کمر دردوجوہات،علامات ، علاج، احتیاطی تدابیر 66

افسانچے ۔۔۔۔۔

تحریر: ڈاکٹر نذیر مشتاق
میڈیا

ایکس وائ زیڈ چینل کا چیف پروڈیوسر پروشوتم سوامی ٹائروالا بند کمرے میں آنکھیں بند کئے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس کی چینل اب فلاپ ہوئی ہے ۔ ملک میں لاک ڈاون شروع ہوچکا ہے لوگ گھروں میں بیٹھ کر پوجا ہاٹھ کر رہے ہیں راماین مہا بھارت سیریل دیکھ رہے ہیں ۔ہماری چینل بالکل بیکار ہو کر رہ گئی ہے ۔کیا کروں ہمسایہ ملک سے کوئی خبر نہیں ۔۔ملک کے اقلیتی فرقہ کی کوئی آگ لگانے والی خبر نہیں وہ جو دو ملکوں کے درمیان متنازعہ خطہ ہے وہاں سے بھی کوئی ایسی خبر نہیں کہ میڈیا اور ملک میں کھلبلی مچ جائے ۔۔کچھ بھی نہیں ہے صرف کرونا کرونا کرونا ۔اب کیا کروں اس کا ۔سو بار ساری دنیا میں اس کا اثر دکھا چکا ہوں ۔۔اب کیا کروں کچھ ایسا چاہئے کہ بس ہلچل مچ جائے ۔۔۔کیا کیا وٹ وٹ ۔۔۔۔۔وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اس کا اسسٹنٹ ناگ پال داخل ہوا اور کمرے میں بتیاں جلاکر کرسی پر بیٹھا ۔گرو۔۔۔ ایسی اسٹوری لایا ہوں کہ ہل جاو گے۔ زلزلہ آئے گا۔ ناگ پال نےکہا، ابے جا پتہ نہیں کیا کچرا لے کے آیا ہے۔ مجھے سونے دو۔سوامی نے صوفے پر کروٹ بدلتے ہوئے کہا ۔گرو ایک بار سن تو لے ۔۔۔ناگ پالنےکہا اچھا بھائی چل سنا اپنی بکواس ۔ناگ پال اسٹوری سنانے لگا ۔۔۔۔آدھی سٹوری سن کر سوامی صوفے سے یوں اچھلا جیسے اسے کسی ناگ نے ڈس لیا ہو ۔۔وہ اٹھا اس نے ہاتھ منہ دھولیا، سوٹ پہنا، ٹائی کا ناٹ درست کیا، میک اپ کروایا اور چینل پر نیوز ٹیلی کاسٹ کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ ناگپال نے اس سے کہا گرو اس اسٹوری کے دو حصے ہیں۔ تم نے صرف ایک ہی حصہ لیا۔ ارے باڑ میں جائے دوسرا حصہ میرےلئے یہ بہت ہے۔ناگپال نے کہا۔۔ مگر دوسرے حصہ کے بغیر کہانی ادھوری ہے ۔۔۔۔مگر سوامی نیوز کے لئے تصویریں جمع کر رہا تھا اور خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا اس نے اپنا نیوز بلیٹن پیش کیا ۔صرف آدھے گھنٹے میں پورے ملک میں اکثریتی فرقہ اقلیتی فرقہ سے نفرت کرنے لگا ۔ہر ایک کی زبان پر اب کرونا وائرس کی جگہ تبلیغی وائرس تھا اور وہ اقلیتی فرقہ کو گالیاں دے رہے تھے کہ انہوں نے ملک میں وبا پھیلا دیا۔نیوز بلیٹن چل رہا تھا سوامی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا مگر ناگ پال اداس تھا وہ بار بار کہہ رہا تھا گرو اس اسٹوری کا دوسرا پارٹ بھی نشر کرو۔ ہم میڈیا والے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ لوگوں کے سامنے سچ رکھیں او کے لاو سچ کیا ہے سوامی نے ہاتھ بڑھایا ناگ پال نے کاغذات اسے تھمادئے سوامی نے کاغذات پڑھے۔ لکھاتھا کہ تبلیغی جماعت کے عہدیداروں نے پولیس سے مدد مانگی تھی مگر بے سود۔ پھر ڈی ایم اور دیگر اعلی آفیسروں کو بھی اطلاع دی تھی مگر کسی نے توجہ نہ دی ۔۔۔۔یہ پڑھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھوک

بھوک حویلی کے ڈائننگ روم میں ایک سات سالہ لڑکے کے ارد گرد کئی نوکر ادب سے کھڑے لڑکے کو ہنسانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اسے کچھ کھانے کے لیے اکسانے کی۔کوشش کر رہے ہیں اس کا باپ اس کی منتیں کر رہا ہے کہ کچھ کھا لے۔۔ اس کی ماں بار بار اصرار کر رہی کہ وہ سامنے میز پر پڑی ضیافتوں میں سے کچھ چکھ لے لڑکے نے میز پر رکھی ہوئی چیزوں کا بغور جائزہ لیا چکن گوشت ،پنیر ابلے ہوئے انڈے ۔کباب، روٹیاں، انواع و اقسام کے میوے اور مٹھائیاں ،بیکری( نان سموسے کیک پیسٹری وغیرہ) ۔لڑکے نے کھانے کی ہر چیز پر ایک اچٹتی نگاہ ڈالی اور پھر اچانک کھڑا ہو کر ایک انگڑائی لے کر کہا میں کچھ نہیں کھاؤں گا مجھے بھوک نہیں ہے عین اسی وقت حویلی کے پیچھے ایک خالی زمین کے ٹکڑے پر بنی ایک جھونپڑی میں ایک سات سالہ لڑکا اپنی خستہ حال اور کئی دنوں سے بھوکی ماں کے سامنے رو رہا تھا۔ماں کی گود میں ایک لاغر ڈیڑھ سالہ بچہ بائیں طرف کا سوکھا اور جھریوں دار پستان چوس رہا تھا ۔سات سالہ لڑکا رو رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا ماں بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو دو ۔ دو نا ۔۔ماں کچھ دونا تنگ آکر ۔۔۔ اس نے بیٹے کو اپنے قریب لایا اور دائیں طرف کانوک پستان Nippleاس کے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔۔

احتجاج

ارے کیا ہوا آپ اتنی جلدی واپس آگئے آپ کیوں اداس ہیں ارے آپ کی آنکھوں میں آنسو کیا بات ہے کچھ تو بتائے پیپلی نے اپنے جیون ساتھی کوروسے پوچھا وہ کرونا کوپیار سےکورو کہتی تھی کورو گم صم تھا اور پیپلی اصرار کئے جاری تھی ۔۔کورو نے آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوے کہا ۔۔۔پیپلی تمہیں کیا معلوم میرے دل پر کیا گزر رہی ہے تم تو اس عورت کی بچہ دانی کے اندر عیش کر رہی ہو اس عورت کو معلوم نہیں ہےکہ پیپیلوما فیملی کا وائرس اس کی بچہ دانی کے اندر کینسر کی تیاری کر رہا ہے اس لئے تم عیش کر رہی ہو اور میں در بدر بھٹک رہا ہوں کوئی شکار نہیں مل رہا ہے لوگ غائب ہیں اور میرے خلاف ہر تدبیر پر عمل کر تے ہیں ۔
میں چھپتے چھپاتے ایک گھر میں داخل ہوا وہاں ایک بوڑھا آدمی اپنا سینہ زور زور سے مسل رہا تھا اس کی لاغر بیوی اس سے کہہ رہی تھی کہیں سے تھوڑے سے چاول تھوڑا سا نمک اور تھوڑا سا تیل مل جاتا تو میں ان بچوں کو کھچڑی بنا کر کھلاتی کئی دنوں سے بھوکے ہیں ۔اس کے چار بچے فرش پر بھوک سے تڑپ رہے تھے ۔میں بوڑھے کے سینے میں پہنچا وہاں میرا دم گھٹنے لگا اس کے پھیپھڑے سکڑ ے ہونے تھے مجھے آکسیجن نہیں ملی میں جیسے آگ میں جھلسنے لگا ۔میں مر جاتا مگر خوش قسمتی سے بوڑھا زور سے کھانسنے لگا اور میں باہر آگیا ۔سوچا اب اس کی بیوی کے اندر چلا جاوں مگر وہ ہلدی کی طرح زرد تھی اس کے جسم میں خون ہی نہیں تو میرے لئے آکسیجن کہاں ہوگی اور اسکے بچے وہ پتہ نہیں کتنے دنوں سے بھوکے ہیں اس لئے میں ان سے دور رہا ۔میں وہاں سے بھاگ کر دوسرے گھر میں داخل ہوا وہاں دیکھا کہ وہ پیاس سے مر رہے ہیں میں وہاں سے بھاگا جدھر دیکھا یہی حال تھا میں پریشان ہو گیا کہ باس نے میری ڈیوٹی کہاں لگائی ہے ان بھوکے پیاسے انسانوں کے سینوں میں کچھ بھی نہیں ہے میں کیا کروںمیں وہاں سے بھاگ کر آیا مجھے یہ ڈیوٹی منظور نہیں یہ لوگ پہلے ہی مر چکے ہیں بھلا میں ان کو کیا ماروں میں کیا ماروں اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی ٹرانسفر اس غریب ملک سے کسی اور ملک میں کرواوں مگر تمہارا خیال ہے کہ تم اکیلی رہ جاو گی میری پیپلی ( پیپلوما وایرس کو وہ پیار سے پیپلی کہتا تھا )۔۔کورو تم میری فکر مت کر میں اس عورت کی بچہ دانی کے اندر بالکل صحیح سلامت اور خوش ہوں تم اپنے بارے میں سوچواو کے میں باس سے ملنے جارہا ہوں مجھے اس ملک سے کسی اور ملک میں بھیجے جہاں میں لائف انجواے کر سکوں ۔۔
اور اگر باس نے انکار کیا تو کیا کروگے اس کی بیوی پیپلی نے اس سے پوچھا ۔
خودکشی ۔۔۔۔۔کورو نے جاتے جاتے جواب دیا ۔۔۔مگر اس ملک میں کبھی واپس نہیں آئوں گا۔
تعصب

شیو کمار رستوگی کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی جب اس نے سنا کہ کووڑ بیماری کا ویکسین بازار میں آگیا ہے وہ ویکسین لانے کے لئے میڈیکل شاپ پر گیا
وہ اپنے پتا کو بھگوان سمجھتا تھا اس لیے وہ پتا کو کسی نہ کسی طرح اس مہلک بیماری سے بچانا چاہتا تھا
وہ ویکسین لے کر گھر آیا اور پتا کو خوش خبری سنائی
اس کے پتا نے پوچھا یہ ویکسین اتنی جلدی کس نے بنایا ۔۔شیو کمار نے جواب دیا پتا شری ایک مشہور کمپنی کے مسلمان ڈاکٹروں نے یہ ویکسین تیار کیا ہے
شیو کمار کے پتا کا پارہ چڑھ گیا وہ تھر تھرانے لگا اس نے بیٹے سے کہا
مورکھ تیری جرآت کیسے ہوئی مسلمان کی بنائی ہوئی چیز اس گھر میں لانے کی ۔لے جا یہ ویکسین اسے کسی گندی نالی میں پھینک دے اور میرے لئے گنگا جل لادے
شیو کمار اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں