Ghazzel 0

غزل


پرویز مانوس

پاؤں جکڑے ہوئے زنجیر کا دکھ بانٹ سکے
کون ہے جو یہاں رہ گیر کا دکھ بانٹ سکے

لوگ تصویر اُٹھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کاش کوئی مرے کشمیر کا دکھ بانٹ سکے

سر قلم جھو ٹی گواہی سے ہوئے ہیں کتنے
کوئی سچ بول کے شمشیر کا دکھ بانٹ سکے

زندگی وقت کے تسخیر کا میدان بنی
کون ہے جو کسی تسخیر کا دکھ بانٹ سکے

ہر قدم زخم ہیں، زنجیر سی بجتی ہے یہاں
کوئی کیا خاک اس تقدیر کا دکھ بانٹ سکے

رات بھر خواب کے صحرا میں بھٹکتے ہیں لوگ
کون امید کی تنویر کا دکھ بانٹ سکے

ہم تو پلکوں پہ اٹھاتے ہیں غمِ ہستی کو
کاش کوئی دلِ دلگیر کا دکھ بانٹ سکے

پھول مرجھائے تو خوشبو بے سمت ہوتی ہے
کون صحرا کے اس جاگیر کا دکھ بانٹ سکے

دل جلا، راکھ ہوا، آنکھ بھی پتھر بن گئی
کوئی آنکھوں کے اس تیر کا دکھ بانٹ سکے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں