83

سرحدی گھن گرج توپوں کے دہانے بند کرنے ہوں گے

شجاعت بخاری

ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں پر پچھلے کئی ماہ سے پائی جانے والی مسلسل اور انتہائی شدید عذاب و اضطراب کی صورت حال کی وجہ سے وہاں رہنے والے ہزاروںعوام کی جانب سے دونوں ممالک سے ان دنوں ایک ہی زور دار مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ یا تو آپس میں باضابطہ جنگ لڑیں اور کسی ایک کی جیت اور ہار کی صورت میں اپنے سارے تنازعات کو حل کریں یا پھر اپنی بندوقوں اور توپوں کے دہانے ہمیشہ کے لیے بند کردیں۔
ایک طویل اور خونی لکیرکے آر پار رہنے والے ہزاروں لوگوں کے لئے ہر دوسرے، تیسرے دن بندوقوں اور توپوں کی گن گرج اور اس سے ہونے والا مالی و جانی نقصان ایک معمول بن کر رہ گیا ہے ، حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ان علاقوں کے عوام نے ملی ٹنسی کی پچھلی تین دہائیوں کے دوران ریاست کے باقی حصوں کے عوام کے مقابلے میں کافی پر امن راستہ اختیار کیا تھا،جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کو سال2003ء میں جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنا پڑے لیکن اب اس حوالے سے ملنے والی روزانہ کی خونریز خبروں کا یہ عالم ہے کہ پچھلے دس برس سے اس معاہدے کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔
سال رواں کے آغاز میں، جہاں ایک جانب یہ سمجھا جارہا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کوئی پر امن راستہ اختیار کرکے اپنے باہمی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے برعکس 2018ء کے شروع ہوتے ہی دونوں جانب گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ انتہائی شدید رُخ اختیار کرگیا ہے اور روزانہ بھاری جانی و مالی نقصانات کی خبریں آرہی ہیں جبکہ بے گھر ہوکر ہجرت کرنے والوں کی بھی اپنی ایک طویل داستان ہے۔ اگر پچھلے دو ہفتوں کی صورت حال کو دیکھا جائے تو وہ اس کی شدت جنگ بندی معاہدے سے قبل یعنی سال2002-2003ء والی صورت حال سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔موصولہ خبروں کے مطابق پاکستان نے اپنی جانب ایل او سی اور سرحد کے قریب بسنے والے عوام کو لائوڈ اسپیکروں پر کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں سے باہر نکل کر محفوظ مقامات کی جانب چلے جائیں ۔
ادھر دوسری جانب بھی لائن آف کنٹرول چونکہ کافی نزدیک ہے، بھارتی علاقوں کے عوام نے بھی ان ہدایات کو سنتے ہوئے اپنے علاقے خالی کردیے ہیں اور کچھ لوگ جو اب تک وہاں ٹکے ہوئے تھے، وہ بھی گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں اور صورت حال واپس اپنی پرانی جگہ پر لوٹ آئی ہے، جہاں وہ جنگ بندی سے قبل تھی۔ اوڑی جیسے سرحدی علاقے کا دورہ کرنے پر وہاں کے عوام کے چہروں سے اس خوف اور ڈر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ، جو اس صورت حال سے کئی برسوں سے الجھتے چلے آرہے ہیں ، شائد یہی وجہ سے کہ وہ اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں سے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ وہ ایک بار آپس میں جنگ کیوں نہیں کرلیتے تاکہ اس ساری مصیبت کا ایک ہی بار خاتمہ ہوجائے اوربعد میں وہ لوگ آرام و سکون سے رہ سکیں۔ فوجی توپوں اور بندوقوں کے سائے میں کئی دہائیوں تک ڈر ، خوف اور غیر یقینیت کے عالم میں زندگی گزارنے والے لوگ ہی جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کا کیا عالم ہے ۔
یہی صورت حال پیر پنچال کی دوسری جانب پونچھ اور نوشہرہ سیکٹروں کے عوام کا بھی ہے ، جہاں گزشتہ دس مہینوں کے دوران 6شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ جہاں تک دونوں ملکوں کی تازہ جنگی مہم کا تعلق ہے، اس میں دونوں جانب سے 105 mmکی ہلکی فیلڈ گنوں، 120 mmکی بھار موٹار اور اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائلوں کا کھلم کھلا استعمال کیا جارہا ہے ،جس کی وجہ سے یہ سارا علاقہ دہل کے رہ گیا ہے۔
جن لوگوں نے بھارتی پارلیمنٹ ہائوس پر ہونے والے حملے یعنی، دسمبر2001 کے بعد دونوں جانب سرحدوں پر ہونے والی بھاری اورخوفناک شیلنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، اوہ آج بھی یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال کوئی بھی خوفناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔ دونوں جانب سے اگرچہ فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے گولے داغے جاتے ہیں لیکن وہ اکثر شہری علاقوں میں آکر گرتے ، پھٹتے ہیں اور عوامی جان و مال کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اگر پچھلے صرف دو ماہ کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں جانب سے ہونے والی گولہ باری اور فائرنگ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور اس دوران جنگ بندی معاہدے کی 400مرتبہ خلاف ورزیاں کی گئیں ، جوحالیہ برسوں میں اس طرح کی کاروائیوںکی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے منقسم علاقوں کو بھارت اور پاکستان سے الگ کرنے والی 198کلومیٹر کی جنگ بندی لائن اور بین الاقوامی سرحد،778کلومیٹر کی لائن آف کنٹرول اور 110کلومیٹر کی حقیقی گرائونڈ پوزیشن پر دونوں جانب 2008ء میں ہونے والے ممبئی دہشت گردانہ حملے سے قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل کیا جاتا رہا لیکن ممبئی حملے کی وجہ سے یہ گاڑی ایک مرتبہ پھر پٹڑی سے اتر گئی ۔ سال2017کے دوران دونوں جانب ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی تعداد ایک ہزار تھی، جن میں سے 860ایل او سی پر اور 120انٹرنیشنل بارڈر پر ریکارڈ کی گئیں لیکن اس میں کوئی کمی واقع ہونے کی بجائے ستمبر 2016ء میں اوڑی سیکٹر میں قائم فوج کے برگیڈ ہیڈ کوارٹرپر ہونے والے فدائین حملے کے جواب میں بھارت کی طرف سے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کے دعویٰ کے بعد مزید تیزی آگئی۔
سال2017ویسے بھی ریاست جموں و کشمیر کے لیے کافی خراب سال رہا، پورے سال کے دوران تشدد کی سطح کافی بلند رہی اور عوام کے علاوہ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔ انسانی حقوق کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی مقامی تنظیم کولیش آف سول سوسائٹی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2017ء کے دوران کل 450 افراد تشدد کی نذر ہوگئے۔ ان میں سے 124مسلح فورسز کے اہلکار، 217عسکریت پسند، 108 عام شہری اور ایک اخوانی(سرکاری) بندوق بردار مارا گیا۔ اس برس میں 124 فورسز اہلکار مارے گئے، جس کا مطلب دو عسکریت پسندوں کے مقابلے میں ایک فوجی اہلکارکی ہلاکت ہے۔اسی کے ساتھ ایک جانب فوج کو اپنے 32جوان ایل او سی پر گنوانے پڑے جبکہ اس کے مزید 30اہلکار اندرونی آبادی والے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے ، دوسری جانب حکومت ہند کا دعویٰ ہے کہ سرحد کے ساتھ ساتھ ہونے والی گولہ باری میں 130سے140کے قریب پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کردیا گیا ۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس پورے برس کے دوران ریاست میں خون خرابے کی شدت کافی زیادہ رہی ۔
جہاں تک سرحدی خلاف ورزیوں کا تعلق ہے، اس میں اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن سال 2014ء میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے لی دربار میں ڈیرہ جمایا، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں انتہائی شدید نوعیت کا بگاڑ، کشیدگی اور تنائو پیدا ہوگیا اور سال2017ان برسوں کے دوران ہر لحاظ سے سب سے برا سال رہا ۔اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ تعلقات کے بگاڑ میں یکا یک 200فیصد کا اضافہ ہوگیا ۔ 19دسمبر2017ء کو بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں لوک سبھا کو مطلع کیا گیا کہ سال2017ء میں پاکستان کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی 771مرتبہ خلاف ورزیاں ہوئیں، جب کہ اس کے مقابلے میں سالِ رفتہ کے دوران یہ تعداد 228تھی۔
اس طرح سال2014کے دوران ان خلاف ورزیوں کی تعداد 153تھی۔ پاک بھارت بین الاقوامی بارڈر پر جنگ بندی کی 110خلاف ورزیاں ہوئیں ، جوگزشتہ چار برسوں کے دوران سب سے کم تعداد تھی۔ دوسری جانب پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت نے اس برس کے دوران جنگ بندی معاہدے کی 1300مرتبہ خلاف ورزی کی۔ 8دسمبر2017 کو اسلام آباد میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ میں ترجمان محمد فیصل نے اعداد و شمار دیتے ہوئے کہا ’’ سال2017ء کے دوران بھارت کی جانب سے ایل او سی اور بین الاقوامی بارڈر پر جنگ بندی معاہدے کی 1300مرتبہ خلاف ورزی کی گئی ، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں52ہلاکتیں واقع ہوئیں جبکہ 175 لوگ بری طرح سے زخمی ہوگئے ۔ ہم نے بارہا یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ سرحدوں پر بھارتی جارحیت اس پورے خطے کے امن و سکون کے لئے نقصان دہ ہے ‘‘
بھارت اور پاکستان کے درمیان’ اچھے اور برے دنوں‘ کے دوران صورت حال تقریباً ایسی ہی رہی ہے۔ دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ہیپی مون جیکپ(Happymoon Jackup) کا کہنا ہے ’’ اعداد و شمار اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ افہام و تفہیم ، بامعنی مذاکرت اور سرحدوں کی صورت حال ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ‘‘ اپنی ایک مفصل رپورٹ’’ جموں و کشمیر میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں‘‘ جو انہوں نے امریکی ادارے ’ یونائیڈڈ سٹیٹس انیشیٹو فار پیس(USIP)کے لئے 2017ء میں تیار کی تھی، میں مذکورہ پروفیسر کا کہنا ہے ’’ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس طرح کی خلاف ورزیوں کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان ایک مدت سے موجود ہے اور ان خلاف ورزیوں کو مسئلہ کشمیر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ یہ تو محض ’ مشتے نمونہ از خروارے‘ ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے لئے کوئی مشکل کام نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کریں ، جن سے حالات معمول پر آسکیں۔ تاہم اس حوالے سے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار طے کرنے سے قبل اولین ترجیح2003ء کے جنگ بندی معاہدے کو بحال کرنا ہونی چاہیے‘‘
پیچھے مُڑ کر دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان سال2003ء کئی لحاظ سے اہم رہا ، اسی برس کے دوران دونوں کے درمیان بہتر تعلقات کی ایک کرن سی جاگی تھی ، اس سال سرحد پر صرف دو خلاف ورزیاں ہوئیں ، جبکہ اس سے صرف ایک سال قبل 2002ء میں صورت حال انتہائی خراب رہی ،جب دونوں جانب 5800سرحدی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں ، سال2001میں یہ تعداد 4134درج کی گئی ،سال2004ء میں صرف 4خلاف ورزیاں ہوئیں، 2005ء میں6، 2006ء میں3، 2007ء میں 21اور سال2008ء میں86خلاف ورزیاں درج کی گئیں، اس کے بعد کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر سال2009ء میں یہ گراف محض 35خلاف ورزیوں تک محدود رہا لیکن اس کے بعد گویا اس کو پھر سے کسی کی نظر لگ گئی اور سال2010ء میں خلاف ورزیوں کی تعداد 70درج کی گئی، سال2011ء میں 62اور 2012ء میں 114بار سرحدی خلاف ورزیاں ہوئیں ، یہ تعداد بڑھتی گئی اور 2013ء میں 347تک جا پہنچی۔ آگے چل کر سال2014ء میں 583، 2015ء میں405اور2016ء میں449سرحدی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئیں۔
اعداد و شمار کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا اور اگرچہ یہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب جس بات کی کمی محسوس کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ان سے نمٹنے یا کم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی جا رہی ہے ، حالت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے بھی برائے نام رہ گئے ہیں ، جس کی وجہ سے دونوں جانب عوام کے اندیشے اور فکر و تشویش میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے قومی حفاظتی صلاح کار اکثر ملتے رہتے ہیں اور وہ گزشتہ سال دسمبر میں بنکاک میں بھی ایک ساتھ بیٹھے تھے لیکن اس کی وجہ سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو پائی۔ جہاں تک سرحدوں پر پائی جانے والی کشیدگی کا تعلق ہے، اس کی وجہ سے ایک عام آدمی، جو سرحدوں کے قریب رہتا ہے ،بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ایسے میںاگر بندوقوں اور توپوں کے دہانے بند نہ کیے گئے تو سرحدی ٹکرائو کے حوالے سے 2018ء اور بھی بھیانک سال ثابت ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں