85

وادی کے اطراف واکناف میں تعمیراتی سامان کی قیمتیں آسمان کوچھو رہی ہے /غریب کنبوں کاآشیانہ تعمیرکانا مشکل ہی نہیں ناممکن
سرینگر24جون/مرکزی زیرانتظام علاقے وادی کشمیر میں غریبوں کاآشیانہ تعمیرکرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تعمیراتی سامان کی قیمت آسمان کوچھورہی ہے اورانتظامیہ کی خاموشی انتہاء تک پہنچ گئی ہے کروناوائرس کی وبائی بیماری کی آڑ میںتمام غیرقانونی سرگرمیاں جس سے عام لوگوں کے مشکلات میںاضافہ ہو رہاہے شدومد سے جاری ہے اورانتظامیہ صرف کروناوائرس کی وبائی بیماری اورامن قانون کی صورتحال کوبرقراررکھنے تک محدود ہوگئی ہے عوام کن مسائل و مشکلات سے دوچارہیں ان کی طرف توجہ مبزول کرنا بے معنی ہی سمجھتی ہے ۔خبروںکے مطابق قصابوں،کوٹھداروں، کریانہ فروشوں ،سبزی بیجھنے والوں، میوہ فروشوں نان وائیوں کے آگے انتظامیہ نے پہلے ہی سرنڈرکردیاتھا اوراب تعمیراتی سامان فروخت کرنے والوں نے بھی لوٹ کھسوٹ کاایسا بازار گرم کردیاہے جس کی کہی مثال نہیںمل پارہی ہے اینٹوں کی قیمتیں آسمان کوچھو رہی ہے تین ہزاراینٹوں کی قیمت35-40ہزار روپے پھترفی گاڑی 5-6ہزارروپے ریت 10سے گیارہ ہزارسیمنت لوہااعمارتی لکٹری اور دوسراتعمیراتی سامان منہ مانگی رقم کے عوض فروخت کیاجارہاہے نہ ہارڈ وئرچلانے والوں کے پاس کوئی ریٹلسٹ ہے اورنہ سرکار نے کوئی ہی قیمت مقررکی ہے جس کے نتیجے میں وادی کشمیرمیں غریبوں کوآشیانہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن گیاہے ۔پچھلے تین ماہ کے دوران تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں 30,35%کااضافہ ہوا ہے اور یہ سامان فروخت کرنے والوں کی طر ف انتظامیہ کوئی تو جہ نہیں دے رہی ہے ندی نالوں سے غیرقانونی طور پرریت باجری نکلانے والے نہ سرکار کارائلٹی دے رہے ہے اورنہ ہی انہیں اس بات کااحساس ہے کہ وہ وادی کشمیرکے مستقبل کوکس طرح دلدل میں پھنسارہے ہے اوردوسری جانب عوام کودودہاتھوں لوٹنے میں بھی کوئی کسرباقی نہیں چھوڑرہے ہے ۔وادی کشمیرمیں کھانے پینے کا سامان ہو پوشاک کی قیمت ہو غرض کسی بھی شئی کیلئے کوئی قیمت مقرر نہیں ہے بلکہ ایسی اشیاء فروخت کرنے والے خود ہی قیمت بھی مقررکرتے ہے اورلوگوں سے پیسے بھی وصول کرتے ہے ۔انتظامیہ کاکام ہوتا ہے حالات پرنظر گزررکھناتاکہ عام شہریوں کو مشکلات سے نہ گزرناپڑے مگروادی کشمیرکابآورآدم ہی نیرالاہے سرکاری دفتروں کارخ کرے تویونین ازم نے تمام سرکاری اداروں کے کام کاج کو یا تومفلوج بنادیاہے یاہاء جیک کیاہے سرکاری اداروں میں رشوت کے قصے اب کوئی نئی بات نہیں ہے کسی بھی صورت میں فائل جوعوامی اہمیت کی حامل ہو یاکسی کی ذات سے تعلق رکھتی ہوایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک اس وقتت ک نہیں پہنچتی ہے جب تک نہ سرکاری بابوں کی جیب گرم کئے جائے اورہفتے مییں سات دن ان کادیدارنہ کیاجائے لاقانونییت کی تمام سرگرمیاں اس وادی کشمیرمیںانجام دی جارہی ہے اورانہیںقانونی جوازیت کی بھی جاتی ہے یقین ناآئے تو یایہ بات پرکھنے کی سرکار نے گوشت کی قیمت چار سوچالیس وپے فی کلومقررکی ہے لیکن قصاب چگ سوکے حساب سے فی کلوفروخت کرتے ہے دال روٹی کی نرغ کسی کومعلوم نہیں ہے اینٹوں کی قیمت سرکار نے دو برس پہلے مقررکی تھی ارو22سے 25ہزارروپے تین ہزاراینٹوں کی قیمت لازمی بن گیاتھامگراینٹ مالکان سرکار کی جانب سے مقررکی گئی قیمت کوماننے کے لے تیار نہیں ہے ریت اور باجری پانچ ہزارروپے فی گاڑی کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے اب ریت11ہزار روپے اور باجر ے 8ہزارروپے ادا کرنی پڑتی ہے سیمنٹ 450روپے فی بیگ قیمت مقررکیاگیاتھا مگراب 550-600 کے حساب سے بازار میں دستیاب ہے ۔ہر ایک شئی مہنگے داموں فروخت ہورہی ہے کسی ریاست کے قیمتوں کے ساتھ جموں کشمیرکی قیمتیں میل نہیں کھاتے ایک عجیب سی صورتحال ہے جہاں زمینی سطح پرسرکارکہی دکھائی نہیں دے رہی ہے کرواناوائرس کی وبائی بیماری اور امن قانون کی صورتحال کوبرقراررکھنے کی میں تمام غیرقانونی کارروائیوں کوانجام نہیں دیاجارہاہے اور سرکارجیسے بے خبر ہوکررہ گئی ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق سرکار اور اس کے کل پروں سے آنکھوں پرپٹی باندھ لی ہے انہیں عوامی مشکلاتد دکھائی نہں دے رہے ہیں وہ ہرماہ ہزاروں کی تنخواہیں وصول رکے اپنی ضرورتوں کوپوراکرتے ہے عام لوگ جنہیں دو وقت کی روٹی کے لئے بھی ترسناپڑتاہے ان پر کیاگزرتی ہے سرکار کواسکاکوئی احساس نہیں ہے ۔ اے پی آئی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں