تلاشِ یا ر 0

تلاشِ یا ر

الف عاجز اعجاز
‌‌

مورنی جیسی چال، ہرنی جیسی خوبصورت آنکھیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خوبصورت، چاند سے زیادہ خوبصورت چہرہ کیونکہ چاند میں داغ ہے، پنکھڑی سے زیادہ خوبصورت ہونٹ کیونکہ گلاب کے پتے سوکھ جاتے ہیں۔ غرض خوبصورتی کی مثال تھی ہامنہ۔ جو بھی دیکھے بس دیکھتا ہی رہ جائے۔
ہامنہ یونیورسٹی کے صحن میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی کہ آدہین کا گُذر وہاں سے ہوگیا اور ہامنہ کو دیکھتے ہی وہ دھنگ رہ گیا۔ پہلی نظر میں ہی دیوانہ ہو چلا اور جب تک ہامنہ وہاں بیٹھی رہی اُس کو بِنا آنکھ جھپکے مسلسل تکتارہا۔ ہامنہ وہاں سے چلی گئی تو آدہین کو ہوش آیا کہ وہ تو کلاس کے لئے نکلا تھا لیکن ہامنہ اُس کے ذہن میں بسی تھی، کلاس تک پہنچتے ہوئے آدہین اسی سوچ میں ڈھوبا رہا کہ وہ لڑکی کون تھی، اتنی خوبصورت، کہاں گئی ہو گی لیکن جیسے ہی کلاس میں داخل ہوا تو دیکھ کر حیران ہوا کہ ہامنہ پہلے سے ہی کلاس میں موجود تھی۔ آدہین کی خوشی کا تو ٹھکانہ نہ رہا۔ پوری کلاس میں اُس کا دھیان صرف اِسی طرف تھا کہ وہ ہامنہ سے دوستی کیسے کرے۔
گھر جاکر بھی وہ ہامنہ کو بھول نہیں پایا اُس کی یاد میں گُم رہا، صبح جلدی اٹھا اور تیار ہوکر یونیورسٹی چلا گیا۔ وہ یادوں میں ہی گُم تھا کہ پیچھے سے آواز آئی آدہین نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ہامنہ تھی۔excuse me
جی فرمائے آدہین نے پوچھا۔
ہامنہ: اسلام علیکم، جی میرا نام ہامنہ ہے۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔
آدہین: وعلیکم اسلام، جی فرمائے کیا بات ہے۔
ہامنہ: آپ بھی میری ہی کلاس میں ہیں نا میرا مطلب کل میں نے آپ کوکلاس میں دیکھا تھا تو اسلئے۔۔۔۔۔
آدہین: جی بالکل صحیح پہچانا آپ نے، کہیں کیا مدد کرسکتا ہوں آپ کی؟
ہامنہ: دراصل بات یہ ہے کہ میں نےکل آپ کے ہاتھ میں ” نمرہ احمد کی ناول دیکھی تھی “جنت کے پتّے “ میں نے اُس ناول کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا ہے لیکن کبھی پڑھنے کا اشتیاق نہیں ہوا۔ کل آپ کے ہاتھ میں وہ ناول دیکھی تو مجھ سے رہا نہیں گیا اگر آپ وہ ناول کچھ وقت کے لئے مجھے پڑھنے کے لئے دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ کی مہربانی ہوتی۔ وہ کیا ہے نا مجھے ناولیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔
آدہین: جی ضرور کیوں نہیں آدہین نے بیگ سے ناول نکال کر ہامنہ کو دے دی۔
ہامنہ: جی آپ کا بہت شکریہ۔
اس کے بعد دونوں میں گفتگو شروع ہوگئی اور رفتہ رفتہ دونوں میں دوستی ہوگئی اور آدہین کے دل میں ہامنہ کی محبت طول پکڑتی گئی اور ایک دن اُس نے ہمت کرکے ہامنہ سے اپنی محبت کا اظہار کر ہی لیا۔ لیکن ہامنہ نے انکار کر دیا۔
ہامنہ آدہین آپ محبت کرتے ہیں مجھ سے، مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو محبت کرنی چاہیے۔
آدہین: کیوں ہامنہ محبت کرنا کوئی گناہ تو نہیں اور یہ انسان کے اختیار میں تھوڑی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر محبت کر لے۔
ہامنہ: میں نے ایسا تو نہیں کہا آدہین، میں تو بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ ہم دوست ہیں اور دوست بن کر رہیں تو بہتر ہوگا۔ محبت کا کیا بھروسہ کب دھوکا دے جائے۔ اِس لئے ہم دوست ہیں اور صرف دوست بن کر رہیں گے۔ دوبارہ میرے سامنے محبت کا ذکر مت کیجئے گا۔
آدہین: ٹھیک ہے ہامنہ جیسی آپ کی مرضی۔ لیکن مجھے ہمیشہ آپ کا انتظار رہے گا اور یہ سب کہہ کر آدہین گھر چلا گیا، گھر جاکر اُس کو ایک بھی پل چین نہیں آیا وہ بار بار ہامنہ کے بارے میں سوچ رہا تھا اُس کو یہ بات تنگ کر رہی تھی کہ ہامنہ نے اُس کی محبت کو کیوں ٹھکرا دیا، وہ بار بار خود سے پوچھ رہا تھا کیا کمی تھی میری محبت میں جو ہامنہ نے انکار کر دیا اور میں نے محبت ہی کی تھی کوئی گناہ تو نہیں جو ہامنہ اتنا ناراض ہوئی، وہ اِس بات کو دل سے لگا بیٹھا رات بھر روتا رہا اور اگلے دن یونیورسٹی بھی نہیں گیا ، ہامنہ آدہین کو یونیورسٹی میں نہ پاکر پریشان ہوئی ، کئی دوستوں سے پوچھا بھی لیکن کسی سے کوئی معقول جواب نہیں ملا، یہ سوچ کر کہ اُس کو کوئی کام پڑھ گیا ہوگا اُس نے خود کی تسلی کر لی۔ لیکن آدہین کو دوسرے دن بھی یونیورسٹی میں نہ پاکر وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی اور گھر جاتے ہی اُس نے آدہین کو فون کر لیا۔ اُس کی خیریت معلوم کی اور اُس کو یونیورسٹی آنے کے لئے زور دیا۔
اگلے دن آدہین یونیورسٹی چلا گیا تو ہامنہ نے بہت گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا ایسا لگ رہا تھا وہ اُسی کا انتظار کر رہی تھی۔
ہامنہ: اسلام علیکم ، آپ ٹھیک تو ہیں، کہاں تھے آپ اتنے دنوں سے ، آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کو کتنا مس کیا۔
آدہین: وعلیکم اسلام، جی میں باکل ٹھیک ہوں آپ کے سامنے، جان سکتا ہوں آپ اتنا مس کیوں کر رہی تھی مجھے۔۔۔۔۔
ہامنہ: ہاں کیونکہ آپ میرے دوست ہیں اور دوستوں کو ہی تو مس کیا جاتا ہے۔
وقت گزرتا گیا اور اُن دونوں کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ دوستی پر محبت کا رنگ آخر چڑھ ہی گیا اور دونوں ایک دوسرے کو بے انتہا چاہنے لگے۔
دونوں ایک دوسرے کی محبت پاکر بہت خوش تھے، اور ہر وقت ایک ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
آدہین اکثر ہامنہ سے کہتا تھا کہ ہامنہ اب ہمیں شادی کر لینی چاہیے لیکن ہامنہ ہمیشہ ٹال دیتی تھی۔
آدہین: اب تو ہمیں شادی کر لینی چاہیے ہامنہ۔
ہامنہ: اتنی جلدی بھی کیا ہے آدہین، میرا مطلب پہلے یونیورسٹی تو ختم ہونے دیجیے ، اُس کے بعد اپنا کیرئیر سیٹ اپ کریں گے پھر اُس کے بعد شادی، میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی نا جو آپ کو اتنی جلدی ہے۔
آدہین: میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یونیورسٹی ختم ہونے سے پہلے ہی شادی کریں گے وہ تو ظاہر سی بات ہے یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد ہی ہوگی لیکن بات تو پکی کر کے رکھ سکتے ہیں نا۔
ہامنہ: جی نہیں جو بھی ہوگا سب کیرئیر سیٹ اپ کے بعد ہی ہوگا۔
آدہین: لیکن اگر تب تک آپ کے گھر والوں نے آپ کی بات کہیں اور طے کر دی تو؟
ہامنہ: ہو ہی نہیں سکتا ، میں شادی کروں گی تو صرف آپ سے ورنہ ساری عمر کنواری رہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دونوں ہنسنے لگے۔
ہامنہ: مت سوچا کریں نا یہ سب۔ میں آپ کی ہوں اور آپ کی ہی رہوں گی۔ مجھے کوئی آپ سے چُرا نہیں سکتا۔
آدہین: ٹھیک ہے آپ کہتی ہیں تو مان لیتے ہیں۔
آج کئی دنوں سے آدہین کا رابطہ ہامنہ سے نہیں ہو پا رہا تھا وہ بہت زیادہ پریشان تھا ، اُس کے دوستوں سے بھی پتہ کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے، آدہین تو ہامنہ کی یاد میں پل پل تڑپ رہا تھا، وہ اپنے کمرے میں بیٹھا ہامنہ کی یاد میں گُم تھا کہ وہ کہاں ہوگی اتنے دن ہوگئے اُس نے کوئی رابطہ نہیں کیا اُس کا فون بھی بند پڑا ہے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو ہامنہ کا مسیج تھا۔
”آدہین میری جان مجھے معاف کر دینا کئی دنوں سے آپ سے رابطہ نہیں کیا لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ مجھے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ آدہین بات دراصل یہ ہے کہ آج میرا نکاح ہورہا ہے اور میں کئی دنوں سے آپ کو یہ سب بتانا چاہ رہی تھی لیکن مجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی لیکن آپ کو بتائے بِنا میں یہ سب کر بھی نہیں سکتی تھی۔ دل پر اتنا بڑا بوجھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ آدہین آپ جانتے ہیں کہ میرے والد صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں اور بِن باپ کی بیٹی اپنی مرضی نہیں چلا سکتی اسلئے مجھے بھی ماں کے منتخب کردہ لڑکے سے شادی کرنی پڑی اور یہ سب اتنی جلدی میں ہو گیا کہ آپ سے مل کر آپ کو کچھ بتانے کا موقع بھی نہیں ملا۔ آدہین میں بے وفا نہیں ہوں، مجھے بے وفا مت سمجھئے گا آپ کی محبت مجھے آج بھی عزیز ہے لیکن کیا کریں یہ محبتیں دھوکا دے جاتی ہیں دیکھیں دے گئی نا دھوکا۔۔۔۔۔۔اتنا بڑا دھوکا کہ آپ کو بُھلا کر اِس دل میں اب کسی اور کو بسانا ہو گا۔ آپ بھی مجھے بُھلا دیجیے گا۔ آج سے سارے رابطے ختم، سارے رشتے ختم۔
آپ کی اپنی ہامنہ
���
الف عاجز اعجاز۔۔۔ طولی نو پورہ کولگام
فون:+91 96226 97944

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں