سر گزشت 0

سر گزشت

مصنف
گلال کشمیری
تبصرہ نگار
انجینئرشفیع احمد

جی ایم میر نادم عرف گلال کشمیر ی سابق سرکاری افسر ہیں جو محکمہ اطلاعات میں تیس سال سے زائد عرصہ گزار کر نوکری سے سبکدوش ہوئے۔ سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قلم بردار مصنف ہیں ، چھوٹی عمر سے مطالعہ کتب میں مشغول رہے ہیں اور پھر خود بھی کچھ نہ کچھ لکھنے کی طرف مائل رہے ہیں۔سرگزشت ان کی خود نوشت داستان حیات ہونے کے ساتھ مضامین کا ایک گلدستہ ہے جو انہوں نے مختلف موضوعات پر تحریر کئے ہیں۔محکمہ اطلاعات کی افسری کے سبب ظاہر ہے کہ صاحب کتاب اقتدار کے گلیاروں کے قریب رہے ہوں گے جس کے سبب انکی داستان حیات میں کسی بھی قاری کے لئے دلچسپی ضروری ہے ۔کچھ یہی حال میرا بھی ہے شاید اسی لئے میں نے پہلی فرصت میں کتاب کا مطالعہ شروع کیا ۔اسکے علاوہ ان کے مضامین کی ایک لمبی فہرست ہے جو حالیہ برسوں میں مختلف اخبارات میں کالموں کی صورت میں شایع ہوئے اور ان پر غور کرکے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قارئین کے لئے یہ کتاب دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے۔کتاب میںایک سو ستر صفحات پر مشتمل مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے ،اس کے علاوہ کئی صفحات تصاویر کے لئے مختص رکھے گئے ہیں۔
سرگزشت سیگمنٹ میں کوئی تیس سے زائد صفحات میں مصنف نے اپنی ولادت، بھائی بہنوںکی پیدایش، ابتدائی زندگی ، ابتدائی تعلیم، پیشہ ورانہ زندگی کے ایام، اور بیرون ممالک اسفار کی روداد بیان کی ہے۔زندگی کے ابتدائی ایام کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ وہ زمانہ اگرچہ غربت میں گزرا لیکن ان دنو ں عام معاشرہ ایمانداری سے سرشار تھا اور لالچ جیسی وبا کافی کم تھی جس کے سبب بے ایمانی بھی عنقا تھی۔عوام ایک دوسرے سے پیار و محبت سے پیش آتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر شریک رہتے ۔ اس زمانے میں ڈاکخانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ خطوط وغیرہ کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطہ بنتا تھا کیونکہ تار وغیرہ کم کم ہی استعمال ہوتا تھا۔ریڈیو سننا عام مشغلہ تھا۔ شہر سرینگر کے کئی علاقے دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر آباد تھے اسلئے دریا کے پانی کا روزمرہ استعمال ہوتا تھا جس کے سبب اسے صاف رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی تھی۔ پنڈت برادری پوجا پاٹ کے لئے جہلم کے کناروںپر آباد منادر کا استعمال کرتی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ رہن سہن کے سبب ذہنی بیماریاں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتیں۔ مزید بر آں دل کی بیماریاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں کیونکہ سادہ زندگی میں اس قسم کے مسائل عنقا ہی ہوتے ہیں۔
ادبی زندگی کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ مصنف نے اخبارات کے لئے تحریر کرنا کم سنی میں ہی شروع کیا اور اس حوالے سے مدیران آفتاب و سرینگر ٹائمز کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک نو عمر لڑکے کی حوصلہ افزائی کی۔اسکے ساتھ ہی ریڈیو اور ٹی وی کے پروڈیوسروں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے مختلف پروگراموں میں انہیں جگہ دی جس کے سبب ادبی پیاس بجھنے کے ساتھ انہیں جیب خرچ کا بھی بندوبست ہو جاتا جو اس زمانے میں بہت اہمیت کا حامل تھا۔ستر کی دہائی میں مصنف نے میٹرک پاس کیا اور کالج جاتے ہوئے والد صاحب کی ہدایت پر ٹائپ سیکھنے جانے لگے مگر وہاں چوری چھپے موسیقی سیکھنے کے انٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔
تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ بعض دوستوں کے مشورے پر ایک نجی سکول کی بنیاد ڈالی جس کو پروان چڑھانے میں دو پنڈت لڑکیوں نے رول ادا کیا جس کا ذکر مصنف بار بار کرتے ہیں یہاں تک کہ سرکاری نوکری ملنے کے بعد اسکول کی ذمہ داری بعض اساتذہ پر ہی ڈال دی۔ مصنف آگے چل کر اپنے خاندان کی سرگزشت بیان کرتے ہیںاور مطلع کرتے ہیں کہ ان کے یہاں ہر فرد عورت ہو یا مرد تعلیم کے نور سے منور ہیں اور تعلیم کی روشنی آگے پھیلانے میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں جیسا کہ انکی شریک حیات نے کیا۔
مصنف کی پوسٹنگ جب محکمہ اطلاعا ت میں ہوئی تو بقول ان کے محکمہ میں موجود افسران و ساتھی ملازمین کی امداد و اعانت سے ان کا کام کاج اور صلاحتیں نکھر آئیں۔ان افراد میں خاص طور وہ ڈایریکٹر کے بی جنڈیال کا ذکر کرتے ہیں ۔ان پوسٹنگ کے دوران وہ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جب انہیں گوہر احمد نامی افسر کے ساتھ کام کا موقعہ ملا اور اس دوران ہندوستان ٹائمز نامی قومی اخبار کے مقامی نمایندے ڈی کے ایسر کو ایک مدد گار کی ضرورت پڑی ۔ ان کی خوش قسمتی کہ گوہر احمد نے انہی کا نام تجویز کیا۔یہ تجربہ انہیں ملازمت کے دوران اور سبکدوشی کے بعد بھی دوسری جگہوں پر کام کرتے ہوئے مددگار ثابت ہوا۔نوکری کے دوران اور دربار موو میں نجی کمرے کرایہ پر لیکر بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک مسلم اور ایک ہندو خاتون کی شفقت کی بات کرتے ہوئے وہ شکر گزار دکھتے ہیں کہ کیسے ان میں ایک نے ان کی بیماری میں تیمار داری کی جبکہ دوسری نے ان کے گھریلو کام کاج کے لئے اپنی بیٹی کو ہدایت دی ۔
ایک انسان جب کسی وجہ سے بے بس ہوجاتا ہے اس کی ایک مثال انہوں نے یوں درج کی ہے کہ روح تک کانپ جاتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب والدہ کی مہلک بیماری کے دوران انہیں دوائی بازار سے خریدنی پڑی لیکن ساڑھے تین ہزار کی بل کے عوض انکی جیب میں پندرہ سو روپے ہی تھے،البتہ جب ان کی والدہ کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنی جیب سے یہ پیسے ادا کئے تاہم مصنف سے یہ وعدہ لیا کہ بعد میں یہ پیسے وہ والدہ کو ادا کریں گے۔یہ دوائیاں چونکہ سائڈ ایفیکٹ کی حامل ہوتی ہیں اسلئے انہوںنے بعد میں اپنا اثر دکھانا شروع کیا جسکی تفصیل کتاب میں دی گئی ہے ۔اس دوران اڑوس پڑوس کے فلیٹوں میں رہایش پذیر دوسرے مکین بھی طبی ا مداد کے طلب گار تھے جس سے متعلق بعض واقعات کتاب میں درج ہیں۔مصنف نے اپنے گھر بار کی تفصیل بچوں کی پیدایش، انکی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق کئی صفحات بھر دئے ہیں ۔ بیرون ممالک سفر میں انگلستان کا سفر بھی شامل ہے جس کی روداد کتاب میں درج ہے۔اور لندن میں صحافتی برادری اور دلچسپی کے بعض مقامات جیسے عجائب گھر اور دریائے تھیمز، شیکسپئیر قلعہ وغیرہ شامل ہیں کی تفاصیل بھی درج ہیں۔
کووڈ جیسی مہلک وبا اور اس دوران گھر میں مجبوراً نظر بندی کے دوران کئی مضامین تحریر کئے گئے ہیں۔ان میں حضرت میر سید علی ہمدانی کی زندگی اور انکے سفر کشمیر کی مکمل تفصیل سے ان کی زندگی پر روشنی اس انداز سے پڑتی ہے کہ مصنف کا ان کے تئیں احترام ظاہر ہوتا ہے۔اسی طرح سید میرک شاہ کاشانی کی زندگی پر بھی بھر پور مضمون شامل کیا گیا ہے۔حضرت شیخ داود عرف بتہ مول کی زندگی پر بھی ایک مکمل مضمون شامل ہے۔ دینی علوم سے وابستہ مقتدر شخصیات کے علاوہ بعض ادبی قلم کاروں جیسے سجود سیلانی، خضر مغربی اور غلام نبی گوہر پر بھی تحریر شدہ مضامین میں انکے حالات زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
لگتا ہے کہ مصنف سماج میں پھیلی اخلاقی بیماریوں سے بہت پریشان ہیںاور ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ایک قلم کار ان جیسے پریشان کن حالات کے خلاف قلمی جنگ ہی لڑ سکتا ہے جیسا کہ گلال کشمیری نے کیا ہے۔ان مضامین کے ٹائٹل ہی اس بات کا عندیہ دیتے ہیںکہ وہ ان خرابیوں کو ایک موثر جراح کی طرح چیر پھاڑ کرکے ان ناسوروں کو جسم سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔منشیات اور ہمارا سماج، امت مسلمہ پریشان کیوں ،آئیے نوجوانوں کا مستقبل سنواریں ،خصلت اور پوز چھ ٹوٹھ جیسے ٹائٹل اپنی روداد خود بیان کرتے ہیں۔
گلال کشمیری کے شاعرانہ شوق کے بارے میں مجھے اب پتہ چلا جب سرگزشت کے اوراق پلٹے۔کتاب میں چند صفحات پر غزلیں اور نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔
اس کتاب کی شروعات میں بعض اہم شخصیات نے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں۔پروفیسر اے جی مدہوش نے تمہید عنوان سے ان الفاظ میں رائے زنی کی ہے۔” ۔۔۔کچھ لوگ زندگی ایک عام طریقے سے گزارتے ہیں اور کچھ زندگی چیلنجوںکو اپنا کر دلیرانہ مقابلہ بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ زندگی بڑی دلکش ،دلچسپ اور حیران کن ادوار طے کرتی ہے۔اسی جذبے کے تحت اس کتاب کے مصنف جی ایم میر عرف گلال کشمیری نے شروع سے آخر تک ایک دریا کے پانی کی طرح واقعات پیش کئے ہیں۔۔۔ ”
تاریخ دان اور مدرس پروفیسر فاروق فیاض نے اپنے خیالات کا اظہار طویل مضمون میں کچھ اس طرح کیا ہے”’’زیر نظر کتابہ منز چھ مصنفن پننہ زندگی منز پیش آمتین واقعاتن ہیند مو خصر ذکر کورمت مگر سیٹھہے لوبہ ونس اظہارس منز ”
ایک اور صاحب ذوق شخص سابق ڈائریکٹر آل نڈیا ریڈیو سرینگر سید ہمایوں قیصر نے اپنی رائے کا اظہار مندرج ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
” یہ ادبی شاہ پارہ معاشرے کے بارے میں حساس خیالات اور خدشات ظاہر کرنے کی عظیم کوشش ہے ۔گلال کشمیری نے جتنی بھی کوشش کی ہے وہ دیانت داری اور صد فیصد صداقت کے ساتھ عمل میں لائی ہے ”
بحیثیت مجموعی یہ کتاب گلال کشمیری کی سرگزشت ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی ایک داستان ہے جسے میر صاحب جیسے حساس اہل قلم نے محسوس کیا اور صفحہ قرطاس پر بکھیر کر ہمارے سامنے پیش کیا۔ امید ہے شائقین ادب بھی اسے پڑھکر محظوظ ہوں گے۔


(تبصرہ نگار فکشن رایٹرس گلڈ کے جنرل سیکریٹری ہیں)
wanishafi999@gmail.com 9419009169

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں