67

سوپور قتل عام کے زخم ہنوز تازہ

25برسوں سے متاثرین انصاف کے متلاشی

 

وتستا رپورٹ

سوپور میں6جنوری1993کو سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) اہلکاروں نے مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق75عام شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا،جبکہ چھوٹا لندن کے نام سے مشہور سوپور بازار کو بھی نذر آتش کیا۔کشمیر کی تاریخ میں اس خونین سانحہ کو بدترین قتل عام کے بطور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔مشہور رسالہ’ٹایم میگزئن‘‘ نے18جنوری1993کو اس واقعے سے متعلق خبر کی رپورٹ کو’’خونی لہر میں اضافہ‘‘ کا عنوان دیا۔چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ6جنوری 1993کو سردی کی لہر جاری تھی،جبکہ صبح کے وقت9بجکر30منٹ3سے4عسکریت پسندوں نے سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) کے ایک پلاٹون کو بابا یوسف لین کے نزدیک نشانہ بنایا،جس کے دوران ایک اہلکار ہلاک ہوا،جبکہ ایک عسکریت پسند نے بی ایس ایف اہلکار سے بندوق چھین لی۔اس دوران بی ایس ایف اہلکارحشم ناک ہوگے،جس کا خمیازہ عام لوگوں کو اٹھانا پرا۔چشم دید گواہوں کے مطابق قریب9بجکر55منٹ پر فائرینگ کے ادھ گھنٹے کے بعد بابا یوسف لین سے کچھ5 کلو میٹر دور قائم سرحدی حفاظتی فورس کی94بٹالین کیمپ کے اہلکار اپنی بارکوں سے باہر آئے،اور عام شہریوں پر اپنے بندوقوں کے دہانے کھولتے ہوئے آگ اگل دیا،اور اندھا دھند فائرنگ کی،سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکاروں نے بعد میں پورے سوپور بازار پر ’’گن پائوڈر‘‘ چھڑک دی اور اس کو نذر آتش کیا۔مختلف ذرائع سے حاصل اعداد شمار کے مطابق زنانہ ڈگری کالج اور معروف صمد ٹاکیز سمیت120مکانات اور350دکانات کو راکھ کر دیا گیا۔آگ بجھانے والے عملہ نے میڈیا کو بتایا’’ ہم پر بندوقیں تان دی گئی،اور آگ بجھانے کی اجازت نہیں دی گئی،جبکہ ہمیں بچائو آپریشن شروع کرنے میں مزید3گھنٹے لگ گئے،اہلکاروں نے زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیںرونما ہونے کیلئے ہر ایک سبیل کو پیدا کیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرحدی حفاظتی فورس اہلکاروں نے’’ایس آر ٹی سی‘‘ بس کو بھی نشانہ بنایا،جو سوپور سے بانڈی پورہ کے راستے پر تھی۔اس بس میں25مسافر جل کر خاکستر ہوئے۔اس سانحہ عظیم میں بچنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے’’ میں اس واقعے کو کسی بھی طور پر فراموش نہیں کرسکتا،جب بی ایس ایف اہلکار نے ایک ماں کی گود سے اس کے بچے کو چھین لیا،اور اس کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیا،اور جب والدہ نے اپنے بچے کی واپسی کیلئے گڑ گڑا رہی تھی،اس کو بھی گولی مار دی گئی۔یہ واقعہ مجھے زندگی بھر تڑپائے گا‘‘
سوپور قتل عام
وادی کے شمالی قصبہ سوپور میں6جنوری1993کو سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) اہلکاروں نے مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق75عام شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا،جبکہ چھوٹا لندن کے نام سے مشہور سوپور بازار کو بھی نذر آتش کیا۔کشمیر کی تاریخ میں اس خونین سانحہ کو بھارتی فورسز کی طرف سے کیں گئے بدترین قتل عام کے بطور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔مشہور رسالہ’ٹایم میگزئن‘‘ نے18جنوری1993کو اس واقعے سے متعلق خبر کی رپورٹ کو’’خونی لہر میں اضافہ‘‘ کا عنوان دیا۔
چشم دید گواہوں کا اس قیامت خیز دن کے بارے میں کہنا ہے؛6جنوری 1993 کو سردی کی لہر جاری تھی،جبکہ صبح کے وقت9ب جکر30منٹ3سے4عسکریت پسندوں نے سرحدی حفاظتی فورس(بی ایس ایف) کے ایک پلاٹون کو بابا یوسف لین کے نزدیک نشانہ بنایا،جس کے دوران ایک اہلکار ہلاک ہوا،جبکہ ایک عسکریت پسند نے بی ایس ایف اہلکار سے بندوق چھین لی۔اس دوران بی ایس ایف اہلکارحشم ناک ہوگے،جس کا خمیازہ عام لوگوں کو اٹھانا پرا۔اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ1990سے کشمیر میں پیش آرہے معصوم شہریوں کے قتل عام کا ایک بڑا سانحہ ثابت ہوا۔قریب9بجکر55منٹ پر فائرینگ کے ادھ گھنٹے کے بعد بابا یوسف لین سے کچھ5 کلو میٹر دور قائم سرحدی حفاظتی فورس کی94بٹالین کیمپ کے اہلکار اپنی بارکوں سے باہر آئے،اور عام شہریوں پر اپنے بندوقوں کے دہانے کھولتے ہوئے آگ اگل دیا،اور اندھا دھند فائرنگ کی،سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکاروں نے بعد میں پورے سوپور بازار پر ’’گن پائوڈر‘‘ چھڑک دی اور اس کو نذر آتش کیا۔مختلف ذرائع سے حاصل اعداد شمار کے مطابق زنانہ ڈگری کالج سوپور اور معروف صمد ٹاکیز سمیت120مکانات اور350دکانات کو راکھ کر دیا گیا۔
آگ بجھانے والے ایک عملہ نے میڈیا کو بتایا’’ ہم پر بندوقیں تان دی گئی،اور آگ بجھانے کی اجازت نہیں دی گئی،جبکہ ہمیں بچائو آپریشن شروع کرنے میں مزید3گھنٹے لگ گئے،اہلکاروں نے زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیںرونما ہونے کیلئے ہر ایک سبیل کو پیدا کیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرحدی حفاظتی فورس اہلکاروں نے’’ایس آر ٹی سی‘‘ بس کو بھی نشانہ بنایا،جو سوپور سے بانڈی پورہ کے راستے پر تھی۔’’انہوں(بی ایس ایف اہلکاروں) نے بس کو بھی نذر آتش کیا،جبکہ دلدوز نظارہ یہ تھا کہ کسی بھی مسافر کو گاڑی سے نیچے اترنے کی اجازت نہیں دی گئی،اس بس میں25مسافر جل کر خاکستر ہوئے۔اس سانحہ میں بچنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں (بی ایس ایف)نے ایک باپ اور بیٹے کو بھی نشانہ بنایا جو ایک ٹرک میں اشیاء لوڑ کر رہے تھے۔
اس سانحہ عظیم میں بچنے والے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے’’ میں اس واقعے کو کسی بھی طور پر فراموش نہیں کرسکتا،جب بی ایس ایف اہلکار نے ایک ماں کی گود سے اس کے بچے کو چھین لیا،اور اس کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیا،اور جب والدہ نے اپنے بچے کی واپسی کیلئے گڑ گڑا رہی تھی،اس کو بھی گولی مار دی گئی۔یہ واقعہ مجھے زندگی بھر تڑپائے گا‘‘۔
پویس نے ایف آئی آر درج کی
پولیس نے اس واقعے سے متعلق ایک ایف آئی آر زیر نمبر 8/1993 اور 9/1993درج کیا ہے،جبکہ کسی درج کرنے کے بعد23جنوری 1993کو کیس کی تحقیقات مرکزی ایجنسی’’سی بی آئی‘‘ کے سپرد کی گئی۔ اس سانحہ کے بعد حکومت نے30جنوری1993کو جسٹس امرجیت چودھری کی سربراہی میں یک نفری کمیشن بھی تشکیل دیا۔30جنوری1993اور30اپریل1994کے درمیان،مذکورہ کمیشن نے صرف ایک بار جموں کشمیر کا دورہ کیا۔
انصاف میں تاخیر،انصاف کا انکار
بھارت کی سب سے اعلیٰ تحقیقاتی ادارے’’سی بی آئی‘‘(سینٹرل بیرو آف آف انوسٹی گیشن) نے کیس کی تحقیقات کیلئے20برسوں کا طویل عرصہ لیا۔جولائی2013میں مرکزی تفتیشی بیورو نے2علیحدہ تکمیلی رپورٹیں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر کی عدالت میں دائر کی،تاہم ان رپورٹوں کو’’سی بی آئی‘‘ نے منظر عام پر نہیں لایا۔
یکم اپریل 2012کو انسانی حقوق کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے ایک عرضی زیر نمبر SHRC/111/Sopore/2012 بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میںدائر کی،جس میں سوپور قتل عام کی تحقیقات کی اپیل کی گئی۔انسانی حقوق کے مقامی کمیشن نے اس عرضی کی بنیاد پر ریاستی پولیس کے سربراہ اور ضلع ترقیاتی کمشنر(ضلع مجسٹریٹ) کو سوپور قتل عام سے متعلق مکمل تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔29اپریل2012کو ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کی،جس میں پولیس نے کہا’’6 جنوری1993سے متعلق معاملے کیلئے تحقیقات کی گئی۔سید محمد الیاس نے پولیس تھانہ سوپور میں ایک تحریری شکایت درج کی،کہ فائرنگ کا واقعہ نیو کالونی سوپور میں پیش آیا،جبکہ ادھ گھنٹے کے بعد،سیکورٹی فورسز نے کچھ لوگوں،مسافروں،دکانداروں پر گولیاں چلائیں،جنہیں گاڑیوں اور دکانوں سے باہر نکالا گیا۔فورسز نے رہائشی مکانات،دکانات اور گاڑیاں بھی مین چوک سوپور میں نذر آتش کی،جن میں زنانہ کالج سوپور کی عمارت بھی شامل ہے۔کئی لوگ ہلاک ہوئے اور کئی زخمی ،جبکہ کروڑوں روپے کی جائیداد بھی آگ سے سے تباہ ہوگئی۔اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر 08/1993 زیر دفعات302,307, 463 آر پی سی،پولیس تھانہ سوپور میں درج کی گئی۔اس روز سیکورٹی فورسز نے بھی پولیس تھانہ سوپور میں ایک تحریری شکایت درج کی،جس میں کہا گیا کہ جنگجوئوں نے خوشحال متو سے مین چوک تک ہر چہار اطراف سے میں اہلکاروں پر فائرنگ کی،جس سے کئی اہلکار زخمی ہوئے۔فورسزنے دفاع میں واپس گولیاں چلائیں،جبکہ جنگجوئوں کے پاس موجود بارودی مواد پھٹنے سے،کئی سرکاری تنصیبات،ادارے،اور دکانات کو نقصان پہنچا،جبکہ کئی شہری گولیوں سے ہلاک ہوئے۔اس سلسلے میں ایک کیس زیر نمبر09/1993 زیر دفعات 302, 307, 463 RPC, 4(3) TADA, 3/25 AA, 4/5 ESA بھی د پولیس تھانہ میںدرج کیا گیا،اور دونوں کیسوں کی تحقیقات ’’سی بی آئی‘‘ نئی دہلی کے سپرد کی گئی‘‘۔17ستمبر2013کو حقوق انسانی کارکن محمد احسن اونتو نے بشری حقوق کے مقامی کمیشن میں جواب،

پیش کرتے ہوئے اس بات کی جانکاری چاہے کہ،آیا اس کیس کو عدالت کی ہدایات پر’’سی بی آئی‘‘ کو سپرد کیا گیا،یا براہ راست ریاستی حکومت،انتظامیہ یا پولیس نے،جبکہ اس بات کی بھی درخواست کی کہ اس سلسلے میں ریاستی رپورٹ کو کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے۔اس جواب میں مزید کہا گیا کہ پولیس تھانہ سوپور میں فائرینگ سے متعلق سرحدی حفاظتی فورس کی طرف سے دائر ایف آئی آر کو بھی پیش کیا جائے،جبکہ ریاستی سرکار کی طرف سے اس وقت کے حاضر سروس جج،جسٹس امرجیت سنگھ،ہریانہ ،پنجاب ہائی کورٹ کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات بھی کمیشن میں پیش کی جائے۔
سی بی آئی نے ہلاکتوں کی شناخت کی تصدیق کی
مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے پاس جو رپورٹ پیش کی،اس میں33شہریوں کی ہلاکت کی شناخت کی تصدیق کی گئی۔سی بی آئی کی رپورٹ انسانی حقوق کارکن محمد احسن اونتو کی طرف سے کمیشن میں دائر عرضی کے بعد پیش کی گئی۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن سے اس سانحہ کی نوٹس لینے کیلئے درخواست دائر کی تھی،جبکہ انہوں نے اپنی عرضی میں53شہریوں کی فہرست شامل کی تھی،جنہیں بی ایس ایف نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔سی بی آئی نے تاہم کمیشن کے پاس پیش کی گئی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں سوپور سانحہ میں مرنے والے33افراد کی شناخت کی۔سی بی آئی کے مطابق، شکایت گزار( محمد احسن اونتو) نے اپنی شکایت میں51 مہلوکین کی فہرست پیش کی ہے،تاہم جب اس کو تحقیقات کے دوران سی بی آئی کی طرف سے جمع کئے گئے ریکارڑوں سے ملایا گیا تو،یہ بات سامنے آئی کہ51میں سے صرف33مہلوکین کے نام تحقیقاتی ریکارڑ میں موجود ہیں۔
انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی ہدایت پر مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے21 اکتوبر2013کو کیس کی موجودہ نوعیت سے متعلق رپورٹ کمیشن میں پیش کیا۔سی بی آئی نے اس رپورٹ میں کہا کہ حکومت ہند کے محکمہ پرسنل اینڈ ٹرینگ کی طرف سے اجراء کی گئی نوٹیفکیشن نمبر 228 /3 / 93-AVD.IIمحرر 20-01-1993, کے تحت جموں کشمیر کی درخواست13 جنوری 1993کوتحقیقات کیلئے’’ڈی ایس پی ای‘‘ کے سپرد کیا،جبکہ ایف آئی آر زیر نمبر ، 8/93 پولیس تھانہ سوپور،کے کیس کو ریاستی حکومت کی ہدایت پر جانچ کیلئے کرائم برانچ سرینگر کے سپرد کیا۔سی بی آئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ،تحقیقات کے دوران،زخمی گواہ،اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوئے،اور انہوں نے فائرنگ و کراس فائرنگ کی تفصیلات فرہم نہیں کی۔رپورٹ کے مطابق اس صورتحال میں یہ بات ممکن نہ ہو سکیں کہ اس مبینہ واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی ہوسکیں۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شکایت گزار محمد الیاس بھی ’’سی بی آئی‘‘ کے سامنے نہیں آیا،تاکہ انہوں نے ایف آئی آر میں جو الزامات عائد کیں تھے،وہ انکو ثابت کرسکے۔سی بی آئی رپورٹ کے مطابق،اس لئے تحقیقات کے دوران یہ اس واقعے میں44 شہریوں کی ہلاکت اور14کے زخمی ہونے کی بات سامنے نہیں آئی کہ،انہیں کس نے ہلاک کیا۔
بی ایس ایف اہلکاروں کو
کورٹ مارشل میں سزائیں دی گئی

مرکزی تفتیشی بیورو کی طرف انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں سرحدی حفاطتی فورس نے تحقیقات کی پہل کی،جبکہ جنرل سیکورٹی فورس کوٹ اور بی ایس ایف نے ایک مکتوب زیر نمبر 06/1/93-CLO/BSF/5733محرر 11/10/2001 میں اس تحقیقات کے نتیجہ کے بارے میں خبر دی ،جس میں کہا گیا کہ،ملوث پی ایس ایف اہلکار اور افسراں کو بی ایس ایف ایکٹ1968کے تحت زیر دفعات 304, 307اور 436 r/w 34آر پی سی کورٹ مارشل کیا،اور اس دوران انہیں سزائیں بھی دگئی۔
جسٹس امرجیت نے تحقیقات نہیں کی
مرکزی تفتیشی بیورو’’سی بی آئی‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس امرجیت کی سربراہی میں یک نفری کمیشن کو بھی تشکیل دیا۔اس سلسلے میں کوششیں کی کی گئی کہ اس تحقیقات کی کاپی حاصل ہو،تاہم حکومت ہند نئی دہلی کے ڈائریکٹر،محکمہ امور جموں کشمیر،ائے کے سری واستا نے بتایا کہ سوپور واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس چودھری کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی معیاد30ستمبر1994کو پوری ہوئی اور اس کے بعد اس میں توسیع نہیں ی گئی۔اس لئے کمیشن آف انکوائری کی طرف سے تحقیقاتی عمل شروع ہی نہیں ہوا۔اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ،اس سلسلے میں کوئی رپورٹ پیش کی گئی۔
سی بی آئی نے کیس بند کیا
’’سی بی آئی‘‘ نے اس کیس کو بند کرتے ہوئے کہا کہ20سال پہلے ہی گزر چکے ہیں،اور اس دوران تحقیقات کے تمام پہلوئوں پر کام کیا گیا،تاہم مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پرکوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ قانون کی طرف سے قائم کیں گئے کورٹ نے پہلے ہی اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،اور سزائیں بھی دی گئی۔اس لئے سی بی آئی نے پیشگی میں ہی بیان کردہ حقائق اور صورتحال کے مد نظر عدالت میں کیس سے متعلق2علیحدہ تکمیلی رپورٹ17جولائی2013کوپیش کی۔
انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کی طرف ایک اور جوابی اعتراض
مرکزی تفتیشی بیورو کی طرف کیس بند کرنے کے بعد،انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے2دسمبر2013کو سی بی آئی رپورٹ پر جوابی اعتراض پیش کیا۔اونتو نے اپنے جوابی اعتراض میں سی بی آئی کی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔انہوں نے کہا’’منصفانہ،موثر ،مناسب اور آزادانہ تحقیقات عمل میں نہیں لایا گیا،اور حقیقت میں سی بی آئی ملوث بی ایس ایف اہلکاروں کو بچانے میں لگی ہے‘‘۔اس حوالے سے مرکزی تفتیشی بیورو نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کوئی بھی مقامی شہری یا چشم دید گواہ اس کیس میں’’رضاکارانہ طور پر سامنے نہیں آیا‘‘،یہ بیان لغو اور غلط ہے۔مزید اس بیان سے متاثرین،زخمیوں اور چشم دید گواہوں کے دل بھی رنجیدہ ہونگے،جو ہمہ وقت،تحقیقاتی ایجنسیوں،بالخصوص سی بی آئی کو تعاون دینے کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔ اونتو نے کہا کہ سی بی آئی نے کھبی بھی متاثرین اور زخمیوں کے علاوہ چشم دید گواہوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔عرض گزار کو اس بات کا علم ہے
کہ کئی لوگ آج بھی تحقیقات میں تعاون دینے کیلئے تیار تھے۔اس لئے سی بی آئی کا یہ بیان کہ لوگوں نے تعاون نہیں دیا،یہ مکمل غلط ہے۔مرکزی تفتیشی بیورو نے ایک اور رپورٹ18دسمبر2017 حقوق انسانی کے ریاستی کمیشن میں پیش کیا،تاہم اس رپورٹ میں سی بی آئی نے پہلے پیش کردہ رپورٹ کے برعکس اس بات کا اعتراف کیا کہ اس واقعے میں51شہری ہلاک ہوئے،اور ان کے نام بھی ظاہر کیں۔
چشم دید گواہ وںکی خون آشام سانحہ سے متعلق منظر کشی
اس واقعے کو گزرنے کے24سال بعد علی محمد جو اس وقت52برس کا تھا،اور جو بس میں زندہ بچنے والا واحد مسافر تھا،کا کہنا ہے’’اس قتل عام کے مناظر عمر بھر میرا تعاقب کرتے رہے گے‘‘۔ان کا کہنا ہے’’اس واقعے کو اب کئی سال گزرے ہیں،مگر میری کانوں سے اب بھی مسافروں کی چیخیں ٹکرا رہی ہے۔مجھے بس کنڈیکٹر کا چہرہ اب بھی یاد ہے،جو میرے ساتھ گولی لگنے سے قبل بات کر رہا تھا۔میں ایک اور نوجوان کو کھبی بھی فراموش نہیں کرسکتا،جس کو سنیما کے باہر گولی مار دی گئی،جب وہ اپنی جان بچانے کیلئے دوڑ رہا تھا۔میں ان مناظر کو بھی بھول نہیں سکتا،جب لوگ محفوط مقامات اور دکانوں میں اپنی زندگی بچانے کیلئے بھاگ رہے تھے،مگر انہیں زندہ ہی آگ کے سپرد کیا گیا‘‘۔علی محمد کا کہنا ہے’’ جو افسر فورسز کی کمان سنبھال رہا تھا،وہ ’’بھون دالوں سالوں کو‘‘ کی آوازیں لگا رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے تھے،کہ فورسز اہلکار ہر چہار اطرف سے اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے،اور اسی اثنا میں میرے دوست کنڈیکٹر عبدالرشید کی کرہ قلعی نیچے گر گئی۔
مہلوکین کے اہل خانہ کو مسائل کا سامنا
جہانگیر احمد اس وقت 16برس کا کمسن نوجوان تھا،جب اس کا والد غلام رسول شالہ،6جنوری کو سوپور قتل عام میں سرھدی حفاظتی فورس کی گولی کا شکار بنا۔اس کا کہنا ہے’’ میں اس وقت ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا،ہم2بھائی اور2بہنیں ہیں،کس نے بھی اس وقت سے ہماری خبر نہیں لی‘‘۔ان کا کہنا ہے’’ میرے والد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا،اس لئے انکی موت کے بعد،میرے دادا کو بہت سے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔انہوںنے سخت محنت و مشقت کے بعد ہمیں جوان کیا،تاہم بعد میں انکی آنکھوں کی بنیائی بھی جاتی رہیں،جبکہ میری دادی بھی ایک سال کے بعد اللہ کو پیاری ہوئی،کیونکہ اس نے اپنے بیٹے کی جدائی برداشت نہیں کی۔
سوپور قتل عام کا معاملہ فی الوقت بھی انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں زیر سماعت ہیں،اور متاثرین سوپور20سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف کے منتظر۔آنے والے وقت ہی طے کریں گا کہ اس عظیم سانحہ میں متاثر ہوئے لوگوں کو انصاف ملتا ہے،یا روز حشر وہ اس عدالت میں انصاف کے طالب ہونگے،جہاں ہر ایک نفسا نفسی کے عالم میں ہوگا۔اس کیس کی آئندہ شنوائی13فروری کو مقرر کی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں