86

کنواری بیوہ

پرویز مانوس

حاجی غفار جُو کا سہ منزلہ مکان برقی لڑیوں سے جگمگا رہا تھا، مکان کے کوچے سے مین سڑک تک سفید چُونا نہایت ہی سلیقے سے پھیلایا گیا تھا تاکہ مہمانوں کو پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہو،
مکان کے صحن میں ایک شاندار سائبان نصب کیا گیا تھا جس میں پڑوس کی عورتیں روایتی گیت گا رہی تھیں، چھوٹی بچّیاں رنگ برنگی پوشاکوں میں ملبوس تُمک ناری اور گھڑا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھیں، سامنے ہی کانگڑی میں اسفند کا اپنی خوشبو سے مہمانوں کے سانسوں کو مہکا رہا تھا،
تقریباً دس سال کے بعد حاجی غفار جُو کی زندگی میں ایک بار پھر خوشی کا یہ لمحہ آیا تھا، حِنا اُن کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھی، اس سے قبل اُنہوں نے دو بیٹوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی،
آج بھی حاجی غفار جُو سفیر خان سوٹ اور واسکوٹ میں ملبوس ڈیکوریشن والوں کو کچھ ہدایات دینے میں مصروف تھےجبکہ اُن کی بیگم حسینہ سائبان میں داخل ہونے والی عورتوں کی تواضح زعفرانی قہوے سے کر رہی تھی ۔
ہر سُو قہقہے اُبل رہے تھے، خوشیاں رقص کر رہی تھیں وازوان کی خوشبو کا بھبھکا گردونواح کی فضا کو معطر کر رہا تھا –
حِنا کو شہر کی مشہور پارلر سنوار رہی تھی، اُسے بھاری زیورات سے لاد دیا گیا تھا، عرفان کا خوبصورت چہرہ تصور میں اُبھرتے ہی وہ شرم سے سمٹ جاتی،، دفعتاً فضا میں پٹاخوں کی آواز گونجنے لگی، استقبالیہ ڈیوڑھی کی دونوں جانب معزذ شخصیات کھڑی تھیں، تمام باراتی عالیشان پنڈال میں تشریف لے گئے، جُونہی دولہے نے گاڑی سے باہر قدم رکھا تو پُرانےسرخ جوڑے میں ملبوس ایک اجنی عورت دوڑتی ہوئی آکر دولہے سے لپٹ گئی اور زور زور سے چِلانے لگی،،
میون مہراز آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔!
میون مہراز آؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔!
بہ چھس مہرنی ۔۔۔۔۔۔۔۔!
بہ چھس مہرانی ۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہاں موجود تمام لوگ ششدر رہ گئے، دُولہا بھی حیران کُن نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا،، بمشکل امام صاحب اور حاجی صاحب نے اُس عورت کو دولہے سے الگ گیا اور جلدی سے دولہے کو اندر لے گئے،، اتنے میں اس کے اہلِ خانہ وہاں پہنچ گئے اور اُسے نیلوفر نیلوفر پُکار کر ہوش میں لانے لگے جو چند لمحے قبل بےہوش ہوچُکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔،
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب اس نے اس طرح کا ہنگامہ کیا ہو _
گزشتہ سات برسوں میں گاؤں میں آنے والے ہر دولہے پر وہ جھپٹ پڑتی اور کہتی ،،
میرا دُولہا آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔،
میرا دُولہا آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔،،
میں دُلہن ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔،،
میں دُلہن ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔،،
اس کی ان حرکات سے اس کے گھر والے سخت پریشان تھے لیکن وہ بے بس تھے، سوائے معافی مانگنے کے کر بھی کیا سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،
نیلوفر شروع سے ایسی نہیں تھی، وہ اسی گاؤں میں رہنے والے رمضان جُو کی بیٹی تھی جو بچپن سے ہی شوخ، چنچل الہڑ اور چُلبُلی ہونے کے ساتھ ساتھ بے انتہا خوبصورت تھی، باکل باربی ڈول کی طرح۔۔۔۔،،گورا چٹا رنگ، گول مٹول چہرہ، بھرے بھرے گال ۔ٹھوڑی پر سیاہ تِل، سُتواں ناک، نیلی آنکھیں، سُنہری بال، بھرا ہوا جسم، اُبھرا ہوا سینہ، پتلی کمر، ایسی حَبس کہ دیکھنے والا خود بخود کھینچا چلا آئے، اُس کی خدنگِ نگاہ نے کتنوں کے دل گھائل کیے تھے _ ہائر اسکینڈری تک کی پڑھائی کرنے کے بعد وہ گاؤں میں ہی ایک سلائی سینٹر میں کام سیکھ رہی تھی _اس کا ارادہ اسی گاؤں میں لڑکیوں کے لئے ایک بوٹیک کھولنے کا تھا تاکہ وہ خود کیفل بن سکیں،
اس کی سگائی دوسرے گاؤں میں خواجہ محمد یوسف کے منجھلے بیٹے عاطف سے ہو چکی تھی جو بیرون ریاست ہارٹیکلچر کے شعبے میں جدید طریقوں سے میوہ جات کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی تربیت حاصل کر چکا تھا، ان کا اپنے ہی گاؤں میں ڈیڑھ سو کنال پر محیط سیب کا ایک بڑا باغ تھا جس سے اچھی خاصی پیداوار ہو جاتی تھی،
واپس آکر اُس نے اس گاؤں کو شہر سے ملانے والی سڑک کے کنارے ایک جسمانی کثرت کا جم بھی کھولا ہوا تھا کیونکہ اُسے باڈی بنانے کا بے حد شوق تھا اس سے قبل باڈی بلڈنگ کے مقابلوں میں اُس نے تین مرتبہ ٹرافی بھی جیتی ہوئی تھی، رفتہ رفتہ گاؤں کے کئی نوجوان بھی اس جم میں کثرت کے لئے آنے لگے،،
یہاں آتے ہی عاطف نے ڈرپ اریگشن کے ذریعے پیڑوں کی سینچائی کا کام شروع کر دیا _اس کا مقصد یہاں کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے پیچھے نہ بھاگ کر باغبانی کی جانب راغب کر کے خود روزگار کے مواقعے پیدا کرنا تھا ۔۔اس سلسلے میں عاطف نے کچھ نوجوانوں کو ساتھ جوڑ لیا تھا اور وہ سب دل لگا کر کام بھی کررہے تھے،،
یوسف بھی خوش تھا کہ اب اس کا سارا کاروبار عاطف سنبھالے گا، زندگی خوشی خوشی گُزر رہی تھی کہ اچانک ایک رات گھنی تاریکی میں اُن کے آنگن میں چند نامعلوم افراد نمودار ہوئے اور عاطف کو اپنے ساتھ لے گئے، گھر والوں نے اُن کی کافی منت سماجت کی لیکن بے سُود ۔۔۔۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے،،،
رات کی تاریکی میں عاطف کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلی تو اُس نے اپنے آپ کو ایک بند کمرے میں پایا، پورا دن بھوکا پیاسا گُزارنے کے بعد اُسے رات گئے سول کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کے سامنے پیش کیا گیا، بھاری بھر کم جسم نوکیلی مونچھیں حرکات وسکنات اور لہجے سے وہ کوئی بڑا افسر لگتا تھا،،،
مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ عاطف کے حلق سے بمشکل آواز نکلی، خوف سے اُس کا گلا سُوکھ رہا تھا _۔
دیکھو تمہارے باغ میں سے ہمیں ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ برآمد ہوا ہے!
ہتھیاروں کا ذخیرہ؟؟؟ سُن کر عاطف ششدر رہ گیا، ہاں ہاں ہتھیاروں کا ذخیرہ ! باغ تمہارا ہے، ظاہر ہے تمہاری کنزٹ کے بغیر وہاں ہتھیار چپھائے نہیں جا سکتے! افسر نے دھاڑتے ہوئے کہا،،
سر! مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے، عاطف نے کانپتے ہوئے جواب دیا،،
شٹ اپ ۔۔۔!! تمہارے باغ میں سے ہتھیاروں کی برآمدگی یہ ثابت کرتی ہے کہ تم اُن لوگوں کے رابطے میں ہو،
نہیں سر نہیں! میں باکل سچ کہہ رہا ہوں میرا اُن لوگوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے،، میں تو ایک بزنس مائنڈڈ امن پسند شہری ہوں _،،
اچھا ؟ امن پسند شہری! شیطان بھی پہلے فرشتہ تھا، میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔جلدی سے جلدی ہمیں معلوم کر کے بتاؤ کہ یہ ہتھیار وہاں کس نے چھپانے تھے اور اُن کا منصوبہ کیا تھا، جلدی بتاؤ، دیٹ از آل۔۔۔۔،،رائفل کاک کرنے کی آواز پر عاطف کی سانسیں تھم سی گئیں، خوف سے اس کا رُواں رُواں کانپنے لگا، مرتا کیا نہ کرتا،، اُس نے تھوک نگلتے ہوئے افسر سے کہا،، ٹھیک ہے سر ۔۔۔۔۔! ٹھیک ہے سر۔۔۔۔۔! میں پتہ لگانے کی کوشش کروں گا ۔۔۔۔،،
دیٹ از گُڈ۔۔۔۔۔،،مجھے معلوم تھا تم ضرور ہماری مدد کرو گے،، اسے باہر چھوڑ آؤ….!افسر نے اپنے ماتحتوں کو حُکم سنایا اور خود کمرے سے باہر نکل گیا،،
یہ سُتے ہی عاطف کی جان میں جان آئی، اُس کا تمام جسم پسینے سے شرابور تھا،، رات کے اندھیرے میں چلتے ہوئے جیسے تیسے علی الصبح وہ گھر پہنچا تو اُسے اپنے سامنے زندہ دیکھ کر اُس کے گھر والوں نے شُکر کیا،، پیدل چلتے چلتے وہ کافی تھک چُکا تھا گھر والوں نے اُسے تھام کر اندر پہنچایا پھر اس نے سارا ماجرا اُنھیں سُنایا، پہلے تو باپ نے اُسے خوب ڈانٹا کہ تم نے ہتھیاروں کے بارے میں پتہ لگانے کی ذمہ داری کیوں قبول کی؟ ابّو میں بندوقوں کے گھیرے میں تھا، اپنی جان بچانے کا میرے پاس دوسرا کوئی چارہ نہ تھا، عاطف نے آنسو بہاتے ہوئے کہا،، مجھے بچالو ابّو، مجھے بچالو،،،،،،،،،
تُو فکر مت کر بیٹا! تیرا باپ ابھی زندہ ہے،،
صُبح محمد یوسف نمبر دار، چوکیدار، سرپنچ، امام صاحب اور ماسٹر کانشی ناتھ کو لے کر پاس کے کیمپ پر پہنچ گیا، افسر نے بڑی عزت کے ساتھ اُنھیں کرسیوں پر بٹھایا پھر عاطف کی کیمپ میں طلبی کے بارے میں سب کی ایک ہی آواز تھی کہ عاطف نہایت ہی شریف اور محنتی لڑکا ہے ان ہتھیاروں کے ذخیرہ کے ساتھ اُس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں،، ماسٹر کانشی ناتھ نے بڑی جُرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افسر سے کہا،، جناب تیس سال پہلے جب میری تمام برادری مارے انجانے خوف کے ہجرت کر کے چلے گئے لیکن میں یہیں رہ گیا کیونکہ میری جڑیں اس مٹی میں پیوست ہیں _ان ہی لوگوں کے سہارے تو میں نے یہ عرصہ یہاں گُزار دیا یہاں تک کہ میرے پتا جی کا انتم سسکار بھی انہی لوگوں نے کیا، اور اس گاؤں میں سب سے بڑے مندر کی دیکھ ریکھ بھی یہی لوگ کر رہے ہیں، عاطف کو دسویں تک میں نے پڑھایا ہے اس دوران مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ کوئی غلط کام کرسکتا ہے، ایک اُستاد کی نظریں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتیں، کہتے کہتے کانشی ناتھ کی آنکھیں بھر آئیں تو محمد یوسف نے کاندھا تھپتھپاتے ہوئے اُسے دلاسہ دیا،، ارے کانشی ناتھ ہم سب بھائی ہیں اس زمین پر جتنا حق ہمارا ہے اُتنا ہی تمہارا بھی ہے _،،
ماسٹر جی آپ کا کہنا تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں رپوٹ ملی تھی کہ پچھلے کئی روز سے عاطف بار بار اُس باغ میں دیکھا گیا اسی شک میں ہم اُسے اُٹھا لائے تھے، لیکن ہم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی افسرنے اُس کی باتیں سُن کر جواب دیا۔۔۔۔۔،،لیکن جناب جس طریقے سے آپ نے اُسے اُٹھایا اُس سے وہ خوفزدہ ہو گیا ہے، محمد یوسف نے جواب میں کہا۔۔۔۔۔،،
چلئے ٹھیک ہے آپ جائیے آیندہ ایسا نہیں ہوگا، لیکن ہماری تحقیقات جاری رہے گی،اور عاطف پر ہماری نظر رہے گی،، کہہ کر افسر جپسی کی طرف بڑھ گیا،،
محمد یوسف بھی اُن سب کے ساتھ گیٹ سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔،،،،
جب کافی دنوں تک عاطف گھر سے باہر نہیں نکلا تو اُس کی جم کے تمام دوست اُس کے گھر آ دھمکے تو مجبوراً عاطف موٹر بائک لے کر اُن کے ساتھ گھومنے چل پڑا، اس دوران وہ نیلوفر سے بھی ملا اُس کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا جب شام کو وہ گھر پہنچا تو گھر والے اُس کے چہرے پر رونق دیکھ کر خوش ہوئے پھر دستر خوان لگایا گیا، آج عاطف کی پسندیدہ ڈش یخنی بنی ہوئی تھی، سب کھانے میں مصروف ہو گئے، دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی تو سب کے ہاتھ پلیٹوں میں رُک گئے محمد یوسف نے سب کو بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود اُٹھ کر دروازے کے پٹ کھول دیئے، سامنے چند اجنبی بندوق بردار اسالٹ رائفلوں کے ساتھ کھڑے تھے،،
عاطف کہاں ہے؟ اُن میں سے ایک نے بندوق کاک کرتے ہوئے پوچھا،،
عاطف میں ہوں ۔۔۔۔۔!عاطف نے گھر سے باہر آ کر کہا،، کیا اس سے کوئی خطا ہو گئی ہے؟ محمد یوسف نے ہاتھ جوڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔،
ایک بندوق بردار اُسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے عاطف سے مخاطب ہوا،، ہمیں خبر ملی ہے کہ تم ہماری جاسوسی کرتے ہو اور اس سلسلے میں تم کیمپ پر بھی آتے جاتے ہو ۔۔،،بندوق کا رُخ اپنی جانب دیکھ کر عاطف کی گھگھی بند گئی، وہ ہکلاتے ہوئے بولا،، دیکھو دیکھو فائر مت کرنا ۔۔۔!یہ یہ سچ نہیں ہے، میں خود کیمپ میں نہیں گیا بلکہ مجھے لے جایا گیا،، پھر اُس نے اُنھیں ساری کہانی سُنائی تو وہ کچھ حد تک مطمئن ہوئے، لیکن جاتے ہوئے انھوں نے کہا ہم اس بات کی پوری طرح چھان بین کریں گے اگر تم قصور وار ثابت ہوئے تو ۔۔؟ کہہ کر وہ گھنے اندھیرے میں غائب ہو گئے ایک بار پھر تمام اہل خانہ پریشانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے، ابھی ایک مُصیبت سے جان چھوٹی نہیں تھی کہ دوسری پیچھے پڑ گئی،، محمد یوسف سوچنے لگا کہ کیمپ پر تو وہ گاؤں کے سرکردہ لوگوں کو ساتھ لے گیا لیکن ان اجنبی لوگوں کا ٹھکانہ کہاں تلاش کرو،،،
ادھر بے چارہ عاطف بغیر کسی خطا کے دو باٹوں میں پسِ رہا تھا، آگے کُنواں پیچھے کھائی کے مصداق وہ زندگی کی صلیب پر لٹک رہا تھا، وہ دل ہی دل میں بے حد پچھتا رہا تھا کہ وہ یہاں آیا ہی کیوں تھا، اُس نے اپنے لئے اور ارضِ وطن کے لئے کیا کیا خواب سجائے تھے کہ وہ ہارٹیکلچر کے شعبے میں نت نئے تجربات عمل میں لا کر یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنائے گا لیکن اُس کے سارے خوابوں پر جیسے پانی پھر گیا، اُس کے کردار پر نیا ہی لیبل لگ گیا، وہ کرے تو کیا کرے؟؟؟؟
گھر کے ہر فرد کی رات سوچوں میں کٹ گئی کہ اس مصیبت سے پیچھا کیسے چھڑایا جائے، پھر انھوں نے سب کچھ خُدا پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔،،
گیارہ بجے کا وقت تھا عاطف چائے ختم کر کے باغ کی جانب جانے کے ارادے سے موٹر بائک اسٹارٹ کرنے لگا کہ اُس کی نظر گیٹ کی طرف گئی جہاں ابھی ابھی رکھشک گاڑی آکر رُکی تھی، ایک ہی کک لگانے کے بعد وہ ٹھہر گیا، دو پولیس اہلکار گیٹ کے اندر داخل ہو گئے، محمد یوسف کو کا گھر یہی ہے کیا؟ ایک اہلکار نے بندوق کاندھے سے لٹکاتے ہوئےپوچھا،،،
جی جی یہی ہے فرمائیے! عاطف نے بائک کی چابی باہر نکالتے ہوئے کہا،، اُن کے بیٹے عاطف کو چوکی پر بُلایا ہے ،اہلکار نے کہا، کہاں ہے وہ؟ جی میں ہی عاطف ہوں، خریت تو ہے؟ عاطف کے ماتھے پر شکن پڑ گئی، ہمیں صرف اتنا ہی بتایا گیا، باقی وہاں چل کر ہی معلوم پڑے گا، دوسرے اہلکار نے کہا،،،
وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا چوکی افسر نے اُسے بتایا کہ کل رات کو تم نے اپنے گھر میں جن اجنبی لوگوں کو پناہ دی تھی، اب وہ لوگ کہاں ہیں؟ یہ سُن کر عاطف کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں پھوٹ پڑیں، وہ پہلے ہی پریشان تھا مزید پریشان ہو اُٹھا،، اُس نے ہتھیاروں سے لے کر پولیس چوکی تک کی تمام داستان بیان کر ڈالی تو چوکی افسر نے کہا،، اگر تمہارے گھر پر اجنبی بندوق بردار آئے تو تم نے ہمیں مطلع کیوں نہیں کیا؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمہارا اُن لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے،،نہیں نہیں جناب! بالکل نہیں، میں تو ایک امن پسند شہری ہوں، عاطف نے ہڑبڑاتے ہوئے کہا،،
اچھا بتاؤ اُن میں سے کسی کو پہچانتے ہو؟ افسر نے دوسرا پتہ پھینکا،، سر! میں انھیں کیسے پہچان سکتا ہوں، انھوں نے اپنے چہرے کپڑے سے ڈھک رکھے تھے، عاطف نے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔،
دیکھو تم یوسف صاحب کے بیٹے ہو اسی لئے یہاں کھڑے ہو ورنہ تم جیسے لوگوں کی جگہ وہاں ہے، افسر نے حوالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،،
لیکن سر! میں تو بےقصور ہوں کوئی مجرم نہیں،، ایک عزت دار شہری کے ساتھ اس طرح بات کر نا آپ کو زیب نہیں دیتا، عاطف کا دماغ گھومنے لگا تھا لیکن جلدی ہی اُسے نیلوفر کا خیال آیا تو اُس نے برتاؤ میں نرمی لاتے ہوئے کہا،، سر وہ بھی تو مجھ سے یہی پوچھ رہے تھے کہ میں کیمپ کیوں گیا تھا،،
دیکھو آج تو ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں لیکن ایک شرط پر۔۔۔۔۔! افسر نے ٹیبل پر رکھے ہوئے گلوب کو گمھاتے ہوئے کہا،،
شرط کیسی شرط؟ عاطف چونک پڑا۔۔۔۔۔،،
یہی کہ اب کی بار جب وہ تمہارے گھر آیئں تو ہمیں اس نمبر پر فون کردینا _ورنہ،، افسر نے کاغذ کے ٹکڑے پر نمبر لکھ کر دیتے ہوئے کہا،، عاطف نے بادل ناخواستہ کاغذ کا ٹکڑا ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا ،ٹھیک ہے سر……! اگر آئے تو ضرور کروں گا۔۔۔۔۔۔۔،،
شاباش! مجھے پوری اُمید ہے کہ تم اس معاملے میں ہمارے ساتھ پورا تعاون کرو گے، عاطف نے اثبات میں سر ہلایا تو چوکی افسر بے اُسے جانے کا اشارہ کیا،، عاطف چوکی سے باہر نکلا تو اُس کا سر چکرا رہا تھا وہ سوچنے لگا، کہاں پھنس گیا آکر؟ ان حالات سے اُس کا ذہن منتشر ہو رہا تھا، پہلے تو اُسے آگے کنواں پیچھے کھائی دکھائی دیتی تھی لیکن اب تینوں جانب سے بندوقیں اُس کی طرف تنی ہوئی تھیں، کوئی اُسے اعانت کار سمجھ رہا تھا تو کوئی اس پر مخبری کا لیبل لگا رہا تھا، وہ اپنے کمرے میں انھی خیالات کے جنگل میں بھٹک رہا تھا وہ اپنے سر کے بال نوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا،،،،
بغیر کسی خطا کے ہی وہ خوف کے سائے میں جی رہا ہے، تینوں فریق اُسے اپنی اپنی کامیابی اور مقصد کے لئے دھمکا رہے ہیں وہ کس کس کو صفائی دیتا پھرے اور کتنی بار؟ اس طرح تو اُسے پاگل ہونے کا خدشہ ہے، اب یہاں رہنا مناسب نہیں اگر کسی دن وہ اپنی بے گناہی ثابت نہ کرپایا تو وہ گولی سے بچ نہیں پائے گا،، اُس نے سوچا کہ شادی ہوتے ہی وہ پھر بیرون ریاست لوٹ جائے گا، اُس کے گھر والوں نے بھی اس فیصلے میں اس کا ساتھ دیا، آخر یہی طے پایا کہ شادی کے سات دن پورے ہوتے ہی اُسے دُلہن کے ساتھ ہنی مون پر بیرون ریاست بھیج دیا جائے گا پھر وہ وہیں رہے گا اس طرح اس کے ذہن سے خوف کا سایہ بھی دور ہو جائے گا۔۔۔۔۔،،،دن گُزرتے گئے اس دوران محمد یوسف کے گھر مختلف سُراغ رساں ایجنسیوں کے متعدد کارندے آتے رہے اور عاطف سے طرح طرح کے سوالات کرکے پریشان کرتے رہے، عاطف کو محسوس ہو رہا تھا کہ ہر جگہ ہر وقت کچھ سائے اُس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں وہ سوچ رہا تھا میری طرح کتنے ہی نوجوان اس عذاب سے گُزر کر اپنی راہ سے بھٹک چُکے ہونگے، وہ بھی کہاں اتنا برداشت کرنے والا تھا لیکن اُسے نیلوفر کی محبت کے دھاگوں بے باند رکھا تھا کیونکہ شادی کےدن بالکل قریب تھے گھر میں خوشی کا ماحول تھا، عاطف کا نکاح نیلوفر سے ہوگیا،، گہنوں سے لدی پُھدی نیلوفر حُجلہ عروسی میں اپنے شریک حیات کا انتظار کر رہی تھی اس رات کا خواب ہر لڑکی نے اپنی آنکھوں میں سجایا ہوتا ہے، عاطف بھی دوستوں سے جان چُھڑا کر جلد سے جلد نیلوفر کی خواب گاہ میں پہنچنا چاہتا تھا وہ شبِ زفاف کو لے کر کافی جذباتی ہو رہا تھا،، جونہی عاطف نے کمرے میں قدم رکھا تو چاپ سُن کر نیلوفر حیا سے سمٹ گئی، پھولوں کی لڑیوں کو ہٹا کر وہ پلنگ پر نیلوفر کے قریب بیٹھا تو نیلوفر کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی وہ شرم سے اور بھی سُکڑ گئی، اس کا چاند سا چہرہ دیکھنے کے لئے عاطف نے اپنے ہاتھ گھونگھٹ ہٹانے کے لئے بڑھائے ہی تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو عاطف نے سوچا شاید ماں ہوگی، اُس نے دروازے کے کواڑ کھولے تو چند نامعلوم افراد کمرے میں گُھس آئے تو نیلوفر کی چیخ نکل گئی، اتنے میں انھوں نے عاطف کو سیڑھیوں سے نیچے لایا تھا، جب تک گھر والے کچھ کر پاتے عاطف گمنامی کے وحشت ناک اندھیروں میں غائب ہو چُکا تھا، نیلوفر دُلہن کے لباس میں ہی اُس کے پیچھے دوڑ پڑی،، بس اُس دن سے یہ حادثہ نیلوفر کے ذہن سے کسی جونک کی مانند چپک گیا اور وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی، اہل خانہ یہ سوچ کر پریشان تھے کہ عاطف کو لے جانے والے لوگ آخر کون تھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نٹی پورہ سرینگر
موبائل :-9622937142
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں