اس جہاں میں جانے کتنے آدمی کے چہرے ہیں 73

کالو بھنگی کی واپسی

تحریر : پرویز مانوس
ایئرپورٹ ٹرمینل سے باہر نکل کر میں نے اسٹینڈ سے ٹیکسی لی اور ڈرائیور کو ایڈریس بتا کر سیٹ پر دراز ہو کر بیٹھ گیا _ دہلی جیسے بڑے شہر میں پورا ایک ہفتہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے میرا جسم مزید مشقت کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا _ میں جلدی سے جلدی گھر پہنچ کر آرام کرنا چاہتا تھا۔۔۔ سوچ رہا تھا، ابھی ابھی تو بڑی مشکل سے اس ماتمی شہر کے باشندوں کی زندگی کی گاڑی پٹری پر آئی تھی ، پتہ نہیں حکومت کو کیا سُوجھا کہ جی ایس ٹی کا بم گرا کر ایک اور دھماکہ کردیا جس سے خطہ افلاس سے نیچے گُزر بسر کرنے والوں کے خواہشوں کے آئینے چوُر چوُر ہوگئے _ پہلے ہی عوام ظُلم اور بربریت سے نجات حاصل کرنے کی خاطر شہر کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے پھر اس جبری حُکم نامے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔۔۔۔۔،، دہلی میں نئے ٹیکس نظام کے تحت اپنے کاروبار کو رجسٹرڈ کروانے کے لئے خانہ پوری کرتے کرتے ہفتہ گُزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔۔۔ گھر میں بیوی بچوں کو بھی تسلی نہیں ہوئی ، ہوتی بھی کیسے میں نے وقت ہی کتنا دیا تھا اُن کو ،، صُبح سویرے گھر سے نکل کر دن بھر ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک پہنچنے میں جب تمام جسم پسینے سے شرابور ہوجاتا تب اس وادئ گُلپوش کے سُبک سُبک ٹھنڈے جھونکوں کی قدر محسوس ہوتی، یہی وجہ تھی کہ میں نے گاڑی کی کھڑکی کے دونوں اطراف کے شیشے ڈاون کر رکھے تھے _ قمیض کےبٹن کھول کر میں ایک عجیب سی فرحت محسوس کر رہا تھا _ کھڑکی سے باہرنظر دوڑائی تو ویران شہر، بند دُکانیں اور سُنسان سڑکیں میرا مُنہ چڑا رہیں تھیں،، لگتا ہے احتجاج اور ہڑتالیں ابھی تک جاری ہیں؟ میں نے ڈرائیور سے دریافت کیا _ صاحب جی! لوگ بھی کیا کریں! پچھلے ایک مہینے میں پچیس بےگناہ لوگ فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہو چُکے ہیں ،حالات ٹھیک ہوں بھی تو کیسے؟ ڈرائیور نے گئیر بدل کر مجھے شیشے میں دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ ہاں بھائی! تمھارا کہنا بالکل دُرست ہے، مرتا تو ہر حال میں انسان ہی ہے وہ چاہے سیول ہو یا فورسز کا ۔۔۔۔۔،، کسی کفیل کے مرنے کے بعد اُن کے کنُبوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ تو وہی لوگ جانتے ہیں، کیا کسی نے اُن مفلوک الحال لوگوں کی خبر لینے کی زحمت بھی گوارا کی ؟ میں نے قمیض کے بٹن بند کرتے ہوئے کہا،، تمھارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے ڈرائیور کے خیالات جاننا چاہے، صاحب جی! ہم ا س متنازعہ پیڑ کی ڈال کے وہ بد قسمت پرندے ہیں کہ جن کے پر ہر پانچ سال کے بعد مختلف سیاستدان آکر وعدوں کی قینچی سے کتر دیتے ہیں ، ہماری سُنتا ہی کون ہے،، مجھ پر ذمہ داریوں کا ایک پہاڑ ہے بزرگ ماں باپ ہیں، تین بچے ہیں، بیوی ہے ، اکیلا کمانے والا ہوں،، ہر خانہ دار کی طرح میں بھی صُبح سویرے گھر سے روزی روٹی کی تلاش میں نکل پڑتا ہوں تاکہ اپنے عیال کا پیٹ بھر سکوں ، نعرے بازی کرنے یا پتھر مارنے کے لئے بھلے ہی میرے پاس وقت نہ ہو لیکن اس جبر و ظُلم کے خلاف میرے دل میں بھی نفرت کا ایک سائیکلون موجزن ہے، سوچتا ہوں پتہ نہیں کب صبر کا یہ باندھ ٹوٹ جائے اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق میں بھی ان احتجاجیوں میں شامل ہو کر جان دے دوں گا ۔۔۔۔۔،،
ڈرائیور گول موڑ کاٹتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا ،، صاحب جی! دائیں یا بائیں؟ میں جو ابھی تک ڈرائیور کی جذباتی تقریر میں محو تھا چونک کر بولا،،
تھوڑا آگے چل کر بائیں جانب! ڈرائیور کی باتیں سُن کر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کس قدر نفرت پنہاں ہے یہاں کی عوام کے دل میں ملک کے حُکمران کے خلاف،
میں سوچنے لگا ،،کیا سوچ کر یہاں کےحُکام بیرونی سیاحوں کو یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں جہاں کے مکین خود اس جنت نُما دوزخ سے اُکتا چکے ہیں،، آخر اس مسلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ میں نے ڈرائیور کو کُریدتے ہوئے پوچھا،،
ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر اس قفس سے رہا کردیا جائے۔۔۔۔۔،،یہ اُن کی بڑی مہربانی ہوگی بس۔۔۔۔۔،،
ڈرائیور نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا اور ٹیکسی ایک جھٹکے کے ساتھ رُک گئی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنا سوٹ کیس سنبھالتے ہوئے پوچھا،، کیا ہوا رُک کیوں گئے؟ صاحب جی آگے جلوس چل رہا ہے! جلوس؟ کیسا جلوس؟ ایک منٹ صاحب کسی راہگیر سے پوچھتا ہوں کہہ کر ڈرائیور کھڑکی سے سر باہر نکال کر ایک شخص سے پوچھنے لگا،، چند لمحوں بعد سر اندر کر کے کہنے لگا،، صاحب جی! یہ کوئی معمولی جلوس نہیں ہے بلکہ میت کے ساتھ لوگ شامل ہیں،، اتنے سارے لوگ؟ میں نے جلوس کی لمبائی اور لوگوں کی تعداد دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا،، ہاں صاحب جی! کل رات جو شخص شہید ہوا تھا یہ اُسی کی میت ہے ۔۔۔ بائی دے وے تھا کون یہ؟ معلوم نہیں صاحب ،، کہتے ہیں کوئی سُلہ موت سُلہ موت تھا،،
کیا؟؟؟؟ نام سُن کر جیسے کسی نے مجھے سوُئی چُبھو دی ،سُلہ؟ میرے مُنہ سے بے ساختہ نکل گیا،، کیا بات ہے صاحب جی! آپ پریشان ہو گئے؟ کیا آپ اُسے جانتے ہیں؟
میں اُسے کیسے بھول سکتا ہوں؟
تم ایک کام کرو ،مجھے یہیں چھوڑ دو میں بھی اُس کے جنازے میں شامل ہونا چاہتا ہوں، میں نے پرس سے کرایہ نکال کر اُس کے حوالے کرتے ہوئے کہا اور سوٹ کیس لے کر جنازے کی ساتھ چل رہے لوگوں میں شامل ہوگیا ۔۔۔۔۔،،
سُلہ کا سراپا میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگا، اُس کی اپنا پن میں کہی ہوئی معصوم باتیں میرے کانوں میں بازگشت کرنے لگیں،،
ژیہ کیاہ ناؤ؟ (تمھارا نام کیا ہے) پرکاش چوپڑا ۔۔۔۔۔،
ژ ء کتیہ روزان)(تم کہاں رہتے ہو؟)
دلی میں……. دلی کتیہ چھ (دلی کہاں ہے؟ ) انڈیا میں….. انڈیا گندہ ……انڈیا گندہ……. کشیر اصل کشیر اصل ۔۔۔۔۔،،کہہ کر وہ میرے بیڈ سے اُٹھ کر جنرل وار ڈ سے باہر تو نکل گیا پر میرے ذہن پر گندہ لفظ کا منوں بار چھوڑ گیا _ میں سوچنے لگا کتنی حقارت سے اس نے گندہ کہا،،،
اُس کا پورا نام محمد سُطان تھا لیکن ماں اُسے لاڈ سے سُلہ سُلہ پُکارتی تھی، عمر لگ بھگ بائیس سال ، گورا چٹا رنگ، ٹھنگنا قد، تندرست جسم، بھرا بھرا چہرہ، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ، مُنہ پورا کھوسا ، سر پر ایک بھی بال نہیں، دُور سے ایسا لگتا جیسے کسی نے تانبے کی دیگچی اُلٹ کر رکھی ہو، ننگے اور پھٹے پھٹے کُھردرے پاؤں، ہاتھ میں تانبے کی ایک کینز (کھانا کھانے کا گول برتن ) جس پر چڑھی کلعی وقت کے ساتھ ساتھ گھِس چُکی تھی لمبے پرانے فرن میں ملبوس گلے میں پانچ چھ تسبیح ڈالے وہ اپنے ساتھ بڑبڑاتا رہتا،، موج موئیہ (ماں مر گئی )۔۔۔! موج موئیہ (ماں مرگئ)۔۔۔!
میں پچھلے بتیس برس سے اس شہر کے زینہ کدل علاقہ میں تھوک کپڑوں کا بیوپار کر رہا تھا جہاں چار مقامی ملازم میرے پاس نہایت ہی نیک نیتی اور ایمانداری سے کام کرتے تھے، میرا اپنا تو یہاں کوئی تھا نہیں، لے دے اب یہی میرا سب کُچھ تھے، ایسا نہیں کہ میرا کوئی تھا ہی نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک عیال میرے ساتھ یہاں رہا پھر انھوں نے نامساعد حالات دیکھے تو یہ کہہ کر یہاں آنے سے انکار کر دیا کہ یہاں تو جان کا خطرہ ہے ،،حالانکہ میری طرف آج تک کسی نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا، اُلٹا ہر روز شام کو چند نوجوان آکر پوچھتے،، او لالہ کوئی پریشانی مت ہے۔۔۔۔۔؟ میں مسکراتے ہوئے کہتا،، آپ جیسے بھائیوں کے ہوتے ہوئے مجھے بھلا کیا پریشانی ہو سکتی ہے! چلوکرو عیش! کہہ کر وہ آگے بڑھ جاتے،، اپنے ساتھ اُن کا یہ سلوک دیکھ کر میں سوچتا باقی لوگوں کی طرح یہاں سے ہجرت نہ کرنے کا میرا فیصلہ صحیح تھا،، ان برسوں میں یہاں بولی جانے والی زبان کے کافی سارے الفاظ میں نے سمجھ لئے تھے مگر بول نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔،، چند روز قبل جب مجھے گُردے میں تکلیف کی وجہ سے شہر کے اس بڑے سرکاری اسپتال میں داخل ہونا پڑا تو میں نے سُلہ کو اسی وارڈ میں بار بار گشت کر تے دیکھا ۔۔۔۔ شام کو جب کمپونڈر انجکشن لگانے آیا تو میں نے اُس سے سُلہ کی بابت دریافت کیا ،اُس نے بتایا کہ آج سے تقریباً دس سال قبل کسی پچھڑے دیہات سے اپنی بیمار ماں کے ساتھ اسپتال میں آیا تھا اُس کے ساتھ اُس کے دو بھائی بھی تھے اس کی ماں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسپتال میں زیرِ علاج رہی تو اُن دونوں بیٹوں کو بار لگنے لگی ،رفتہ رفتہ انھوں نے ماں کی خبر گیری کے لئے آنا بھی مناسب نہ سمجھا پھر ایک دن اُن کے انتظار میں اُس بدنصیب کی روح نیم وا آنکھوں قفسِ عنصری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پرواز کر گئی،،، مقامی لوگوں نے مل جل کر اُس کو نزدیک کے قبرستان میں سُپرد خاک کر دیا ،، اُس دن سُلہ بہت رویا _ زور زور سے چلایا،، موج موئیہ (ماں مرگئی)۔ ۔۔موج موئیہ (ماں مرگئی) ۔۔۔،، اُس کو ماں کے ساتھ بے حد لگاؤ تھا، اس لئے سُلہ کو ماں سے جُدا ہونے کا زبردست صدمہ پہنچا ، بس اُس کے بعد اُس کا نام سُلہ موت پڑ گیا ۔۔۔،،وہ دن ہے اور آج کا دن سُلہ کے لئے یہ اسپتال ہی اس کا گھر اور یہاں آنے والے مریض اس کے رشتہ دار،،،،، وہ ہر رات ماں کی قبر پر جا کر گھنٹوں روتا رہتاہے ۔۔۔۔۔۔۔،،اُف.. …! میں نے ایک لمبی آہ بھری اور سوچنے لگا،، کتنا فرق ہے اُن دو بیٹوں اور سُلہ میں؟ یہ ممتا کا بھوکا، وہ دولت کے مریض ،،،،،
ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ایک دن دوپہر کو میں اسپتال کے برآمدے میں ٹہلنے نکلا تو میری نظر اسپتال کے داخلی دروازے کی سیڑھیوں پر پڑی جہاں سُلہ ایک لڑکے سے اپنی چندیا کی مالش کر وا رہا تھا، مالش کرتے کرتے اُس کو اونگھ آگئی اور وہ وہیں فرش پر سو گیا،،،، یہ منظر دیکھ کر مجھے کرشن چندر کے افسانے کا ایک کردار کالو بھنگی یاد آگیا جو اسی طرح اپنی چندیا گائے سے چٹاتے چٹاتے ہری ہری گھاس پر ہی سو جاتا تھا۔۔۔۔۔،،
سُلہ کی حالت کالو بھنگی سے کچھ مختلف نہیں تھی وہ اسپتال میں بھنگی کا انجام دیتا تھا تو سُلہ بیماروں کی بے لوث خدمت کرنے میں محو رہتا یا پھر کواٹروں میں اسپتال کے عملے کا کوئی چھوٹا موٹا کام کر دیتا تھا فرق تھا تو بس اتناکہ اِس نے کسی کو اپنی کہانی لکھنے کے لئے مجبور نہیں کیا حالانکہ اس کی زندگی کی کہانی کالو بھنگی سے زیادہ دُکھ بھری اور پرُ درد تھی ،،
ایک دن جب میرے مکان مالک جو نہایت ہی نیک اور ہمدرد تھے میرے لئے شام کا کھانا لے کر آئے تو میں نے ہاٹ کیس میں سے ڈِبہ نکال کر کھانا شروع کیا ،سُلہ جو وارڈ میں ٹہل رہا تھا آکر میرے بیڈ کے پاس کھڑا ہوگیا،، میں نے اُسے اشارے سے کھانے کی دعوت دی کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد وہ بولا ،،
ژہ کیاہ کھیوان؟ (تم کیا کھا رہے ہو ) الی ژوٹ! ( ارے روٹی) وہ ڈبے میں جھانک کر خود ہی بولا ،، گندہ گندہ………. بتہ اصل بتہ اصل (بھات اچھا ، بھات اچھا،،کہہ کر وہ سامنے والے مریض کی جانب چل دیا جو بھات کھانے لگا تھا،،
وہ دن مجھے بھلا کیسے بھول سکتا ہے جب سینکڑوں کی تعداد میں پیلیٹ ذدہ طُلبا کو اسپتال میں لایا گیا تو سفید وردیوں پر سُرخ خون دیکھ کر وہ اپنا مُنہ پیٹتے پیٹتے رونے لگا ،،،، ہتے موجیہ ……. نیکی نیکی شُری ہائے مارکھ ! کتراہیکھ ہائے ۔۔۔۔۔ کتراہیکھ،، (ہائے میری ماں چھوٹے چھوٹے بچوں کو نشانہ بنا کے تہیہ تیغ کیا) وہ کبھی ایک بچے کا خون پونچھتا تو کبھی دوسرے کا ،یہاں تک کہ دوڑ دوڑ کر وہ بے سکت ہو گیا اور وہیں گر پڑا،،،،، اُس کا یہ روپ دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ محبت خلوص اور ہمدردی کا مکمل پیکر ہے ،
اُسے دیکھ کر مجھے کالو بھنگی اس لئے بھی یاد آتا کیونکہ بھولا بھالا اور معصوم وہ بھی تھا اور یہ بھی …… پیار محبت کا بھوکا وہ بھی تھا اور یہ بھی ہے، اُس نے ڈاکٹر گوری شنکر کی ٹھوکریں کھائیں تھیں تو سُلہ نے سپاہیوں کی۔۔۔۔۔،، دن بھر وہ اسپتال کی لابی اور وارڈ میں ٹہلتا رہتا اور رات کو آکر اُسی بیڈ پر سوجاتا جس پر اُس کی ماں نے آخری سانس لی تھی، کسی اور کو اُس بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر وہ بھڑک اٹھتا اور زور زور سے چلانے لگتا، ماجہ ہُند بیڈ (ماں کا بیڈ )۔۔۔۔۔ماجہ ہُند بیڈ (ماں کا بیڈ )…….. دفعہ گس دفعہ گس (دفعہ ہوجاؤ ) (دفعہ ہو جاؤ)۔۔۔۔۔،،،،،،
کچھ دن بعد میں نے اُسے اسپتال کے احاطے میں اُنھی بچوں کے ساتھ جن کی دُنیا تاریک ہو چُکی تھیں،، ہوکس بوکس تلیہ ون ژہ کُس کا روایتی کھیل کھیلتے اُن کا دل بہلا تے دیکھا ۔۔۔۔۔،،
نُون چائے کا وہ بہت شوقین تھا جب بھی کسی مریض کے لئے گھر سے چائے آتی تو وہ نُون چائے نُون چائے کہتا اُن کے درمیان بیٹھ جاتا ،وہ بھی خوشی خوشی سُلہ کو نمکین چائے کی بھرا پیالہ اور ژوچہ ورو (کشمیری روٹی )دیتے چائے پی کر وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا،، مز مز (مزہ مزہ )۔۔۔۔۔،،
اُس کی ایک اور اچھی خوبی کا علم مجھے اُس دن ہوا جب وہ سہ پہر کے بعد اسپتال میں دکھائی نہیں دیا تو میں نے ایک نرس جو کہ اُس کا بہت خیال رکھتی تھی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ہر جمعرات کو سُلہ دستگیر صاحب کے آستان پر جاتا ہے،، تو مجھے یاد آیا کہ گزشتہ جمعرات کو بھی اُس نے واپسی پر وارڈ میں سب مریضوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی شیرینی دیتے ہوئے کہا تھا،، کھیہ کھیہ ( کھاؤ کھاؤ )۔۔۔۔۔،تبروک تبروک (تبرک تبرک )۔۔۔۔۔شفا شفا ۔۔۔۔۔،،
ایک دن میں نے اسے انگلی کے اشارے سے اپنی طرف بلایا تو وہ ایک جانب سے فرن کاندھے پر اُٹھائے میرے بیڈ پر بیٹھ گیا ،میں نے اُنگور کا ایک گُچھا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،، کھاؤ کھاؤ ۔۔۔، دو چار دانے کھانے کے بعد اس نے سوال کیا،، چانئ شُر یہ کتیہ ؟( تمھارے بچے کہاں ہیں…… گھر میں! میں نے مختصر جواب دیا، ژ یہ چھیہ موج ؟ ( تمھاری ماں ہے) میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگا،،، موج موئیہ (ماں مرگئی ) ۔۔۔۔. موج موئیہ (ماں مرگئی )! میں نے اس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے دلاسہ دیا، پھر مخاطب ہوا،، کژ شُریہ چھیہ ؟ (کتنے بچے ہیں) دو بیٹے ایک بیٹی ،اس پر اس کی بھنویں تن گئیں… نیچی گندہ نیچی گندہ. (بیٹے گندے …..(بیٹے گندے).کُور اصل اصل. (بیٹیاں اچھی) ۔۔۔،، بیٹیاں اچھی) کہہ کر وہ سامنے والے بیڈ کی جانب بڑھ گیا جہاں ایک بزرگ عورت باتھ روم جانے کے لئے جوتے پہننے کی کوشش کر رہی تھی، سُلہ نے جلدی سے اس کے پیروں میں جوتے پہنائے اور پھر اُسے باتھ روم لے جاتے ہوئے بولتا رہا،، موج اصل ….موج اصل ۔۔۔، میں سوچنے لگاکتناحساس ہے یہ رشتوں کے تییں ماں سے اس قدر محبت اور لڑکوں سے نفرت! شاید اس لئے کیونکہ اس کے بھائیوں نے اس سے اور اپنی ماں سے وفا نہیں کی تھی ۔۔،، انسانیت کا وہ روپ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا جب میرا پورا جسم بخار سے تپ رہا تھا جس سے میری زبان خشک ہو رہی تھی اور میں پانی کے گلاس کی جانب ہاتھ بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا پتہ نہیں کہا ں سے سُلہ کی نظر پڑی،، کہنے لگا،، تریش چیکھہ تریش؟ ( پانی پیو گے) میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے پانی کا گلاس میرے لبوں سے لگاتے ہوئے کہا،، چیہ چیہ،، (پیو پیو). پھر میرا سر سرہانے پر رکھ کر سہلانے لگا، مجھے لگا جیسے میرا اپنا بیٹا میرا سر سہلا رہا ہو۔۔۔،،وہ اس قدر حساس تھا کہ کہنے کی بات نہیں،۔۔۔،،، اسپتال میں پندرہ روز تک ایڈمٹ رہنے کے بعد جب مجھے ڈسچارج کیا گیا تو میرے مکان مالک مجھے لینے آئے،،نکلتے وقت میں نے سُلہ سے کہا،، سُلہ میں چلوں…! کوت چھیہ گژُن ؟ (تجھے کہاں جانا ہے ) اُس نے سر کُھجاتے ہوئے پوچھا،، مجھے ڈسچارج کر دیا گیا، گھر جانا ہے گھر۔۔۔! دراکھہ ژہ؟ (تو جا رہا ہے) ہاں….! جاؤں؟ نیر دسگیرس حوالہ،، (جاو دستگیر کے حوالے) کہتے ہوئے وہ وارڈ کے دروازے تک میرے ساتھ آیا اور پھر اُلٹے قدموں دوڑتے ہوئے ماں کے بیڈ پر اوندے مُنہ لیٹ کر سسکیاں بھرنے لگا ،، یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھی آبدیدہ ہو گئیں،، مجھے پھر کالو بھنگی یاد آگیا جو کسی بھی مریض کی رُخصتی کے وقت اسی طرح دیوار کی طرف مُنہ کر کے اشک بہانے لگتا۔۔۔،، کالو بھنگی اور سُلہ میں ایک بنیادی فرق یہ بھی تھا کہ اُس نے امن کا زمانہ دیکھا تھا، پیار محبت کے ماحول میں اُس کا بچپن پروان چڑھا تھا،، آزاد فضاؤں میں سانس لیا تھا ،گائے کے ساتھ موج مستی کی تھی اور کبھی کبھی حکم عدولی کرنے پر چھڑی کے ساتھ پٹائی بھی کی تھی،، اس کے برعکس بے چارے سُلہ نے اپنی مُختصر سی عمر میں حد سے زیادہ ظُلم اور تشدد دیکھا تھا، خونِ ناحق کی ارزانی دیکھی تھی، لاشیں دیکھی تھیں، جنازے دیکھے تھے، اشکوں کا سیلاب دیکھا تھا، بارود کی گُھٹن دیکھی تھی، اپنوں کی بے اعتنائی دیکھی تھی، گائے پالنا تو دور کی بات اُس کے نام پر فرقہ پرستوں کے ہاتھوں اخلاق ،عامر اور جُنید جیسے بے گناہوں کو بلی چڑھتے دیکھا تھا،، سُلہ کو دیکھ کر کئی بار میں سوچتا شاید یہ وہی کالو بھنگی ہے جس نے موجودہ حالات دیکھنے کے لئے دوبارہ جنم لیا ہے۔۔۔،،
بھائی صاحب قبر پر مٹی ڈالئے ! ساتھ کھڑے آدمی کی آواز سے میرے خیالات کا شیرازہ بکھر گیا،، سُلہ کو دفن کیا جا چکا تھا، میں نے بھی عقیدت سے اُس کی قبر پر تین مُٹھی مِٹی ڈال کر اُس کی خدمت کا قرض اُتارنے کی ناکام سعی کی ۔۔،اتنے میں میری نظر اسپتال کے چوکیدار پر پڑی جس سے میری شناسائی اسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے دوران ہوئی تھی،اُس کی آنکھوں سے بھی غم کا دریا رواں تھا جیسے اُس کا کوئی سگا مر گیا ہو،، یہ سب کیسے ہو گیا؟ میں نے اُس کے قریب جاکر پوچھا ،،کل دیر رات مجھے باہر کچھ رونے کی آواز آئی میں نے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو دیکھا سُلہ قبرستان سے لوٹتے وقت زور زور سے رو رہا تھا پھر موج کشیر۔۔۔ (مادِر کشمیر )موج کشیر۔۔۔ ، چلاتے ہوئے اُس نے دوڑنا شروع کر دیا تو سامنے کے بینکر سے ہلٹ ہلٹ کی آواز آئی جسے سُلہ نے نظر انداز کر دیا اس کے بعد گولیوں کی آواز سے فِضا گونج اُٹھی ، آس پاس کے مکین اپنے گھروں میں سہم کر رہ گئے، صُبح دیکھا تو اسپتال کے مین گیٹ پر سُلہ کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی،، چوکیدار کی باتیں سُن کر میں سوچنے لگا ،، نہیں یہ کالو بھنگی ہو ہی نہیں سکتا ،کہاں وہ بدنصیب جس کی لاش کو چند پولیس والوں نے لاوارثوں کی طرح ٹھکانے لگا دیا تھا اور کہاں یہ خوش نصیب سُلہ جس نے کسی مقصد کے لئے اپنی جان قربان کر دی اور آج ہزاروں لوگوں نےاُسے پُرنم آنکھوں سے وداع کیا۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں