اس جہاں میں جانے کتنے آدمی کے چہرے ہیں 93

گونگی رات کا کرب

افسانہ نگار:- پرویز مانوس

لگتا ہے ایک دن ضرور اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔۔ اس بدنصیب نے اس شہر میں کُشت خون دیکھا ہے، تمام شہر کو سخت بندشوں اور کڑے پہرے میں دیکھا ہے ، فضاؤں پر چھایا ہوا خوف و ہراس دیکھا ہے، دھرتی کے سینے پر بھاری بھرکم بوٹوں کی دندناہٹ سُنی ہے، گولیوں کی گھن گرج سُنی ہے، شہر کی جھیل کے شفاف پانی کو سُرخ ہوتے دیکھا ہے،اس کی آغوش میں کتنی ہی معصوم لاشوں کو تیرتے دیکھا ہے، یہاں کے آنگنوں میں ہزاروں میتیں اٹھتی دیکھی ہیں۔ اشکوں کا سیلاب دیکھا ہے، ہزاروں مکانات کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ ہزاروں عصمتیں تار تار ہوتے دیکھی ہیں۔ شیرخواروں کو دودھ کی خاطر بلکتے دیکھا ہے۔ بیماروں کو ادویات کے لئے تڑپتے دیکھا ہے۔ بھوکوں کو روٹی کے واسطے ترستے دیکھا ہے۔ ارمان لٹتے دیکھے ہیں۔ حسرتیں مٹتے دیکھی ہیں۔ امیدوں کو ٹوٹتے دیکھا ہے، خواب چکناچور ہوتے دیکھے ہیں، ماؤں کی دلخراش چیخیں اور بہنوں کے بیّن سُنے لیکن سواے تلملانے اور اشک بہانےکے وہ کچھ نا کرسکی کیونکہ خاِلق کائنات نے اسے وجود تو بخشا تھا لیکن گونگا۔۔۔۔۔،،،،،،،
شاید اسی لئے کہ وہ واحد ایسی تخلیق تھی جو آدم ذاد کے تمام گناہ اور عیوب دیکھنے کے باوجود خاموش رہ سکتی ہے۔ آخر یہ اپنی داستان بیان کرے تو کیسے؟اپنے جذبات،اپنے غم اور کرب کا اظہار کرے تو کیسے؟یہ بیچاری ہر بار اپنے معزور وجود پر آنسو بہاتی اور دل مسوس کر رہ جاتی ۔۔۔۔،،،،،،
آج بھی خاموش لبّوں۔۔۔،سُونی آنکھوں۔۔ ۔۔،افسُردہ چہرے۔۔۔۔۔،
غمزدہ دل اور سوچوں کے خارزار میں الُجھے دماغ سے وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی،،،،،،،،،
بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع چٹیل میدان میں انہوں نے اپنے خیمے گاڑ رکھے تھے۔ ایک جانب بہت بڑی کڑاہی میں سُرخ لہو ابُل رہا تھا۔ دوسری طرف ایک بڑے توے پر انسانی ماس کی بوٹیاں فرائی کی جا رہی تھیں، متعدد جگہوں پر انسانی اعضاء کے الگ الگ انبار لگے ہوئے تھے۔ جس کی عفوُنت دور تک پھیلی ہوئی تھی، دیوذادوں کا مجمع الاو کے اردگرد بیٹھا اپنے آقا کے لئے کی گئی تیاریوں کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔۔۔۔،،،،،
اس رونق بھرے شہر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ خوشیاں رقص کر رہی تھیں،امن کی فضا قائم تھی۔ ہر شخص اپنی زندگی سے مطمئن تھا کہ اچانک ایک دن دیوذادوں کا ایک گروہ سنگتری لباس زیب تن کیے فصِیل شہر عبور کر کے اس راجوڑے کے اندر داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔،
کوشش تو انہوں نے اس سے قبل بھی کئی مرتبہ کی تھی لیکن روحانی بزرگوں کی ایک جماعت نے انہیں فصیل کے اس طرف ہی روک دیا تھا لیکن اب کی بار یہاں کے “امیر” کی خود غرضی اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر وہ راجواڑے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے
منصوبے کے تحت انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہاں کے “امیر”کو اپنی شاطرانہ چالوں سے سبز باغ دکھا کر اقتدار کا ایسا نشہ پلایا کہ وہ اپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھا اور پھر انہوں نے اپنے مشن پر کام کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔،،
وہ دن بھر پورے شہر میں عام انسان کے روپ میں گھومتے رہتے اور اندھیرا ہوتے ہی اپنا شکار اٹھا کر غائب ہو جاتے اور لوگ بےبسی میں دیکھتے رہ جاتے ،،
ان کے آقا کو مسندِ اقتدار پر مستقل براجمان رہنے کے لئے ایسا کرنا لازمی تھا۔ کیونکہ اس مقام پر پہنچنے کے لئے ان کے پیشواؤں نے اقتدار میں بنے رہنے کے لئے پورے ایک سوایک انسانوں کے خون کا تلک لگانے کی روایت قائم کر رکھی تھی۔۔۔ ان کا ماننا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ طویل عرصہ تک اقتدار میں رہ سکتے تھے۔۔۔،، اس سلسلے ميں ہربار ایک نیا شہر ان کا ہدف ہوتا،،، اس سے قبل وہ یہ کارنامہ اپنے جنگل نُما شہر میں انجام دے چکا تھا۔ لیکن اگلی معیار کے لئے اسے یہ کام پھر سے انجام دینا پڑا ۔۔۔۔۔،،،،
لہذا اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انہوں نے راج تلک کے لئے ایک سو ایک انسانوں کا لہو جمع کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔، انہوں نے شہر میں ایسا تانڈو مچایا کہ انسانیت شرمسار ہو اٹھی، دھرتی کانپ اٹھی،آسمان رو پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔،،،
ان کی واہیات حرکتوں سے شہر کے تمام باشندے پریشان ہو اٹھے ،،، روز ایک ماں کی آغوش سُونی ہو جاتی،روز کوئی گھر اپنے کفیل سے محروم ہو جاتا جب ظلم و ستم کا دریا سر کے اوپر بہنے لگا تو رعایا کی انکھیں اپنے بنائے ہوئے “امیر” کی طرف تکنے لگیں…… پھر رعایا “امیر”کو ڈھونڈنے میں لگ گئی ، کیونکہ ان لوگوں نے اسے “امیر”بنانے کے لئے اپنے انگوٹھے کاٹ کر تحفے میں دے دئیے تھے لیکن اس مشکل وقت میں اس کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نا تھا جسے وہ اپنی درد بھری روداد سناتے اور اس کے حواری،وہ تو حالات کی تمازت سے بچنے کیلئے کب سے اپنی کمین گاہوں میں چھپ کر بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔،،،،
دیکھتے ہی دیکھتے دیوذادوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور ان کی آمد سے راجوڑے کے مکیں خوف وہراس کے مارے اپنے اپنے گھروں میں دُبک کر رہ گئے اگرچہ انہوں نے بہت چلایا مگر ان کی آواز کو راجواڑے سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔۔۔۔،
دیوذادوں نے آج اپنے آقا کے لئے راج تلک کی تیاریاں مکمل کر کے اسُے ہواؤں کے دوش پر یہاں آنے کی پیغام دے دیا تھا۔۔ حالانکہ ابھی تک صرف ایک سو انسانوں کالہو ہی وہ جمع کر پائے تھے لیکن ان کے آقا کا یہ فیصلہ تھا کہ آخری انسان کا انتخاب وہ خود کرےگا۔۔۔۔،،،،پھر جُونہی انُ کے آقا کے اڑنُ کھٹولے نے زمین کو چھوُا تو سارے علاقہ میں ایک بھونچال سا آگیا۔۔۔ چاروں اطراف سائیں سائیں کی صدائیں گونجنے لگیں پھر ایک بہت بڑے گروہ کے ہمراہ اسے میدان میں انسانی ہڈیوں سے بنے ہوئے تخت پر اہتمام سے بٹھایا گیا…..
گھپ اندھیرے نے ساری کائنات کو اپنی آغوش میں لے لیا ، دیوذاروں نے میدان میں گاڑے ہوئے خیموں کی پیشانی پر ایک ایک مشعل روشن کر کے اندھیرے کو شکست دینے کی بھرپور سعی کی اور پھر اس کے سامنے ہَون کنُڑ میں آگ جلا کر یگیہ شروع کیا گیا.. ارد گرد نجومیوں کی ایک جماعت بیٹھ منتروں کا جاپ کرنے لگی ۔۔۔۔۔،،
زور زور سے نگاڑے بجنے لگے _۔۔ ناچ شروع ہو گیا _،،
چند دیوذادے بھالوں سے انسانی ماس کی بوٹیاں توے سے اٹھا اٹھا کر کھانے لگے۔۔۔۔،آقا کے بھدے چہرے پر یہ فاتحانہ مسکراہٹ اس لئے رقص کر رہی تھی کہ اس نے اپنے اجداد کی اس روایت کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا ۔۔۔،،،
“امیر”نے اپنی نیم وا آنکھیں کھولیں تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ چونک پڑا ،،،،
یہ خون؟؟؟ یہ خون تو اس کی رعایا کا ہے اسی رعایا کا جس نے اس کے سر پر اقتدار کا تاج سجانے کے لئے اپنے انگوٹھے تک قربان کر دئیے۔۔۔۔اس نے تو اپنی رعایا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی جنات،دیو یا آسیب کا سایہ تک ان پر نہیں پڑنے دے گا اور سابقہ امیروں کے دئیے ہوئے زخموں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم لگائے گا،،،، پھر یہ تو انہی کے خون سے تلک کرنے والا ہے۔۔۔،، اس فعل کے خلاف اسُ نے اپنا منہ تو کھولا مگر آواز تو اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی ۔۔۔ اس کی آواز ،اس کے الفاظ، اس کی قوت،،، اس کی سوچ سب کچھ دیوذادوں کے آقا نے اپنے بس میں کر رکھا تھا۔ دفعتًا اس کی آنکھوں کے سامنے بھگوا رنگ کا کپڑا لہرانے لگا اور پھر دو طویل قامت دیوؤں نے اسے اٹھا کر اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دیا جہاں وہ تڑپنے اور کسمسانے لگا۔۔۔۔۔۔ ،،،
دیوذادو کے آقا نے “امیر” کو اپنی جادوئی دھنُ پر نچا نچا کر اسقدر تھکا دیا تھا کہ اس کا سارا جسم چورُ ہو چُکا تھا ۔۔۔۔،،،
وہ نیم بےہوشی کی حالت میں اس کے قدموں کے نیچے تڑپ رہا تھا۔ منتروں کا جاپ بند ہو گیا ۔۔۔۔۔
نگاڑے خاموش ہو گئے ۔۔۔۔۔۔
رقص کرتے قدم تھم گئے ۔۔۔۔۔۔۔
ایک بھاری بھرکم آواز میدان میں گونج گئی ،،،،، مہورت کا سمے نکٹ آگیا ہے۔۔۔۔! راج تلک شروع کیا جائے ،،،،،،، یہ سُنتے ہی سارے دیوذادے ایک دوسرے کی طرف
دُددیدہ نظروں سے دیکھنے لگے
تم لوگ پریشان کیوں ہو؟
اپنے آقا کی آواز پر سب کے سر جھک گئے، پھر نزدیک کھڑے ایک قوی ہیکل دیو نے انکساری سے کہا ،،،،،،
کشما چاہتا ہوں آقا۔۔۔۔۔۔!
اس کڑاہی میں ابھی صرف ایک سو انسانوں کا لہو ابُل رہا ہے جبکہ آپ کے راج تلک کے لئے پورے ایک سو ایک انسانوں کے لہو کی آؤشکتاہے ،،،،
بس اتنی سی بات کے لئے تم پریشان ہو؟
تمہیں یاد نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!
میں نے کہا تھا کہ آخری انسان کا ابتخاب میں خود کروں گا، آقا کی بارعب آواز میدان میں گونج گئی ،،،،،
تم سب اچھی طرح جانتے ہو کہ مکاری ہمارے خون میں ہے۔۔۔۔۔
وعدہ خلافی ہمیں وراثت میں ملی ہے۔۔۔۔۔
بےوفائی ہماری فطرت میں ہے ۔۔۔۔۔
اور فریب کاری ہمارا اصول۔۔۔۔۔
یسے میں جو اپنی رعایا کا نہیں ہو سکا وہ ہمارا کیا ہوگا _ اس لئے اس موقعہ پرست، کٹھ پُتلی “امیر”کو اٹھا کر خون سے ابُلتی ہوئی اس کڑاہی میں ڈال دو۔۔۔۔۔۔،،،،،
یہ الفاظ سُنتے ہی “امیر” پر لرزا طاری ہو گیا اور آنکھوں سے چھم چھم اشک برسنے لگے _ وہ بہت جچھٹ پٹایا مگر اس کی ایک نہ چلی،،، دیوؤں نے اسے اٹھا کر کڑاہی میں ڈال دیا ۔۔۔۔۔۔،،،،،،،
تمام دیوذادوں نے کڑاہی میں سے لہو کا ایک ایک پیالہ نکال کر اپنے ہاتھوں ميں تھام لیا آخر میں ایک بزرگ دیو نے کڑاہی میں سے ایک کڑمنڈل خون نکال کر اپنے آقا کے ماتھے پر لمبا تلک لگاتے ہوئے کہا ،،،،،، طویل اقتدار مبارک ہو آقا۔۔۔۔۔۔!!!!
اسی کے ساتھ تمام دیوذادوں نے پیالے اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا ،،،،،، بدھائی ہو ۔۔۔۔۔،،،
بدھائی ہو۔۔۔۔۔۔،،،
یہ سب دیکھ کر اندھیری رات کا سینہ پھٹ گیا اور اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر سورج کی دہلیز پر بھکر گیا ۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں