0

کچھ دیرتورُک جاتے ……

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

رات نہ جانے کتنی بیت چکی تھی ۔بجلی بھی نہیں تھی اوربارش مسلسل برس رہی تھی۔ کمرے کے اندراورباہرکچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا جس کی وجہ سے میں ہڑبڑاتاہواجاگ گیا۔وقت دیکھنے کے لئے میںنے اپنی کلائی کی گھڑی کافی ڈھونڈی مگراندھیرے کی وجہ سے مل نہ سکی ۔میںنے اپنے پاس رکھاہواریڈیوآن کیاکہ شاید اناؤنسروقت بتائے مگروقت کاپتہ نہ چل سکاالبتہ ریڈیوپریہ گاناچل رہاتھا… ’’کچھ دیرتورک جاتے برسات کے بہانے‘‘
مجھے وقت معلوم نہ ہوسکا۔میںگانے کے بول پردھیان دے ہی رہاتھا کہ میری نظردروازے کی جانب اٹھی اورمیںنے اسے اندرآتے ہوئے دیکھا۔شاید میں سونے سے پہلے اندرسے دروازہ بندکرنا بھول گیاتھا۔ بارش کی اس گھپ اندھیری رات میں اسے اچانک اندرآتے دیکھ کرمیں بے حسی کی حالت میں اس کے استقبال کے لئے کھڑاہوگیا۔مجھے اس کے اس طرح اچانک آنے کی ذرابھی امیدنہ تھی۔ اس لئے میںیہ فیصلہ ہی نہیں کرسکاکہ میں اس کااستقبال کیسے کروں۔ اسے سلام کروں، اس سے بغل گیرہوجاؤں یا اس کا ماتھاچوموں؟ میری آنکھوںسے بے اختیار آنسوبہہ نکلے۔ میری زبان لڑکھڑا نے لگی۔ ہونٹ خشک ہوگئے۔ پاؤں تھرتھرانے لگے۔ میں مشکل سے کھڑا رہنے کی کوشش کررہاتھا۔میری سمجھ میں ہی نہیں آرہاتھاکہ کیاکروں اور کس طرح سے اس کااستقبال کروں کیونکہ وہ اتنی مدت کے بعدبغیرکسی اطلاع کے آرہی تھی ۔
میںاس کی اچانک آمدپرخوشی اورحیرت کے امتزاج سے مانوپاگل ساہوگیا تھا اورکچھ بھی فیصلہ نہ کرپارہاتھا۔میںنے بڑی مشکل سے لڑکھڑاتی اورلکنت بھری زبان سے اسے صرف اسلامُ علیکم کہا۔اس نے اس کاجواب دیاکہ نہیں میںنے نہیں سنا۔ میںنے دل ہی دل میں اس سے سوالات پوچھنے کی فہرست مرتب کرناشروع کی کہ پہلے یہ سوال پوچھوں گاپھروہ بات دریافت کروںگا پھر… اورپھروہ جواب دے گی۔ میری خیروعافیت پوچھے گی اورپھرمیرے دوسرے حالات کے بارے میں دریافت کرے گی۔ وغیرہ وغیرہ، مگرایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ صرف خاموش کھڑی کھڑی مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی ۔ایسالگتا تھا کہ وہ میرے حالات کابخوبی جائزہ لے رہی ہے۔ ایک دوبارتومجھے ایسالگا اس کی آنکھیں اشکبار ہورہی ہیں۔ میںاس سے اس کی وجہ نہ پوچھ سکا۔ اسے دیکھتے دیکھتے ہی میراپیٹ نہ بھررہاتھا۔ میںاپنے آپ کوزبردستی یہ یقین دلانے کی کوشش کررہاتھاکہ وہ واقعی گھرواپس لوٹ آئی ہے اورمیں مارے خوشی کے پھولے نہ سمارہاتھا۔اب میںنے اپنے حواس پرقابو پالیاتھا اس لئے بڑی ہمت جٹاکر میںنے اس سے پوچھ ہی لیا’’اتنی دیربعد تجھے میری یاد کیسے آئی‘‘ اتنی دیرتک تو کس طرح میرے بغیر رہ پائی، میںتوتیرے بغیرپل پل مررہاتھا۔اتنی مدت میں نے تیرے بغیر کیسے گذاری یہ میں ہی جانتا ہوں۔ دنیا کی ہرچیز مجھے سونی سونی لگتی تھی، ہرطرف مایوسیاں اورویرانیاں دکھائی دیتی تھیں ۔مجھے کسی بھی چیزمیں نہ تودلچسپی تھی اورنہ کسی شے میں لطف آرہاتھا۔بس تیرے بغیرمیرا جینا مشکل ہوگیاتھا۔ ہرکسی سے کہناکہ مجھے جینے میں مزہ ہی نہیں آرہاہے میرا روز مرہ کامعمول بن گیاتھا۔میرایہ دکھڑا ایک دوبارتو ہرکوئی سنتا تھامگرجب میں ایک ہی بات باربار دہراتاتولوگ میرامذاق اڑاتے ۔وہ مجھ سے بات کرنے سے کتراتے تھے۔وہ مجھے دیکھتے ہی کہتے ’’لووہ آگیا‘‘ دیکھ ابھی شروع کرے گااپنی رام کہانی ،میرایہاں دل نہیں لگتا، میں مرنا چاہتاہوں۔ اب کیامزہ رہا ہے اس جینے میں…لوگ ہرروزمجھے طرح طرح کی باتیں سناتے تھے، چلو اب اچھاہوا۔پھرسے اجڑے دیارمیں بہارآئی ،وہی زندگی کامزہ ،وہی رونق، وہی چہل پہل جیسے پہلے تھی اب پھرہوگی !!!…!
باہراب بھی گھپ اندھیراتھااوربارش مسلسل ہورہی تھی لگتاتھاکہ رات کافی بیت چکی تھی۔ اب فجرکی نماز کاوقت ہونے والاتھامحلہ کی مسجدسے موذن نے اذان دیناشروع کی۔میں اذان کی آوازکی طرف متوجہ ہوا۔وہ بھی انمہاک سے اذان کے الفاظ دہراتی اوریہ کہتی ہوئی کمرے سے باہرجانے لگی ۔ بیٹا! خدا حافظ! میں اب چلتی ہوں۔میں نے اتنی ہی اجازت لی تھی۔ میں صرف تیرا حال معلوم کرنے آئی تھی۔ اپناخیال رکھنابیٹا! یہ کہہ کروہ کمرے سے باہر نکل گئی۔دور۔بہت دور۔اورمیں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
یہ میری ماں تھی جسے میںنہ جانے خیال میں یاعالم خواب میں ایک سراب کی طرح دیکھ رہاتھا۔
میرے لبوں پریہ الفاظ آکرایسے منجمدہوکررہ گئے۔
’’ماں!کچھ دیرتورک جاتے …‘‘
����


������

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں