کمر دردوجوہات،علامات ، علاج، احتیاطی تدابیر 18

افسانچے

ڈاکٹر نذیر مشتاق

وضو

ملا صابر علیم کے سامنے ایک بیحد خوبصورت لڑکی کھڑی تھی اور وہ اسے دیوانہ وارچوم رہا تھا۔وہ لڑکی ملا صاحب کی ہمسائیگی میں رہتی تھی اور اس کے لئے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا لائی تھی۔۔۔ اتفاق سے ملا کی بیوی کسی کام سے باہر گئیتھی۔۔۔ ملا نے لڑکی سے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے گلے لگایا۔لڑکی نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ملا کے حوصلے بلند ہوئے۔۔وہ لڑکی کو بیڈ روم کی طرف لے جانے لگا کہ اچانک نچلی منزل سے اس کی بیوی کی آواز بلند ہوئی۔۔۔ اجی سنتے ہو میں آگئی۔۔۔ ملا نے بوکھلا کر لڑکی سے کہا۔۔۔لو یہ گوشت نیچے میری بیوی کو دے دو۔ اور ہاں اس سے کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔لڑکی چلی گئی ملا پسینے میں شرابور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں دس ننھے منے بچے اس کا انتظار کر رہے تھے وہ ان کو پارہ عم پڑھاتا تھا۔۔۔۔۔وہ ہانپتا ہوا بچوں کے سامنے بیٹھا اور بچوں سے کہا۔۔ہاں تو نکالو آج کا سبق۔۔سورہ فیل۔۔۔۔ اچانک اس کے نتھنوں سے عجیب قسم کی بد بو ٹکرائی۔۔۔۔اس نے ناک پر رومال رکھا اور بچوں کی طرف گھور کر دیکھا۔۔۔ کس نے۔۔۔۔بولو کس نے۔۔۔۔مجھے معلوم ہے۔۔۔۔یہ کس کے جسم کی بد بو ہے۔۔۔۔خود ہی کھڑا ہو جائے۔ ورنہ۔۔۔۔ ایک معصوم بچہ تھر تھرا تے ہوئے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ملا صاحب میں نے۔۔۔۔۔۔ ملا نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔ کمبخت۔۔۔بے وقوف۔۔ نامراد۔۔۔۔وضو ٹوٹ گیا ہے اور پارہ عم کو ہاتھ لگارہا ہے۔۔۔۔۔جا بے شرم جلدی سے وضو کرکے آجا۔۔۔۔۔

بلا عنوان

وہ ضعیف لاغر بوڑھا سڑک کے کنارے بھیک مانگ رہا تھا۔ اچانک اسے سخت سردی محسوس ہوئی اس نے اپنے آپ کو پھٹے پرانے شیٹ میں لپیٹ لیا۔۔۔مگر سردی کا زور زیادہ تھا اس لیے وہ تھرتھرانے لگا۔۔۔۔وہ سوچنے لگا کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اچانک وہاں سے ایک خوبصورت انگریز عورت گزری اس نے بوڑھے میاں کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔وہ بوڑھے کے بالکل قریب بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر رگڑنے لگی پھر اس کے سر کو سہلانے لگی۔۔ بوڑھے نے اسے دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔عورت اسے باڈی مساج دیتی رہی ۔تھوڑی دیر کے بعد بوڑھے نے اپنے بدن میں عجیب سی حرارت محسوس کی اور وہ سنبھل کر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور عورت کو محبت اور مسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔عورت سمجھ گئی کہ اس کے بدن کی حرارت سے بوڑھے کی جان میں جان آچکی ہے اس لیے وہ کھڑی ہوگئی اور ایک اچھی خاصی رقم بوڑھے کے ہاتھ میں تھما کر اس سے کہا۔۔۔۔ او کے ڈیر اولڈ مین۔۔۔ٹیک کیر۔۔۔۔اور چلی گئی۔۔۔ بوڑھے نے روپے جیب میں رکھ لیے اور بازار کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔
چند دن اس نے خوب عیش کیے۔۔۔۔اور اپنی مخصوص جگہ پر آکے پھر سے بھیک مانگنے لگا۔۔۔۔اب اس نے انگریز عورت کی دی ہوئی رقم سے اونی فرن اور سویٹر بھی خرید لیا تھا اس لیے اسے سردی کا احساس نہیں ہورہا تھا۔۔۔۔
دو دن بعد وہ اسی جگہ بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا کہ اچانک اس نے اسی انگریز عورت کو آتے دیکھا اس نے جھٹ سے فرن اور سویٹر کو گول مول کرکے تکیہ جیسا بناکر سر کے نیچے رکھااور ایک قمیض شلوار میں ملبوس سڑک پر لیٹ کر تھر تھرا نے لگا۔۔

ورثہ

بھولا رام اسپتال کے سیکورٹی گارڈ کو چکمہ دے کر کووڈ وارڈ کے اندر چلا گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔ اس نے ماسک ناک سے نیچے کرکے ٹھوڈی پر رکھ لی اور زور زور سے سانس لینے لگا۔۔۔ چندلمحےوہ وارڑ کے بیچ میں کھڑا رہا ۔۔۔۔ وارڑ کی انچارج نرس نے اسے دیکھا تو اس کا بازو پکڑ کر اسے باہر لے آئی۔۔۔مرنا ہے کیا۔ نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ بعد بھولا رام بخار سے تپنے لگا وہ بے حد کمزوری محسوس کرنے لگا وہ سمجھ گیا کہ وہ کووڈ بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔۔۔ اس کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔۔اس نے اپنی بیوی اور بچوں سے کچھ نہیں کہا۔
وہ ایک مہینے سے بیکار تھا گھر میں کھانے پینے کی کوئی جیز موجود نہیں تھی۔۔۔اسے ا پنی بیوی بچوں سے بہت پیار تھا اس نے اندازہ لگایا تھا کہ اب وہ کچھ نہیں کما سکے گا اور اس کی بیوی اور بچے بھوک سے مر جائیں گے۔۔۔۔ ایک دن پہلے اس نے اپنے ایک ہمسایہ سے سنا تھا کہ ان کے گاؤں میں ایک منتری آیا تھا جس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اس گاؤں میں جو بھی کووڈ بیماری سے مرجائے گا اس کے وارثوں کو پچاس ہزار روپے نقد اور ماھانہ ایک ہزار روپے دیا جائے گا۔
اسکی بیوی اس کے قریب آگئی اور کہا۔۔۔۔ گھر میں کچھ بھی نہیں ہے کیا کروں۔ بچے بھوکے ہیں۔۔۔
تو گھبرا مت لکشمی سب ٹھیک ہوگا میں نے سب انتظام کیا ہے بس ایک دو دن انتظار کرو تجھے اتنے روپے ملیں گے کہ تو اپنے بچوں کے ساتھ عیش کرے گی۔
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔

سیر

بیٹا۔ ذرا اپنے باپ کو پارک میں لیجا۔۔۔۔ذرا سیر کرے گا۔ کووڈ بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ابھی تک گھر سے باہر نہیں نکلا ہے۔۔تو اسے سہارا دے اور پارک میں لے جا۔۔اس کا دل بہل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں نے اپنے بیٹے سے کہا اور خود لاٹھی ٹیکتے ہوئے کچن کی طرف گئی۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے نے بیمار باپ کی طرف دیکھ کر ناک سکوڈ لی اور سیٹی بجاتے ہوئے گھر سے باہر نکلا اور باہر گیراج کے نزدیک بندھے ہوئے کتے سے مخاطب ہوا۔
چل ٹومی۔ تو کئی دنوں سے باہر نہیں گیا چل تجھے سیر کراؤں۔۔۔

 

ایکسٹرا۔۔۔۔۔۔Extra…

ننھا منا چھ سالہ عادل اپنے ضعیف و لاغر اور تنہائی میں زندگی بسر کرنے والے دادا کے ساتھ وقت گزارتا کیونکہ سکول بند تھا۔۔۔ وہ اپنے دادا کا اکلوتا سہارا تھا وہی اس کے لئے کھانا چائے پانی لے آتا اور اسی کے پاس بیٹھا رہتا اس کے ماں باپ کبھی کبھار ہی اس کمرے کی طرف آتے ۔۔۔۔بہو کہتی کہ بوڑھے کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بدبو آتی ہے جو پورے کمرے میں پھیلتی ہے اور اس بدبو سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس نے شوہر کو بھی منع کر رکھا تھا کہ وہ بوڑھے کے کمرے میں نہ جایا کرے۔مگر ننھے عادل کے سامنے اس کی ایک بھی نہیں چلتی تھی وہ اپنا زیادہ تر وقت دادا کے کمرے میں ہی گزارتا۔۔ ننھے عادل کا دادو اونگھنے لگا تو وہ اپنے ماں باپ کے پاس آیا وہ دونوں صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ اچانک اسکرین پر ایک شخص کو دکھایا گیا جو آج ہی فوت ہوا تھا۔
او سو سیڑ گریٹ ایکٹر۔۔۔۔۔۔ عادل کے باپ نے کہا۔۔۔۔
یہ کس فلم میں ہیرو تھا۔۔۔۔بیوی نے پوچھا۔۔۔۔۔۔عادل ماں کی گود میں بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔۔۔۔۔وہ فلموں میں ایکسٹرا کا کام کرتا تھا۔۔۔۔۔۔شوہر نے جواب دیا۔۔۔۔۔
ایکسٹرا بولے تو۔۔۔۔بیوی نے کباب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ شوہر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ایکسٹرا کسی فلم میں معمولی رول ادا کرتا ہے جیسے کوئی اندھا سڑک کراس کر رہا ہو یا کسی سین میں بھیک مانگ رہا ہو ۔۔یا جیسے کوئی شخص بوٹ پالش کر رہا ہو۔یا کوئی شخص اکیلا بیٹھا کچھ سوچ رہا ہو یا۔۔۔۔اور کسی معمولی رول میں جیسے کہ ۔۔۔جیسے کہ۔۔ مثال کے طور پر۔۔۔جیسے کہ۔۔۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ننھے عادل نے ماں کا گال دایں ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا۔۔۔ جیسے کہ میرے دادو۔۔۔۔

کلایمکس

محلے کی مسجد کے قریب رہنے والے دو گھرانوں میں زبردست جنگ چھڑ چکی تھی۔بددعاوں ننگی گالیوں طعنوں اور “پاموں” کا تبادلہ یوں جاری تھا جیسے سرحد پر دو ملکوں کے درمیان گولہ باری جاری ہو۔۔۔۔دونوں طرف دو گھرانوں کے سبھی افراد جنگ میں شریک تھے اور ہر کوی اپنی عمر اور تجربہ کے سے گالیاں بک رہا تھا۔۔۔۔اس پاس کے رہنے والے تماشہ بین صورت حال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ہوا یوں تھا کہ ایک گھرانے کی بہو نے اپنے گھر میں جمع کیا ہوا کوڑا کرکٹ سامنے والے ہمسایہ کے گیٹ کے سامنے پھینکا تھا اور اس گھر کے مالک نے کوڑا کرکٹ پھینکنے والے کو ایک موٹی گالی دی تھی جو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی بہو نے سنی اور اپنے شوہر سے کہا کہ سامنے والے مکان کے مالک نے اسے بہت ہی موٹی گالی دی ہے۔۔یہ سن کر اس کا شوہر دوسری منزل کی کھڑکی سے سامنے والے ہمسایہ کے نام گالیوں کی بوچھاڑ کرنے لگا اور پھر دونوں گھرانوں کے سبھی افراد نے مورچہ سنبھالا اور گولہ باری شروع کی۔۔۔۔۔ایک صاحب کچھ زیادہ ہی ننگی اور ناقابل برداشت گالیاں بک رہا تھا۔۔اچانک مسجد سے مغرب کی ازان بلند ہوئی اور دونوں فریقوں نے خاموشی اختیار کی اور وہ ادھیڑ عمر کا شخص دروازے سے نکلا اور دروازے پر کھڑی سامنے والے گھر کی عورت کی طرف دیکھ کر بڑبڑایا۔۔۔۔میں نے آج تک نہ جانے کتنی عورتوں کو ننگا کیا ہے تمہیں بھی ابھی سب کے سامنے ننگا کرتا مگر کیا کروں ازان ہوچکی ہے ۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ مسجد کی طرف چل پڑا۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں