69

افسانچے۔۔۔

ڈاکٹر نذیر مشتاق

سماج

معصومہ میرے چیمبر میں میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے
کیا ہوا۔۔۔میں نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا
ڈاکٹر صاحب۔میری منگنی ٹوٹ گئی۔۔۔اس نے رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ‌مگر آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔مگر کیوں۔۔‌میں نے حیران ہو کر پوچھا
میں دس دن پہلے آپ کے پاس آءی تھی اور آپ سے کہا تھا ۔۔کہ مجھے نیند نہیں آتی۔۔گھبراہٹ سی ہوتی ہے
کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے۔۔آپ نے پھر بہت سارے سوالات پوچھے اور مجھ سے کہا کہ یہ معمولی ڈپریشن ہے تم ایس ایم ایچ ہسپتال کے شعبہ امراض نفسیات(Mental disease counseling clinic (. میں جاو وہاں لیڑی ڈاکٹر ہیں جو کونسلنگ کرتی ہیں
تمہیں ابھی دوایوں کی ضرورت نہیں ہے ‌‌صرف کونسلنگ ہی کافی ہے۔۔۔میں دوسرے دن وہاں گءی۔وہاں ایک لیڑی ڈاکٹر نے میری ہر بات بڑے غور سے سنی اور مجھے ہر ہفتہ آنے کو کہا۔۔مجھے لگا کہ اس ڈاکٹر کی کونسلنگ سے میری زندگی کا رخ بدل جاے گا اور میں شادی کے بعد ایک خوشگوار زندگی بسر کروں گی‌۔وہاں سے نکلتے وقت مجھے سسرال والوں کے ایک دور دراز رشتہ دار نے دیکھ لیا۔اس نے مجھے بڑے غور سے دیکھااور چلا گیا
دو دن بعد ہم سب گھر میں بیٹھے تھے کہ میرے سسرال والوں کی طرف سے ایک آدمی آیا۔۔۔اور کہا
میں ان کا پیغام لایا ہوں اب یہ رشتہ نہیں ہوسکتا ہے
مگر کیوں میرے باپ نے حیران ہو کر پوچھا
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک پاگل لڑکی کو اپنی بہو نہیں مان سکتے۔۔۔۔۔۔۔۔معصومہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور میں بےبسی سے اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔اور سوچنے لگا کہ ہمارا سماج ابھی تک کتنے اندھیرے میں ہے۔۔۔۔۔
����

بے گناہ

سر آپ نے اس کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ۔آخر اس کا قصور کیا تھا وہ ایک ماہر ڈاکٹر ہے اور ایمرجنسی ڈیوٹی پر جارہا تھا اور آپ نے اسے روک کر ادھر ادھر کے سوالات کرکے اسے غصہ دلایا اور پھر اسے لاک اپ میں دھکیل دیا اور پھر کسی نے اسے پانی کا ایک گلاس بھی آفر نہیں کیا ۔وہ ایمرجنسی اسپتال جارہا تھاآپ کو اسےروکنا نہیں چاہئے تھا ۔ حوالدار ولی خان نے تھانےدار رحمت خان سے کہا ۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ نے مقدس پیشہ سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا ۔۔وہ ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ایک عظیم انسان بھی ہے۔ولی خان کے الفاظ میں ناراضگی تھی
تھانےدار نے سگریٹ سلگایا اور لمبی مونچھون کو تاو دیتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔اس کے ساتھ ایک پرانا حساب چکتا کرنا تھا
وہ کیا میں سمجھا نہیں ۔۔ولی خان نے نہ سمجھتے ہوئے کہا تھانےدار نے جواب دیا ۔۔۔۔ان دنوں میں سولہ پورہ میں تھانے کا انچارج تھا اور یہ ڈاکٹر میڈیکل آفیسر تھا ایک دن میرے ایک جانی دشمن نے میرے ایک رشتہ دار کو مارا اس کے سر پر چوٹ لگی ۔۔پولیس کیس ہو گیا میں اسے میڈیکل آفیسر کے پاس لے گیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنی میڈیکل رپورٹ میں میرے رشتہ دار کے زخم کو ضرب شدید لکھے تاکہ میں اپنے دشمن کو حوالات میں بند کرسکون مگر میڈیکل آفیسر نے سر اٹھا کر کہا کہ میی بھی غلط رپورٹ نہیں لکھوں گا ۔۔۔اور مجھے اپنے دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا ۔۔۔اور میں نے اس سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔۔اب کل میں نے اسے کار میں دیکھا تو اس کی بے عزتی کرکے بدلہ لیا ۔۔مجھے سکون ملا
واہ سر جی واہ کتنی بڑی غلط فہمی کے شکار ہوگئیے ہیں آپ ۔۔۔آپ نے ایک بے گناہ سے بدلہ لیا ہے ۔حوالدار ولی خان نے کہا
مطلب کیا ہے تمہارا رحمت خان نے ایک اور سگریٹ سلگایا
مطلب یہ کہ جس ڈاکٹر کی آپ نے حد سے زیادہ بیعزتی کی وہ اس میڈیکل آفیسر کا جڑواں بھائی ہے جس کے ساتھ آپ کی دشمنی ہے یا تھی ۔اور وہ ڈاکٹر اب چیف میڈیکل آفیسر ہے اور یہ ڈاکٹر شاد علی ایک ایمرجنسی ڈاکٹر ہے میں ان دونوں کو بچپن سے جانتا ہوں آپ نے ایک بےگناہ پر ظلم کیا ہے
ولی خان نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا
تھانےدار اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا
����

او سی ڈی

ایک سال پہلے سلیمہ جسے پیار سے سلی کہتے تھے میرے پاس لائ گئ ۔۔اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا کہ میری یہ بیتی گھر میں ہمارے لئے مصیبت بن چکی ہے یہ دن بھر بس ہاتھوں کو دھوتی رہتی ہے باتھ روم میں اتنا وقت گزارتی ہے کہ باقی افراد پریشان ہو جاتے ہیں سب لوگ اس پر ہنستے ہیں اسکا مزاق اڑاتے ہیں ھم نے پیر فقیروں سے مشورہ کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے انجانے میں کسی کثیف جن کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کئے ہیں آب بہت وقت اور بہت رقم درکار ہے ۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ میں کیا کروں ایک سہیلی نے مجھے اپ کا پتہ دیا اور میں اگئ ڈاکٹر صاحب خدا کے لئے ۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ جوڑے ۔۔۔۔۔
میں نے اسے دلاسہ دیا آپ فکر نہ کریں اپ کی بیٹی ایک زہنی بیماری میں مبتلا ہے اس بیماری کا نام او سی ڈی ہے اس بیماری میں مبتلا مریض ہر کام بار بار کرتا ہے بار بار ہاتھ دھوتا ہے سونے سے پہلے بار بار دروازے کا لاک چیک کرتا ہے ۔حساب و کتاب بار بار چیک کرتا ہے یا کوئی بات بار بار دہراتا ہے۔۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اس کا علاج ممکن ہے۔۔لڑکی کی ماں کے چہرے پر رونق سی اگئ آب اس کی خوبصورت سولہ سالہ لڑکی نے پوچھا ۔۔۔۔اگر یہ بیماری ہے تو سب گھر والے کیوں میرا مذاق اڑاتے ہیں اور مجھے کیوں طعنے دیتے ہیں
میں نے اسے بیماری کے متعلق سمجھایا اور اس نے ادویات استعمال کرنے کا وعدہ کیا۔۔۔پھر کئ بار میں نے اس کی کونسلنگ کی اور وہ مجھے اپنا گاڈ فادر سمجھنے لگی اس نے میرا فون نمبر نوٹ کیا اور وہ فون پر ہی سب کچھ کہتی گھر والے اس کا مزاق اڑاتے اور وہ بے چاری سب کچھ سہھ لیتی دھیرے دھیرے اس کی بیماری قابو میں اگئ ۔۔۔۔ ڈاکٹر مریض کا رشتہ ختم نہ سہی مگر دور دور ہوتا گیا ۔۔شاید اس کا او سی ڈی کنٹرول ہوا ہو۔
کل ایک فون ایا ۔۔۔میں سلی سلیمہ بول رہی ہوں وہی بار بار ہاتھ دھونے والی لڑکی وہ او سی ڈی والی
ڈاکٹر صاحب آج میں گھر والوں پر بے تحاشہ ہنستی ہوں گھرمیں کوئی چھینکتا ہے یا کھانستا ہے تو سب لوگ باتھ روم کی طرف دوڑ پڑتے ہین اور بہت دیر تک بار بار ہاتھوں کو دھوتے ہیں رگڑتے ہیں ۔۔مجھے یاد اتا ہے کہ۔میں ایسا ہی کرتی تھی آج وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور میں سب کا مذاق اڑاتی ہوں یہ سب بھی او سی ڈی ۔میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
����

نیچ

گلابو پنڑت شوالا رام کے گھر میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہے۔ پنڑت کو اس سے شدید نفرت ہے کیونکہ گلابو ایک نیچ خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور ایک معمولی سی گندی جھونپڑی میں اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتی ہے۔۔اس نے کءی بار بیوی سے کہا۔ اس نیچ گندی منحوس لڑکی کو یہاں مت بلایا کرو میرا دھرم بھرشٹ ہوتا ہے بار بار اپنے بارے میں۔ لفظ نیچ سن کر گلابو کا دل چھلنی ہوجاتا۔۔ آج کل کام والیاں کہاں ملتی ہیں جب تک
کسی دوسری کام والی کا انتظام ہو جاتا ہے تب تک اسی کو کام کرنے دیں اس کی بیوی اکثر یہی کہتی
آج پنڑت کی بیوی کو کسی ضروری کام سے باہر جانا پڑا
اس نے شوہر سے کہا ‌‌ کسی چیز کی ضرورت پڑے تو گلابو سے کہنا۔۔۔
پنڑت اپنے کمرے میں گیتا پڑھ رہا تھا کہ گلابو چاے لے کر کمرے میں داخل ہوی۔۔۔۔بابو صاحب چاے
پنڑت نے اچانک اس کی طرف دیکھا۔ اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔۔اس نے سوچا۔۔۔اتنی خوبصورت۔۔۔نیچ تو ہے مگر اتنی سندر۔ میں نے کبھی اس کی طرف دیکھا ہی نہیں
بابو صاحب اور کچھ چاہیے۔۔گلابو نے اسے چونکا دیا
گلابو تو بہت سندر ہے آؤ بیٹھو میرے پاس۔۔۔پنڑت نے کہا اس کا گلا۔ خشک ہو رہا تھا
میں تو نیچ جاتی کی ہوں۔ آپ کے بروبر کیسے بیٹھ سکتی ہوں۔۔
اری بیٹھو۔ پنڑت نے اسے باہوں میں جکڑ لیا اور اپنی گود میں گرادیا۔۔۔پنڑت اب سب کچھ پھول چکا تھا وہ گلابو کو دیوانہ وار چوم رہا تھا۔دروازہ کھلا اچانک اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوءی۔۔۔گلابو اپنے آپ کو چھڑاکر دوڑتی ہوئی بی بی جی سے لپٹ گءی اور اس سے کہا دیکھا بی بی جی آپ کے پتی کتنے نیچ ہیں۔۔۔۔۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں