اس جہاں میں جانے کتنے آدمی کے چہرے ہیں 82

اْمید کی کرن

افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھو پال سنگھ۔۔۔۔ ترجمہ نگار پرویز مانوس

ستو کے ہاتھ میں ڈاکیہ ایک لفافہ دے گیا __ لفافہ دینے سے پہلے اْس نے ستو سے ایک کاغذ پر انگوٹھے کا نشان لیا __،،وہ کبھی لفافے کو دیکھتی تو کبھی ڈاکیہ کی طرف ،شاید وہ ڈاکیے سے بند لفافے کا راز جاننا چاہتی تھی_ایسا کوئی بھی بند لفافہ اْس نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا _لیکن سرکاری خطوط کے بارے میں سْ سْرجیت اْسے بتاتا رہتا تھا ،سادھی چٹھی اور رجسٹری والی چٹھی کا فر___،،
رجسٹڈ کی ہوئی چٹھی بہت ضروری ہوتی ہے _یہ متعلقہ آدمی تک جلدی پہنچانے کے لئے کی جاتی ہے __،،لیکن وہ اْن باتوں کی طرف کوئی دھیان نہ دیتی، اور کہتی،، خصماں کو کھا یں یہ چٹھیاں __ مجھے کیا لینا ان سے ،مجھے تو چولہے چوکے سے فْرصت نہیں ملتی ،پھر میں کو ن سا بابو لگی ہوں_ گھر کو کس طرح سنبھالنا سنوارنا ہے یہ تو میں اچھی طرح جانتی ہوں، اور میرا کیا کام ہے بس…
پھر بھی اگر جانکاری میں کچھ اضافہ ہو جائے تو بْرا کیا ہے __،،
آج وہ شرم محسوس کر رہی تھی بند لفافے کو دیکھ کر ،،اْس کو یاد آیا سْرجیت اْس وقت درچہ چہارم ملازم تھا جب وہ اْس سے بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی___،،صْبح وہ دفتر کو نکلتا اور شام کو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی اخبار یا رسالہ لے کر آتا اور پھر گھر میں دھیمی آواز میں حرف جوڑ جوڑ کر پڑھتا رہتا ، جب بھی ستو اس کی بابت پوچھتی تو وہ جواب دیتا،،ابھی میں خود ان کالے حرفوں سے پوری طرح واقف نہیں ہو سکا ،جب میں اس قابل ہو جاؤں گا تو تجھے بھی پڑھنے کے لئے کہوں گا __دیکھ یہ لفظ کتنے اچھے لگتے ہیں_کیسے ایک ایک حرف کو جوڑ کر الفاظ بنتے ہیں اور لفظوں کو جوڑ کر ایک جْملہ ، بالکل ایسے ہی جیسے ہم دونوں آپس میں باتیں کرتے ہیں_،
آپ کیا کہہ رہے ہو ،میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا،،بھلا میں ٹھری سیدھی سادھی گاؤں کی لڑکی جس نے گھر کی دہلیز سے باہر کبھی پیر نہیں رکھا__،،
سچ ہی کہہ رہی تھی ستبیر ،اْن کے گاؤں میں کوئی اسکول ہوتا یا اْن کے قریب کسی گاؤں میں تو وہ بھی چار جماعتیں پڑھ گئی ہوتی اور آج اس لفافے میں رکھی ہوئی چٹھی پڑھ سکتی اور جانتی کہ اس میں کیا لکھا ہے __،
اْس نے ڈاکیے سے لیا ہوا لفافہ چارپائی پر رکھ دیا اتنے میں اْس کے دونوں بیٹے جو سات اور پانچ. کے تھے اور پاس کے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے جہاں ماسٹر جی ہفتے میں دو ہی بار تشریف لاتے تھے ،اس کنڈی علاقے میں ڈیوٹی دینے کو ماسٹر سزا سمجھتے تھے ،یہاں پہنچنے سے پہلے اْسے گھر جانے کی فکر رہتی ،سْرجیت شام کو اپنے دونوں بچوّں کو خود پڑھاتا ، دراصل سْرجیت کو بھی ملازم ہو جانے کے بعد ہی پڑھائی کی قدر آئی تھی ، حروف کا علم اور ان سے واقفیت اْس کو اپنے دفتر کے ایک بابو ہردیو نے کرائی تھی ،اسی لئے وہ ہر وقت بابو جی کے گْن گاتا رہتا،وہ خالی ٹا ئم میں سْرجیت کو پڑھاتا تھا اْس کا ماننا تھا کہ گیان بانٹنے سے بڑھتا ہے ، دفتر میں پڑھے ہوئے رف کاغذوں پر اْس سے ریاض کرواتا،سْرجیت دفتر میں کام کے ساتھ ساتھ پڑھتا بھی رہتا اور پھر گھر آ کر دن کے سبق کو دوہراتا اسی لئے وہ چاہتا تھا اْس کے دونوں بیٹے پڑھ لکھ جائیں تاکہ وہ وقت کے ساتھ چل سکیں __،،
ستو بیچاری دن بھر کے کام سے تھکی ہوتی تھی ،گھر کے ساتھ ساتھ وہ کھیتی باڑی کا کام بھی کرتی تھی ،سْرجیت کے دو میٹھے بولوں سے اْس کی ساری تھکاوٹ دْور ہو جاتی تھی ،سْرجیت یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اْس کی بیوی کو گھر کے کاموں سے ہی فْرصت نہیں ملتی جو وہ اْسے پڑھنے کے لئے کہتا_،،
میری بھولی لکھ پڑھ لے ،اس سے انسان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لائق ہو جاتا ہے _میری طرف دیکھ……! اگر میں چار جماعتیں اور پڑھا ہوتا تو آج کسی دفتر میں بابو لگا ہوتا…. اس میں بھی شْکر واہی گرو کا تھوڑا بہت پڑھا تھا تو چھوٹی نوکری مل گئی ___،،
ماں باپ نہیں رہے دھکے کھاکر جوان ہوا ،شْکر ہے واہے گرو کا اور اْس شخص کا جس نے مجھ پر ترس کھا کر مجھے ملازم کرا دیا ،وہ میرے باپ کی بہت عزت کرتا تھا ___ملازم ہونے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے ،میرے من میں بھی پڑھ لکھ کر کچھ بننے کی چاہ جاگی ساتھ میں جو بابو ہردیو مل گئے اصل میں اْس نے میری زندگی کا رْخ ہی بدل دیا __،،
ہردیو بابو ہمارے دفتر میں سب سے زیادہ پڑھے ہوئے ہیں،ہمارے بڑھے صاحب سے بھی زیادہ پڑھے ہوئے__،،اگرچہ وہ نیچے والی کْرسی پر بیٹھا ہیپھر بھی وہ دفتر کے سارے کام اکیلا ہی کرتا ہے ،بس اْس کو اشارے کی ضرورت ہے ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھا کر ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ کر کے منٹوں میں اگلے کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے __،،،
لیکن میں پڑھ کر اب کیا کروں گی ،آپ پڑھے تو آپ کی ترقی ہوگئی ،اب آپ بابو بن گئے ہیں ،آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہونے سے گھر کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں ،جب لوگ مجھے بابو .کی بیوی پکارتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے ،میرے لئے اتنا ہی کافی ہے ___،،
تم ایسا کیوں سوچتی ہو…. ؟
عورت نے گھر میں چولہا چوکا ہی نہں کرنا ہوتا بلکہ گھر کا سارا حساب کتاب،گاؤں میں سرکاری آفیسران آ کر کیا کہتے ہیں ،سرکار نے گاؤں میں کون کون سی اسکیمیں لاگو کرنی ہیں اور گاؤں والوں کو اْن کے کیا فائدے ہیں ،اس کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ہماری زمین کے کاغذات.میں پٹواری. گرداوری کس کے نام لکھتا ہے اور بھی کتنے فائدے ہوتے ہیں ،انسان کو ہوشیار رہنا چاہیے ،لیکن میرے پلے تو کچھ نہیں پڑتا ،،ستبیر نے سادگی سے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی ___،،
آج اْس کی آنکھوں کے سامنے بچوّں کے معصوم چہرے اور سْرجیت کا تنکا تنکا جوڑ کر بنایا ہوا یہ آشیانہ یاد آ رہا تھا _اْسے ابھی بھی اْمید تھی سْرجیت شام کو گھر لوٹ آئے گا ___،،اْسے رہ رہ کر یاد آ رہا تھا کہ اتنی جلری ترقی کرنے کے لئے کتنی محنت کی تھی ،اْسے گھر سجانے سنوارنے کے ساتھ ساتھ بچوّں کی پڑھائی کی بھی فکر تھی ،اوپر والا ہی جانے یہ کیسی جلدی تھی اْس شخص کو ؟
خود بھی بچوّں کو اْسی جگہ پر چھوڑ کر چلا گیا جہاں سے اْس نے اپنی زندگی شروع کی تھی___،،
ستو کے مائیکے میں بھی کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا جو اْس کی اور اْس کے بچوّں کی رہنمائی کرتا ،وہ کس پر بھروسہ کرے اور کس پر نہ کرے __،گاؤں میں بھلے ہی کچھ لوگ تھوڑا پڑھے لکھے تھے لیکن ستو کو اْن پر بھروسہ نہیں تھا ، دراصل وہ لوگ سْرجیت سے حسد کرتے تھے ،،،،سْرجیت کا پختہ مکان اور پھولوں سے سجا ہوا آنگن اْن کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا لیکن سْرجیت کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا کوئی لاکھ بْرا کرے لیکن اْس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی تھی ،وہ چْھٹی والے روز گاؤں کے نوجوانوں کو اکٹھا کر کے سرکار کی طرف سے سکیموں کی جانکاری فراہم کرتا ،گاؤں کے پرائمری اسکول کو مڈل اسکول بنانے کی بات کرتا ،انسان اور مویشیوں کے لئے اسپتال بنانے اور کئی محکموں میں جاکر کچھ عرضیاں دیتا اخباروں میں مطالبات کی خبریں شائع کرواتا ،علاقے کے ایم ایل اے کے پاس شہر جاکر گاؤں کے مسائل سے آگاہ کرتا…!اسی طرح اْس نے گاؤں کے سْدھار کئی کام کروائے تھے ،ان سارے کاموں کو کرانے میں بابو ہر دیو اْس کا ساتھ دیتا تھا کیونکہ وہ ایک بار اْن کے گاؤں میں بھی آیا تھا جہاں اْس نے کئی چیزوں کی کمی محسوس کی تھی ،سْرجیت کی حیاتی میں بھی وہ اْس کا ہمدرد تھا اور اْس کی .
موت کے بعد بھی وہ اْس کے بچوّں سے گلے لگا کر بہت رویا تھا ،اْس کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت سْرجیت کے بچوّں کی مْستقبل کی فکر رہتی جس کے لئے سْرجیت نے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے _ لیکن اب ستو کے چاروں جانب گنگھور اندھیرے تھے اْسے کچھ بھی سْجھائی نہیں دے رہا تھا ،اْسے لگتا تھا سْرجیت کے جانے کے بعد اْس کی اور بچوّں کی زندگی گہرے اندھیروں میں دفن ہوکر رہ جائے گی __،
اسکول سے گھر پہنچ کر بچوّں نے چارپائی سے لفافہ اْٹھا کر چاک کیا اور اند سے ایک چٹھی نکال کر حرف حرف جوڑ کر پڑھنے لگے ،کوئی قرض کی بات لکھی تھی چٹھی میں بس اتنا ہی سمجھ سکے بچّے ،ستو کو فوراً یاد آیا کہ پختہ مکان بنانے کے لئے سْرجیت نے اپنے محکمہ سے کوئی قرض لیا تھا ،وہ ابھی اس کے متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ اْس کابڑا بیٹا بول پڑا _،
امّاں کیوں نہ ہم باپو کے دفتر جا کر یہ چٹھی بابو انکل کو دکھائیں ،وہ ضرور کوئی راستہ دکھائیں گے ،پھر باپو کے سسکار والے روز دفتر والے کہتے تھے کہ اْس کے گھر میں سے کسی کو سرکاری نوکری مل سکتی ہے __،،
بیٹے کی بات سْن کر ستو کاچہرہ چمک اْٹھا ،جیسے اْسے اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی دی ،لیکن پھر اپنے ساتھ ہی سوچنے لگی ،،گاؤں والے کیا کہیں گے کل اس کا پتی مرا اور آج یہ شہر کی سیر کو چل پڑی __،،وہ خود کو ایک عجیب سی کشمکس میں محسوس کرنے لگی مگر سْرجیت کی وقت وقت پر کہی ہوئی
باتیں جیسے اْس کا ساتھ نبھا رہی تھیں ،،
ارے میری بھولی….! لوگوں کا کیا ہے __لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں ،پْرانے بزرگوں کا کہنا ہے کہ سو برتوں کو ڈھکن سے ڈھانپا جا سکتا ہے لیکن لوگوں کے مْنہ پر کوئی دھکن نہیں لگا سکا ،وہ تو ہر انسان کی پیٹھ کی پیچھے بہت کچھ کہتے ہیں ،اْن کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے _فقط آگے کے بارے میں سوچنا چاہئے کیونکہ راستہ آپ کا منتظر ہے منزل کی جانب اپنے قدموں تیز تیز اْٹھاؤ….منزل سامنے ہے… بالکل سامنے_____،،
سْرجیت اگرچہ جسمانی طور پر اْن کے ساتھ نہیں تھا لیکن اْس کی کہی ہوئی باتیں ستو کے ساتھ ساتھ اْس کے بچوّں کے من میں اپنا گھر بنا چْکی تھیں _،،
علی الصبح ستو اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر چار پانچ کلو میٹر کا پہاڑی راستہ طے کر کے شہر جانے والی بس میں سوار ہو گئی ___، چار گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد وہ دونوں سْرجیت کے دفتر پہنچ گئی ،دفتر کے ملازم ابھی ابھی آرہے ہیں لیکن بابو ہردیو تھوڑا تاخیر سے پہنچا ،،ستو کو دیکھ کر اْس نے سب کے سامنے ستو کے پیر چھوئے اور اْس کے بیٹے کو گلے سے لگا کر بھینچا،، ہردیو کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں ، اْس کو دیکھ کر دفتر کے سارے ملازم سوگ میں ڈوب گئے لیکن ستو نے اپنے اوپر قابو رکھا __،،ہردیو نے ستو سے چٹھی لے کر پڑھی پھر ایک کلرک کو سْرجیت کی فائل لانے کو کہا ،ستو اس چٹھی کو لے کر بے حد فکر مند تھی ہردیو نے اْس کاچہرہ پڑھ لیا تھا____،،
بھابھی یہ تو نوٹس ہے……!!! سْرجیت نے پختہ مکان بنانے کے لئے جو قرض لیا ہوا تھا اْس کی قسط اْس کی تنخواہ سے کٹتی تھی __،،.
بھیا اب کیا ہوگا ؟؟؟ ستو نے فکر مندی کی حالت میں پوچھا ،،
آپ فکر مت کرو بھابھی …!کچھ نہیں ہوگا ،،آپ کو ایک دہلہ بھی نہیں بھرنا پڑے گا _جب اس طرح کے قرضے دئیے جاتے ہیں تو اْس وقت قرض لینے والے کا بیمہ بھی کیا جا تا ہیاور موت ہونے کی صورت میں قرض کی رقم اْنہی سے وصول کی جاتی ہے ،میری بہن وکیل ہے _میں اْس سے بات کرکے عدالت سے کاروائی کرادوں گا ،آپ بالکل بے فکر رہیں__،،یہ کہہ کر ہردیو نے ستو کے لئے ایک عدد نوکری کی عرضی اور سْرجیت کی فیملی پینشن کے سارے کاغذات تیار کر کے فائل سمیت بڑے صاحب کے کمرے میں ستو کو ساتھ لے کر داخل ہوا ،بڑے صاحب نے سْرجیت کے کام کرنے کے طریقے کو سراہتے ہوئے کیا،،
سْرجیت ایک قابل اور چْست ملازم تھا وہ کبھی بھی کسی بھی کام کو لے کر انکار نہیں کرتا تھا ہر کام خندہ پیشانی سے انجام دیتا تھا ،وہ نہایت ہی دیانتدار اور فرمابر رار تھا ،وہ کبھی پیچھے مْڑ کر نہیں دیکھتا تھا ،،وہ اس دفتر کا ہمدرد اور رازدار شخص تھا ___،،
پھر بڑے صاحب نے یقین دلایا کہ وہ آپ کی فائل پوری ہمدردی اور سْفارش سے اوپر بھیجیں گے ،مجھے اْمید ہے جلد ہی آپ کی نوکری کا حْکم جاری ہوگا ___،،
گھر واپسی کے لئے بس میں بیٹھ کر ستو کے چہرے پر خوشی کے اثرات صاف صاف دکھائی د ے رہے تھے ،گھر والے کی کمی تو تھی لیکن بچوّں کا مْستقبل اْس کواندھیرے کو چیر کر نکلنے والی اس کرن میں صاف دکھائی دے رہا تھا ____،،،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں