مشاہیر ادب سے ایک نشست 182

مشاہیر ادب سے ایک نشست

ندائے ادب

02

 

 

مہمان :
محترمہ رفعت وحید صاحبہ
میزبان:
افتخار الدین انجم

مشاہیر ادب سے ایک نشست میں ہماری آج کی مہمان ہیں معروف مصنفہ اور خوبصورت لب و لہجہ کی شاعرہ محترمہ رفعت وحید صاحبہ۔ رفعت وحید صاحبہ نے بہت کم وقت میں اردو ادب میں بہت منفرد مقام حاصل کیا ہے۔
آئیے تو چلتے ہیں سوالات کے سلسلے کی جانب اور پوچھتے ہیں وہ تمام سوالات جن کے جوابات کے آپ رفعت وحید صاحبہ سے منتظر ہیں۔
سوال ۔ اصلی نام ؟
جواب : رفعت سلطانہ
سوال ۔ قلمی نام ؟
جواب: رفعت وحید
سوال ۔ پیدائش؟
جواب : 4 اپریل 1982راولپنڈی)
سوال ۔ تعلیم؟
جواب: ایم اے اردو (لسانیات)
سوال ۔ : بہن بھائی؟
جواب: 5 بہن بھائی ہیں۔ 3 بہنیں اور 2 بھائی
سوال ۔ اردو ادب کے حوالے سے ہمارے قارئین کو بتائیے گا کہ آپ کن اصناف ادب پر کام کر رہی ہیں اور کیا کوئی تصنیف اب تک منظر عام پر آچکی ہے یا مستقبل میں آنے کا امکان ہے ؟
جواب : میں نے نظم ، غزل اور نثر میں طبع آزمائی کی۔ میرے دو شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔
•سمندر استعارا ہے (اردو)
•اکھراں پیڑاں بوئیاں (پنجابی)
سوال ۔ آپ کی پسندیدہ صنف ادب ؟
جواب: مجھے غزل کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے
سوال ۔ آپ ادب کی طرف کب اور کیسے آئے ؟
جواب: میں نے ساتویں جماعت سے شعر کہنا شروع کیا اور باقاعدہ طور پر مشاعروں میں شرکت 2004سے کی ۔
سوال ۔ آپ کی نظر میں اردو ادب کو اس وقت کن مسائل کا سامنا ہے؟
جواب: اردو ادب کے مسائل سے زیادہ شاید ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری زبان اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
سوال ۔ اردو ادب کی ترویج کے لیے ہم میں سے ہر شخص انفرادی طور پر کیا کر سکتا ہے؟
جواب: کسی بھی زبان کے ادب کی ترویج تبھی ممکن ہوتی ہے جب وہ لسانی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زبان اور ادب ترقی کریں تو سب سے پہلے زبان کو اہمیت دینا ہو گی جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے اردو کے ادیب بھی جنہیں اگر چند جملے یا الفاظ انگریزی کے آتے ہوں تو وہ کوڈ-مکسنگ اور کوڈ-سوئچنگ کرکے اپنی گفتگو میں لازمی گھسیڑتے ہیں انہیں ہماری آنیوالی نسلیں انگریزی زبان میں فخر اور اردو بولنے میں کمتری محسوس کرتی ہیں تو پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان و ادب ترقی کریں گے؟
سوال ۔ اردو ادب کے لیے پاکستان و ہندوستان کو بطور ریاست کیا کرنا چاہیے ؟
جواب: دونوں ممالک کو سب سے پہلے اردو کو بطور زبان اہمیت دینی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید سو سال بعد ورڈ بوروئنگ کے نتیجے میں ہماری زبان کا چہرہ تک مسخ ہو جائے گا اور شاید 500 سال بعد اس زبان کی ہئیت ہی بدل چکی ہوگی۔
سوال ۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو خود کو کیسے پروان چڑھائے؟
جواب: اردو بولنے میں یا لکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے زبان کی بقا اسی میں ہے۔

سوال ۔ ماضی میں جتنے شعراء و ادباء نے اردو ادب کے لیے کام کیا بہت معیاری ہوا کرتا تھا ۔مگر اب وہ تصانیف و تخلیقات میں معیار نظر نہیں آتا آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب: دیکھیں ایک تخلیق کار صرف وہ چیز تخلیق کرتا ہے جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اردو کی بطور زبان اتنی بے قدری کی گئی کہ آج کی نسل نو کیلیے ادیب فقط مسخرے بن چکے ہیں جو انہیں چند لمحوں کیلیے محضوض کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو اردو بولنا اپنی توہین سمجھتا ہے وہ حقیقی ادب کو کیا سمجھ سکتا ہے؟ اس نے ڈیمانڈ اس کی کرنی ہے جو اسے لطف دے نہ کہ عکاسی کرے۔ اسے لطیفہ سنایا جائے یا شعر اس کیلیے برابر ہے۔ اور اس نے گھٹیا سے لفظوں کے گٹھ جوڑ کی ڈیمانڈ کرنی ہے تو تخلیق کار نے وہی تخلیق کرنا ہے۔
سوال ۔ اپنے تجربے کے نچوڑ کی بنیاد پر تخلیق کاروں کےلئے کوئی خوبصورت پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
جواب: صرف تخلیق کاروں کو نہیں بلکہ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ یہ ایک زبان ہے اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اسے بولنا کوئی کم پڑھے لکھے ہونے کی دلیل نہیں۔ سرکاری سطح پر بھی نصاب ہماری قومی زبان میں لکھا جانا چاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ اس زبان کا اپنا وجود ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بدقسمتی سے ہمیں پھر یہ لسانی سائینس کی بات مان کر یہ زہر اپنے اندر انڈیلنا ہو گا کہ زبان کسی بھی شکل میں ہو کوئی بھی ہو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ زبان ہماری تہذیب کی عکاس بنے تو اس کیلیے وینٹیلیٹر پر پڑی اس زبان کو زندگی دینی ہو گی۔۔
���

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں