سیما بمقابلہ جیوتی: ’ایک کی تعریف لیکن دوسری پر تنقید 0

سیما بمقابلہ جیوتی: ’ایک کی تعریف لیکن دوسری پر تنقید

یہ کیسا دوہرا معیار ہے‘ انڈین سوشل میڈیا پر بحث

انڈیا میں سوشل میڈیا پر جہاں پاکستان سے انڈیا آنے والی سیما حیدر بحث و مباحثے کا مرکز ہیں تو وہیں جیوتی موریہ پر بھی بات ہو رہی ہے اور بہت سے لوگ ان دونوں خواتین کا موازنہ بھی کر رہے ہیں۔
جیوتی موریہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ سیما حیدر ایک انڈین نوجوان سچن کی محبت میں اپنے چار بچوں سمیت پاکستان سے اترپردیش پہنچی ہیں۔
جیوتی کے شوہر آلوک موریہ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ڈپٹی کلکٹر بننے کے بعد انھیں چھوڑ دیا۔ آلوک نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے اپنی بیوی کی پڑھائی کے لیے قرض لیے، جس کے نتیجے میں وہ کامیاب ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر ان دونوں خواتین سے متعلق مباحثہ زوروں پر ہے لیکن لوگوں کی آرا منقسم ہے۔ بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ دونوں خواتین نے ایک ہی طرح کا کام (اپنے شوہروں کو چھوڑنے) کیا لیکن ایک کی پذیرائی ہو رہی ہے جبکہ دوسری کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ان خواتین کا ذاتی معاملہ ہے جبکہ بعض اسے سماج پر پڑنے والے دیر پا اثرات کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
اگرچہ جیوتی کا معاملہ ایک مہینے سے انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا میں موضوع بحث ہے لیکن سیما حیدر کے واقعے نے اسے ایک بار پھر سے تازہ کر دیا ہے۔
کماؤنی دیپتی نامی صارف نے این ڈی ٹی وی کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ کیسی منافقت ہے کہ جیوتی موریہ بری عورت ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا لیکن سیما حیدر کی تعریف ہو رہی ہے اور انھیں بھابھی کہا جا رہا ہے حالانکہ انھوں نے بھی اپنے شوہر کو چھوڑ دیا جبکہ سچن کو ہیرو کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔‘
ہیومن رائٹس جسٹس ایسوسی ایشن نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ’جیوتی موریہ کو اس لیے گالی دی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا، وہیں دوسری جانب پاکستان سے آنے والی سیما حیدر کے نام پر محبت کی دہائی دی جا رہی ہے جبکہ سیما بھی اپنے شوہر کو چھوڑ کر آئی ہیں۔ یہ دوہرا رویہ کیوں؟‘
ایک صارف نے جیوتی کی ٹرولنگ اور سیما حیدر کے سراہے جانے پر لکھا کہ ’جیوتی ایک مضبوط، تعلیم یافتہ اور آزاد خاتون ہیں جنھوں نے موقع ملتے ہیں فیملی کی جگہ ترقی کو منتخب کیا اس لیے انھیں گالی دی جا رہی ہے۔ سیما حیدر اسلام کو چھوڑ کر ہندو بن گئیں، اس لیے اس کے پاکستانی ہونے پر بھی کسی کو اعتراض نہیں اور نہ ان کے اپنے شوہر کو چھوڑنے پر۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
ایس پی بھارتیہ نے لکھا کہ ’جیوتی موریہ دو بچوں کی ماں نے شوہر کو چھوڑا، سیما حیدر چار بچوں کی ماں نے اپنے شوہر کو چھوڑا۔ جیوتی موریہ کو جو سماج گالیاں دے رہا تھا، وہی سماج سیما حیدر کے لیے جشن منا رہا ہے۔ موریہ انڈین ہے اور سیما پاکستانی۔ کیا غضب کا دوہرا معیار ہے۔‘
شلپا ٹھاکر نامی صارف نے لکھا کہ ’سیما حیدر کی تعریف کرنے والے جیوتی موریہ کو گالی دے رہے ہیں۔ سیما اپنے شوہر کو چھوڑ کر چار بچوں کے ساتھ اپنے عاشق کے ساتھ رہنے کے لیے آئیں۔ ان کی تعریف ہو رہی ہے۔ پیار کی تعریف ہو رہی ہے۔ لیکن بغیر کسی افیئر کی بات ثابت ہوئے یہی لوگ جیوتی کو گالی دے رہے ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سیما حیدر کی مبینہ ذلت بھری زندگی وہ وجہ تھی جس سے تنگ آ کر وہ محبت کی خاطر انڈیا چلی آئیں جبکہ جیوتی کی حیثیت میں ترقی ہوئی تو انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔
ندھی رتن لکھتی ہیں کہ ’جیوتی موریہ پر سینہ پیٹنے والوں نے پاکستانی خاتون سیما چار کے چار بچوں کے ساتھ شوہر کو چھوڑ کر انڈیا آنے کو کیسے برداشت کر لیا۔ کہاں سے لاتے ہیں اتنا دوہرا پن ، ہر چیز میں ہندو مسلمان چاہیے۔‘
اس معاملے پر بی بی سی ہندی کی سوشیلا سنگھ نے دلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں صنفی مسائل پر کام کرنے والی ماہر معاشیات ڈاکٹر دیپا سنہا سے بات کی۔
ڈاکٹر دیپا سنہا نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو لوگ خواتین کی شبیہ اور کردار پر ہی سوال اٹھانے لگتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ رویہ معاشرے میں خواتین سے متعلق سوچ کو پیش کرتا ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں