہوں نے کہا کہ صحافت میں زبان کو نظرانداز نہ کریں۔ ڈیجیٹل جرنلزم اردو زبان خراب کر رہا ہے‌ ۔ آج اردو کو رومن اسٹائل میں لکھا جا رہا ہے۔ آج زبان مختلف پہلو سے غور کر کے نہیں لکھ رہے ہیں۔اردو صحافت کے لیے ایسی زبان تیار کریں،جس زبان کو سبھی استعمال کریں،ظاہر کو ظہیر لکھ رہے ہیں،اس لیے ڈیجیٹل جرنلزم میں آسان الفاظ لکھیں۔
سوال :جس تعداد میں اخبارات و رسائل کی اشاعت میں اضافہ ہورہاہے عموماً دیکھا گیا ہے کہ اس اس تعداد میں قارئین میں اضافہ نہیں ہورہا آپ کے خیال میں اسکی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
جواب : میرے خیال سے اس موضوع پر میں اپنی بات تفصیل سے کہہ چکا ہوں۔
اخبارات کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بات زمینی سطح پر بھی نظر تو آے۔ قاری تو ای پیپر اور ویپ پورٹل اور ویبسائٹ پر خبریں بڑھ دیکھ اور سن رہا ہے۔ ناظریں اردو رسم الخط سے واقف تھے اردو دوست بھی اردو ٹی وی کا ناظر ہے۔میں نہیں مانتا کہ آپ اردو اخبارات کے ایڈیشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں نے اخبار خریدنے کے بجائے موبائل ای پیپر، ویبسائٹ اور پورٹل کی عادت ڈال لی ہے۔ اس فیکٹر کا اخبارات پر بھی اثر تو پڑا ہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں