کیوں۔۔۔؟ 0

کیوں۔۔۔؟

بابا مرتضیٰ

مجھے آپ سے بے حد افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ آپ اندر اس کمرے میں داخل نہیں ہوسکتے۔۔۔ چوکیداری پر معمور ایک شخص کچھ دن پہلے بنے ایک نئے بادشاہ سے معذرت کے ساتھ کہنے لگا۔۔۔ وہ کیوں؟ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔آپ نہیں جانتے ہو کہ میں اب اس پورے ملک کا بادشاہ ہوں اور اب ساری چیزوں پر میرا اختیار ہوچکا ہے۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم مجھے اندر جانے سے روک رہے ہو۔۔۔ تمہاری ہمت کی تو داد دینی پڑے گی۔ چوکیدار نہایت ہی ادب و احترام سے جواب میں کہنے لگا ” بادشاہ سلامت میں آپ کو نہیں روک رہا ہوں بلکہ میں تو اپنی نوکری کر رہا ہوں اور اپنے بڑے صاحب کی اطاعت کر رہا ہوں جنہوں نے مجھے یہاں اس کام پر لگایا”۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ ٹھیک ہے۔ چلو تم مجھے یہ بتاو کہ تم مجھے اس کمرے میں جانے سےکیوں روک رہے ہو اور اس کمرے میں آخر ایسا کیا ہے جسمیں جانے کے لئے بادشاہ کو بھی روکا جارہا ہے اور اوپر سے اس پر اتنا بڑا تالا بھی چڑھائے رکھا ہے۔ بادشاہ نے سوال کیا۔ بادشاہ سلامت میں بہت ہی شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔ جو سوال آپ نے مجھ سے پوچھا اسکا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ اس کمرے میں ایسا کیا ہے وہ بھی نہیں جانتا ہوں۔ کسی کو بھی اس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس کیوں کا جواب بھی میرے پاس نہیں ہے۔بادشاہ سلامت میں سمجھتا ہوں کہ ان سارے سوالات کے جواب آپ کو میرے بڑے صاحپ ہی دے سکتے ہیں جو مجھے روز اس کمرے کے دروازے پر ڈیوٹی پر لگاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت اب بہت ہی حیران ہوے اور بے چینی بھی بڑبڑانے لگی۔ کہ ایسا کیسے ہوسکتا کہ کوئی شحص کسی چیز کی نگرانی کرتا ہو اور اسکو یہ خبر نہ ہو کہ وہ آخر کس چیز کی نگرانی کرتا ہے۔اسی بے چینی میں بادشاہ سلامت اب اپنے دربار میں گے اور حکم صادر کیا کہ تمام خصوصی وزرا اور دربان دربار میں حاضر ہو جائیں۔ ۔حکم صادر ہوتے ہی پورے محل خانے میں تیزی سے ہلچل ہونے لگی۔تمام وزرا اور دربان ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے کہ ایسا آخر کیا ہوا کہ بادشاہ سلامت کو ہم سب کی ایک ساتھ ضرورت آن پڑی۔مگر کوئی بھی اچھے سے یہ نہ بتا سکا کہ بادشاہ سلامت کس چیز کو لیکر اتنے فکر مند ہو رہے ہیں ۔ اب سبھی وزیر اور دربان اس بات پر بھی پریشان تھے کہ وہ نئے بنے بادشاہ کے سامنے کس طرح سے پیش ہوجائیں ۔ وہ ایک دوسرے سے یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کس طبیعت اور مزاج کے انسان ہیں۔ ان سے کس طرح سے بات کی جائے۔ اگر ہم میں سے کسی طرح کی بھی گستاخی ہو گئی تو کیا خبر اس پر کیا سزا دی جائے گی۔
دراصل اس ملک کے پہلے بادشاہ کے پانچ بیٹے تھے۔وہ بہت ہی زندہ دل، ذہین اور سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے۔اپنی عقلمندی سے انہوں نے اپنے پانچوں بیٹوں کو بلاکر ایک قرارداد پاس کی تھی ۔کہ ہر ایک بیٹا تخت پر پانچ سال کے مخصوص مقررہ وقت کے لے بیٹھے گا۔ بادشاہ چننے کی عمل تمام درباری اور وزیر ملکر اپنے ووٹ کی رائے سے طے کریں گے۔جو چنا جاے گا وہ ملک کی ترقی، نگرانی اور حفاظت کے لئے تخت پر بیٹھے گا اور باقی چار بیٹے اس وقت تک ملک سے باہر دوسرے ملکوں میں میرے اپنے عزیز دوستوں کے پاس سکونت اختیار کریں گے ۔ تاکہ وہ چنے ہوے بادشاہ کے کام میں کوئی خلل، رخنہ اور سازش نہ کرسکیں۔ کیونکہ تواریخ میں ایسے ہزار قصے اور کہانیاں موجود ہیں کہ جس کسی بادشاہ کے بھی ایک سے زیادہ بیٹے ہوے ان بھائیوں میں ہی اکسر تخت پر بیٹھنے کے لئے سازشیں اور لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ان ہی چیزوں سے بچنے کے لئے پہلے بادشاہ نے بڑی سنجیدگی سے یہ قرارداد پاس کی تھی۔
اسی کڑی کے تحت اب آخری بیٹے یعنی پہلے بادشاہ کے پانچویں بیٹے کی تخت پر بیٹھنے کی باری آئی تھی۔ اسی لئے تمام وزرا اور دربان نے بنے بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے سے ڈر سا محسوس کر رہے تھے۔اوپر سے بادشاہ سلامت کا اچانک سے حکم صادر ہونا انکی بے چینی کو اور زیادہ بڑا رہا تھا۔ اب کیسے بھی کرکے۔ ہمت جھٹا کر سہمے سہمے قدموں سے بادشاہ کے دربار میں یکے بعد دیگرے سب وزرا اور دربان نہایت ہی ادب واحترام سے اجاذت مانگ کر داخل ہوتے گے اور اپنی اپنی نشستوں پر وہم اور ڈر میں کندھے اور سروں کو جھکاتے ہوئے بیٹھے۔ اور سب لوگ چوری نظروں سے بادشاہ کی اور دیکھنے لگے۔ آخر بادشاہ سلامت ایسا کیا کہنے والے ہیں ۔آخر کار بادشاہ سلامت نے اپنے لب کھولے اور تمام درباریوں سے چوکیدار سے پیش آیا ہوا واقع بیان کرنے لگے۔ اور اس کیوں؟ کا جواب کھوجنے لگے جو بادشاہ سلامت نے چوکیدار سے پوچھا تھا۔ جب انکو کمرے میں داخل ہونے سے روکا جا چکا تھا۔ اب سارا ماجرہ سننے کے بعد تمام وزرا اور دربان ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔کہ شاید کوئی اس کیوں؟ کا جواب جانتا ہو اور ہم سب کی عزت رہے مگر ایسا نہ ہو سکا کوئی بھی شخص بادشاہ سلامت کے اس کیوں؟ کا جواب نہ دے سکا۔ اب ایک وزیر نے ہمت کرکے بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی رائے رکھتے ہوے نہایت ہی ادب و احترام سے عرض کیا۔ کہ کیوں نہ چوکیدار کے بڑے صاحب کو دربار میں بلا کر اس سے ہی جانا جاے کہ اس کمرے میں ایسا کیا ہے جسمیں جانے کے لئے بادشاہ سلامت کو بھی اجازت نہیں۔ بادشاہ سلامت نے سنتے ہی چوکیداروں کے بڑے صاحب کو دربار میں پیش کرنے کے احکامات صادر کئے۔ کچھ دیر کے بعد بڑے صاحب دربار میں ادب و احترام کے ساتھ حاظر ہوے تو بادشاہ سلامت نے اسکو بھی وہی سب قصہ سنا کر کیوں؟ کا جواب مانگا تو اس پر بڑے صاحب بڑے خاموش ہوے اور اسکی خاموشی بھی یہی بیان کر رہی تھی کہ شاید وہ بھی اس کیوں؟ کا جواب نہ جانتے ہیں اسی اثناء میں بڑے صاحب سر جھکاتے ہوے ادب، عاجزی اور دھیمی آواز میں کہنے لگے کہ ایسا کرنے کے لے انکو اپنے سے اوپر بیٹھے انکے بڑے صاحب نے کہا۔ اسی لے وہ چوکیدار وہاں ہر روز اس کمرے کے باہر اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے۔ تو اب بادشاہ کے ہاں اس بڑے صاحب کے اس سے بڑے صاحب کے لئے حکم صادر ہوا کہ انہیں بھی فوراً دربار میں حاظر کیا جائے۔ بادشاہ سلامت کے حکم کی تعمیل میں خادموں نے اور ایک بڑے صاحب کو دربار میں حاظر کیا۔ حاظر ہوتے ہی اس سے بھی بادشاہ سلامت نے سارا واقع بیان کرکے کیوں؟ کا جواب ڈھونڈھنا چاہا۔ مگر افسوس یہ بڑے صاحب اپنے سے بڑے صاحب کا نام لیکر اپنے آپ کو بادشاہ سلامت کے دربار میں سب کے سامنے شرمندگی سے بچا رہے تھے کیونکہ وہ بھی بادشاہ کے فی الحال اس نہ سلجھنے والے کیوں؟ کا جواب نہ جانتے تھے۔۔۔
بادشاہ اب بہت ہی زیادہ بے چین ہوا۔ ان کی بے چینی عروج پر تھی وہ سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ کیسے اتنے سارے لوگ اس بات سے بے خبر ہوسکتے ہیں کمرے میں آخر ایسا کیاہے کہ وہاں چوکیدار کو دھائیوں سے ڈیوٹی پر رکھا گیا تاکہ اندر کوئی جا نہ سکے۔ لیکن بادشاہ اب اس راز کو جاننے کے لئے اپنا سارا توجہ اس پر مرکوز کرنے لگے۔۔۔ وہ اب ہر ایک سے دربار میں بلاکر الگ الگ ہی پوچھنے لگے۔۔۔لیکن دربار میں کوئی بھی شخص اس راز کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔ ایک دن بادشاہ سلامت اپنے تخت پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے تو خادم نے دروازے پر دستک دے کر عرض کیا کہ ایک عمر رسیدہ آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔ بادشاہ نے اجازت دی تو وہ بوڑھا آدمی کانپتی ٹانگوں سے بادشاہ کے ہاں لڑکھڑاتے پہنچ گیا۔ بادشاہ سلامت نے بوڑھے آدمی کی حالت دیکھکر اس کو بیٹھنے کے لئے کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ” میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں”۔ بوڑھا آدمی کپ کپاتے ہونٹوں اور تھر تھراتے ہوئے بولا کہ میرا پوتا بے روز گار ہے اور اب گھر میں کوئی خاص آمدن کا زرئعہ بھی نہیں۔ چونکہ میں بہت عرصہ پہلے آپ کے بڑے بھائی کا ایک خصوصی وزیر رہا ہوں۔ تب آپ بہت ہی چھوٹے تھے۔ میں نے آپ کو کئ بار جھولا جھلایا۔گود میں سلایا اور آپ کو کئ بار لوریاں سنایا کرتا تھا ۔۔مگر آپ کو کیسے یاد ہوگا۔آپ ان دنوں بہت ہی چھوٹے جو تھے۔۔۔ بادشاہ یہ سب سن کر بہت ہی مسرور ہوا۔ وہ اب سمجھ گیا کہ مجھے میرے نہ سلجھنے والے کیوں کا جواب مل گیا۔۔۔ اب بادشاہ سلامت بوڑھے آدمی سے کہنے لگے میں آپ کے پوتے کو اپنے دربار میں نوکری دوں گا اور آپ کو ایک منہ مانگا انعام بھی مگر آپ کو میرے ایک سوال کا جواب دینا ہو گا۔۔۔۔ ضعیف آدمی یہ سن کر نہایت ہی خوش ہوا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے سوال پوچھنے کی درخواست کی۔ بادشاہ سلامت نے سارا واقعہ بیان کرکے کیوں؟ کا جواب مانگا۔۔۔
ضعیف آدمی حیرانی میں کہنے لگا کہ “وہ کمرہ ابھی بھی بند ہے کیا”۔۔۔دراصل آپ کے بڑے بھائی یعنی پہلے بادشاہ سلامت نے اپنے دور اقتدار میں اپنے ایک خصوصی دوست کو دعوت پر بلایا۔۔۔اور وہ کمرہ ان کی رہائش و آرایش کے لئے تیار کرنے لگا۔ سب کچھ تقریباً مکمل ہو چکا تھا تب جاکر اب بس دیواروں پر رنگسازی کا کام رہ گیا تھا۔۔۔ اس کام کے لئے بھی سب سے اچھے اور مشہور رنگساز بلائے گئے اور انہیں کام سونپا گیا۔ وہ کاریگر بھی اپنا کام ختم کر ہی چکے تھے اور آپ کے بڑے بھائی یعنی پہلے بادشاہ سلامت کو دکھانے لگے۔ پھر ہوا یوں کہ بادشاہ سلامت بچوں کے ساتھ وہ کمرہ دیکھنے کے لئے کمرے میں داخل ہوئے۔ بادشاہ سلامت رنگ سازوں کی کام دیکھ کر نہایت خوش ہوکر انکی سرہانہ کرنے لگے۔۔۔اس بیچ بچوں نے حال ہی میں لگے دیواروں کے رنگ پر اپنے ہاتھ پھیرے اور سارے کام کو خراب کرکے اپنے کپڑے بھی خراب کئے۔ یہ سب دیکھ کر بادشاہ سلامت بہت ہی آگ بگھولہ ہوئے۔۔۔ مگر آخر۔ کر بھی کیا سکتے تھے۔۔۔ بچے تھے۔ انکو کیا خبر تھی۔ انہونے کوئی غلط کام کیا۔۔۔
کاریگر بادشاہ سلامت کے غصے کو دیکھ کر سہم گئے اور انہوں نے بادشاہ سلامت سے عرض کیا کہ وہ وقت رہتے پھر سے کمرے کو تیار کرینگے۔ یہ سن کر بادشاہ سلامت کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور کاریگروں کو پھر سے کام پر لگایا۔۔۔ اب مہمان کے آنے کا وقت بھی قریب آنے لگا اور کمرہ بھی آہستہ آہستہ پائے تکمیل تک پہنچنے کو آرہا تھا۔۔۔ کاریگر اپنا کام ختم کرچکے تھے اور کمرے کو جلدی میں سوکھنے کے لئے دروازے کھلے رکھے گئے تھے۔۔۔ تب جاکر پھر کہیں سے وہ بچے کمرے کا دروازو کھلا دیکھکر اس میں داخل ہوے اور وہی عمل دہرا کر دیواروں پر لگے رنگ سے کھیلنے لگے۔۔۔اور پھر سے اپنے کپڑے اور کمرے کے دیواروں کو خراب کرچکے تھے۔۔۔بادشاہ سلامت جب کمرے کو دیکھنے آئے اور کمرے کی حالت دیکھی تو انکے غصے کا انتہا نہ رہا۔۔۔ وہ بہت ہی زیادہ رنجیدہ ہوے۔۔۔ انکی شرارت ہم سب کو جھیلنی پڑی۔اور انہوں نے غصے کی حالت میں دروازہ بند کرکے۔۔۔اس پر ایک مظبوط سا تالا چڑھا کر چوکیدار کو وہاں ڈیوٹی پر تعینات کرکے حکم صادر کیا کہ کوئی بھی آے اور یہاں تک کہ اگر بادشاہ خود بھی آئے تو کمرے میں داخل ہونے نہ دینا۔کسی کو بھی اس کمرے میں داخل ہونے کے لئےسختی سے منع کرنا ہے۔۔۔لیکن میں حیران ہوں! بادشاہ سلامت۔ تب سے آج تک کئ صدیاں گزرگئ۔۔۔کسی نے بھی یہ دریافت کیوں نہ کر دیا اور اس پر آج تک کئ بادشاہ تبدیل ہونے کے باوجود بھی چوکیدار چوکیداری کرتا رہا اور سارے بڑے صاحب۔ سبکدوش ہوے صاحب کا ڈیوٹی روسٹر دیکھکر بندوں کو ڈیوٹیوں پر لگاتا گیا۔۔۔
بادشاہ سلامت کو واقعی اپنے کیوں کا جواب مل گیا۔۔وہ اب جان گیا کہ بادشاہ ہوکر بھی کیوں انہیں کمرے میں داخل نہ ہونے دیا۔۔۔ انہوں نے پھر سے تمام درباریوں اور وزرا کو بلا کر اس بات کی تلقین کی کہ۔۔۔”زندگی میں کسی بھی نئے سبق کو سیکھنے کی شروعات۔۔۔اس چھوٹے سے لفظ۔ کیوں؟ سے ہوتی ہیں۔۔ پہلے کسی بھی کام کا وجہ جاننا ضروری ہے کہ میں یہ کام کیوں کرتا ہوں؟۔اور کس لئے کرتا ہوں۔پھر بادشاہ سلامت کو اس ضعیف آدمی سے اپنا کیا ہوا واعدہ یاد آتا ہے جو پورا کرنا کسی بھی بادشاہ کے لئے شاید ہی مشکل ہو۔۔۔وہ اپنا وعدہ پورا کرگیا اور ضعیف آدمی خوشی سے گھر کو یہ خوشخبری سنانے چلا گیا۔

بابا مرتضیٰ
رئے کاپرن شوپیانوئی۔
فون نمبر۔ 7889379873

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں